ColumnM Riaz Advocate

ارکان پارلیمنٹ کے استثنیٰ اور استحقاق کا قانون .. محمد ریاض

محمد ریاض

پاکستانی مجلس شوریٰ یعنی پارلیمنٹ نے آئین کے آرٹیکل 66کے تابع ارکان پارلیمنٹ کے لئے استثنیٰ اور استحقاق بل کی منظوری دے دی ہے۔ اس بل کے نام سے بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں یا دیگر مراعات میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ جبکہ بل کے مندرجات بل کے نام سے بالکل برعکس ہیں۔ درحقیقت اس بل کا مقصد ارکان پارلیمنٹ کو غیر معمولی حالات میں سہولت فراہم کرنا ہے تاکہ ارکان پارلیمنٹ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کر سکیں۔ اور بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے پارلیمانی امور سرانجام دے سکیں۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ اس بات کی گواہ رہی ہے کہ اکثر مواقع پر حکومت وقت مخالف سیاسی جماعت کے سرکردہ قائدین کو فوجداری و دیوانی، دہشت گردی، منشیات و دیگر مقدمات میں الجھاتی رہی ہیں، ان مقدمات کا مقصد مخالف سیاسی قوت کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے دبائو میں لانا یا پھر پارلیمان کی کاروائی میں شامل ہونے سے روکنا ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں بہت سے مواقع پر یہ دیکھنے کو ملتا رہا کہ کس طرح شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، رانا ثناء اللہ، علی وزیر، خواجہ سعد رفیق، میاں جاوید لطیف، خواجہ آصف و دیگر کئی ارکان پارلیمنٹ عمران خان حکومت کے زیر عتاب رہے۔ حد تو یہ ہے کہ عمران خان حکومت میں گرفتار رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو شہباز شریف حکومت میں بھی کئی ماہ تک مقدمات میں ضمانتیں ملنے کے باوجود نہ تو رہا کیا گیا اور نہ ہی متعدد اسمبلی اجلاسوں میں آنے کی اجازت ملی۔ بعض اوقات تو سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ اپوزیشن جماعتوں کے بار بار مطالبہ اور احتجاج کے باوجود ان پابند سلاسل ارکان پارلیمنٹ کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کرتے تھے۔ یاد رہے ماضی میںممبران آف قومی اسمبلی احتیاطی نظر بندی اور پیشی سے مستثنیٰ آرڈیننس 1963جاری کیا گیا مگر بدقسمتی سے پاکستان کے سیاسی حالات کی مجبوریوں میں یہ آرڈیننس اپنی وُقت کھو بیٹھا اور غیر فعال ہوگیا۔ رواں سال ماہ جنوری میں مایہ ناز سینئر پارلیمنٹرین سینیٹر میاں رضا ربانی صاحب نے سینیٹ میں بل پیش کیا جس کو منظور کرلیا گیا۔ اس کے بعد ماہ مارچ میں قومی اسمبلی سے بھی اس بل کی منظوری مل گئی۔ اس بل کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:
قانون کا اطلاق:
اس بل کا اطلاق ممبران قومی اسمبلی اور سینیٹ آف پاکستان پر لاگو ہوگا۔
حفاظتی حراست کے قوانین کے تحت گرفتاری:
صدر یا چیئرمین یا سپیکر کی طرف سے، اجلاس طلب کرنے کے بعد کسی رکن کو احتیاطی حراست سے متعلق کسی قانون کے تحت حراست میں نہیں لیا جائیگا۔
ممبر پارلیمنٹ کے خلاف مقدمہ کا اندراج:
