Abdul Hanan Raja.Column

یہ کیسا پاکستان ہے .. عبد الحنان راجہ

عبد الحنان راجہ

کسی دانشور کا قول ہے کہ ’’ سمجھ دار وہ نہیں جو بڑی بڑی باتیں کرنے لگے بلکہ عقل مند وہ ہے جو چھوٹی چھوٹی باتیں سمجھنے لگے ‘‘، مگر یہاں گنگا الٹی بہتی کھلی آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہے کہ ہمارے بڑوں کو بھی بڑے بڑے ظلم نظر آتے ہیں نہ سمجھ آتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے احوال تو دیکھیں کہ دانستہ طور پر ملک کو معاشی اور توانائی کے بحران کا شکار کر رکھا ہے۔ 1990ء میں پی پی پی حکومت سے لیکر پی ٹی آئی کی حکومت تک بجلی پیدا کرنے والے اداروں ( آئی پی پیز) کے ساتھ ملک اور عوام دشمنی پر مبنی معاہدہ پر نظر ثانی کی کسی کو توفیق نہ ہوئی۔ عوام اور ملک دشمنی پر مبنی ان اداروں کی تینوں شرائط آج تک مانی جا رہی ہیں، کہ جس کے تحت حکومت بجلی بنانے والی کمپنیوں کو رعایتی نرخوں پر تیل فراہمی کی پابند، دوئم بجلی یونٹ کی قیمت ڈالر سے منسلک اور سوئم پیداوار شروع ہو جانے کے بعد حکومت ایک بھی یونٹ نہ لے تب بھی پیداواری گنجائش کے برابر قیمت کی ادائیگی، ظلم بالائے ظلم کہ یہ کمپنیاں رعایتی نرخوں پر ملنے والے تیل کو مہنگے داموں فروخت کرنے میں بھی آزاد۔ عوام اور ملک کے لیے مرنے والے ان لیڈروں سے کوئی پوچھے کہ جبکہ یہ معاہدے ہمارے صنعتی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں پھر کیوں انہوں نے عوام کو ان معاشی درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ ایک ہزار ارب سے زائد کا سالانہ خسارہ اس ملک کے سر تھوپنے والے سیاسی قائدین کے گریبانوں تک اگر عوام پاکستان کے ناتواں ہاتھ پہنچ پائیں تو دست بستہ عرض کریں کہ حضور یہ درست کہ آپ کے محلات کی روشنیاں ہمارے خون سے جلتی ہیں اور آپ کو تو مفت بجلی اور نجانے کیسی کیسی سہولیات میسر مگر ہماری کٹیا کو رعایتی نرخوں پر چند سو یونٹ کی سہولت ہی بہم پہنچا دیں، کب تک عوام آپ کی تجوریاں بھرتی اور آپ کے گناہوں کا خمیازہ بھگتے رہیں گے۔ اس ملک پر مسلط شاہی خاندانوں کے لیے دن رات کے چوبیس گھنٹے انکی من مرضی کے فیصلوں کے لیے نظام انصاف کے دروازے کھلے کہ ایک طرف ان کے پاس بے پناہ مال و دولت تو دوسری طرف عوامی مقبولیت، کہ ان کے سہارے کہیں تو وہ کئی دہائیوں تک اپنے خلاف کیسز کو معرض التوا میں ڈلوا سکتے ہیں اور اس طاقت کے بل بوتے وہ اپنے مفاد کے فیصلے گھنٹوں میں کروانے کی قدرت رکھتے ہیں، ان کے ناسازی طبیعت کے بہانے بھی برداشت کئے جاتے ہیں اور صد سلام اس نظام انصاف کو جو سال ہا سال ان کی تندرستی کے لیے دعا گو اور انکی آمد کا منتظر رہتا ہے۔ یہ کیسا عدل ہے کہ جو اپوزیشن پر تو پڑتا ہے مگر جب انہیں مقتدر کر دیا جائے تو انکے ہی اشارہ آبرو پر ناچتا ہے، یہ کیسا احتساب ہے کہ جو محتسب کے ہی گلے پڑ جاتا ہے، یہاں کیسا آئین نافذ ہے جو اربوں کے مجرموں کو بچ نکلنے کے قانونی نکات فراہم کرتا ہے۔ یہ کیسے ماہرین قانون ہیں جو بھاری فیسوں کے عوض قومی مجرموں کی وکالت کرتے اور ان کے دفاع میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے نظر آتے ہیں، یہ کیسے بیوروکریٹ ہیں کہ جن کے دروازے سائلین کے لیے بند اور طاقتوروں کے لئے ہمہ وقت کھلے.، یہ کیسی ترقی ہے جو ہر سال معکوس اور یہ کیسی غربت ہے جو طبقہ اشرافیہ سے ہمیشہ دور ہی رہتی ہے۔ کیا اس نظام کے علمبرداروں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ وسائل کا رخ آج تک غریب اور متوسط طبقہ کی طرف کیوں نہ موڑا جا سکا۔ ترقی اور اہلیت صرف امرا کے بچوں کا ہی مقدر کیوں بنتی ہے۔ بات کچھ کچھ سمجھ آتی ہے کہ کیوں سیاست دان اپنا گھر بار، کاروبار چھوڑ کر سیاسی دھندے کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں کہ ان کے مفادات اور انکا کالا دھن اسی سیاست سے سفید ہوتا ہے۔ سیاست میں آ کر سیاست دانوں کی تقدیر تو چند سال میں بدل جاتی ہے مگر بے شعور عوام کی تقدیر ہے کہ جو ستر سال سے بدلنے کا نام تک نہیں لے رہی۔ یہ کیسا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے کہ جہاں بیوائیں اپنے بچوں کی کفالت کے لیے عزتیں بیچنے پر مجبور، جہاں یتیموں کے مال کو مافیا ہڑپ کر جاتے ہیں اور جہاں بچے خوراک کی کمی کے باعث سسک سسک کر مرتے ہیں، جہاں آٹے کے حصول کے لیے اموات ہوتی ہیں اور رحمتوں کا مہینہ غریبوں کے لیے سوہان روح بنا دیا جاتا ہے، جہاں قاتل اور مجرم دندناتے پھرتے ہیں اور شریف شہری بے عزت بچانے کی فکر میں رہتے ہیں، جہاں حوا کی بیٹی کی عزت تار تار کرنے والے مجرموں کو قانون پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے، جہاں سیاسی قائدین اور طاقتوروں کے لیے ہر جرم سے معافی کا اذن عام ہو، جہاں دن دیہاڑے ریاستی ادارے قتل عام کر کے ترقیاں پاتے ہیں، یہ کیسا پاکستان ہے کہ جہاں ملک کے غداروں کو اعزازات سے نوازا جاتا ہے اور جہاں مذہب کے نام پر دنگا فساد اور قتل و غارت کو عشق کا نام دیا جاتا ہے، جہاں علم اور حلم کی بات گناہ متصور ہوتی ہے، جہاں اللہ کے پاک نام سے آغاز کے بعد انصاف کو جھوٹ میں لپیٹا اور جہاں بے حیائی کو آزادی نسواں کا نام دیا جاتا ہے، جہاں کسی مدبر، مفکر اور عالم کی حرمت محفوظ نہیں، یہ کیسا اسلامی جمہوریہ پاکستان
ہے کہ جہاں اقتدار کے حصول کے لیے تمام اصول بالائے طاق رکھ دئیے جاتے ہیں اور جہاں میڈیا
سر عام ریاستی اداروں پر غراتا ہے، چلتے چلتے چہیتوں کی تجربہ کاریاں بھی ملاخطہ ہوں کہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق 1964کے بعد پہلی بار مہنگائی کی شرح 36فیصد سے بھی متجاوز کر گئی جبکہ دیوالیہ سری لنکا میں یہ شرح 35فیصد، گویا ہم اس شعبہ میں ایشیا بھر میں ریکارڈ قائم کر رہے ہیں، مگر عوام مایوس نہ ہوں انکے ’ باکردار ‘ لیڈران انکی بہتری کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔ عدالتوں میں، دھرنوں میں، میڈیا میں اور یہ سیاست دان قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ یہ ایسا اسلامی جمہوریہ ہے کہ جہاں نہ اسلام ہے اور نہ جمہوریت ہے، آپ بھی سوچئے اور میں بھی!۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button