کسی رکن کے خلاف ایف آئی آر درج اندراج یا ریفرنس دائر کئے جانے کے بعد، چیئرمین یا سپیکر کو رجسٹریشن یا فائلنگ بارے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر مطلع کیا جائے گا اور ایف آئی آر یا ریفرنس کی کاپی چوبیس گھنٹے کے اندر سپیکر یا چیرمین سینٹ کو فراہم کی جائے گی۔
گرفتاری ؍ حراست کی اطلاع:
جب کسی رکن کو کسی مجرمانہ الزام میں یا کسی مجرمانہ جرم کے تحت گرفتار یا گرفتار کرنے کی ضرورت ہو یا عدالت کی طرف سے قید کی سزا سنائی جائے یا ایگزیکٹو آرڈر کے تحت حراست میں لیا گیا ہو تو جج، مجسٹریٹ یا ایگزیکٹو اتھارٹی، چیئرمین یا سپیکر کو فوری طور پر گرفتاری، حراست یا قید کی وجوہات کی نشاندہی بارے حقیقت سے آگاہ کرے گی ۔ جب کسی رکن پارلیمنٹ کو کسی کمیشن، ٹربیونل، اتھارٹی، ادارے، ایجنسی یا دیگر کی طرف سے طلب کیا جائے یا اسے کسی تحقیقات یا انکوائری کے لیے پیش ہونے کی ضرورت ہو تو متعلقہ اتھارٹی مختصر حقائق ؍ وجوہات سے چیئرمین یا سپیکر کو مطلع کرے گی۔
رہائی بارے اطلاع:
جب کوئی رکن پارلیمنٹ اپنی گرفتاری یا نظربندی کے بعد ضمانت پر رہا ہو جائے یا بصورت دیگر مجرمانہ الزام سے بری ہو جاتا ہے تو متعلقہ اتھارٹی کی طرف سے اس حقیقت سے چیئرمین یا سپیکر کو آگاہ کیا جائے گا۔
زیر حراست رکن کو پارلیمنٹ میں پیش کرنا:
کسی کمیٹی کا چیئرمین، سپیکر یا چیئرمین سینیٹ آف پاکستان کسی زیر حراست رکن پارلیمنٹ کو سینیٹ، قومی اسمبلی یا کسی کمیٹی کے اجلاس جس کمیٹی کا زیر حراست فرد ممبر ہے اسکو اجلاس میں شرکت کے لیے طلب کرے گا۔ سیکرٹری کے دستخط شدہ پروڈکشن آرڈر پر یا چیئرمین، سپیکر کی طرف سے اختیار کردہ کسی دوسرے افسر کے ذریعے، وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت کو مخاطب کیا جائے گا جہاں ممبر پارلیمنٹ حراست میں رکھا گیا ہے۔ وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت یا اس طرح کی دوسری اتھارٹی زیر حراست رکن پارلیمنٹ کو سارجنٹ ایٹ آرمز کے سامنے پیش کریگی۔ اور سارجنٹ ایٹ آرمز اجلاس یا اجلاسوں کے اختتام کے بعد، ممبر پارلیمنٹ کو وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت یا دیگر اتھارٹی کی تحویل میں واپس دے گا۔
گرفتاری سے استثنیٰ:
کسی بھی رکن کو سیشن شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل حراست میں نہیں لیا جائے گا جس میں اس رکن پارلیمنٹ کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ پرائم منسٹر کے انتخاب کے لیے ووٹ، اعتماد کا ووٹ یا عدم اعتماد کا ووٹ، منی بل ( سالانہ بجٹ) اجلاسوں میں شرکت۔
پارلیمنٹ کی حدود کے اندر گرفتاری:
پارلیمنٹ کے کسی ممبر کو سپیکر یا چیئرمین کی اجازت کے بغیر پارلیمنٹ کی حدود کے اندر سے گرفتار نہیں کی جائے گا۔
قانونی کاروائی کا اطلاق:
کسی عدالت، ٹربیونل یا دیگر اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ کسی قانونی کاروائی کا پارلیمنٹ کی حدود کے اندر کسی رکن پارلیمنٹ پر اطلاق نہیں ہوگا۔
قانون میں نقائص:
اس قانون کے مطالعہ کے دوران ایک انتہائی اہم نقص منظر عام پر آیا۔ بظاہر اس قانون کا اطلاق ممبر پارلیمنٹ یعنی رکن قومی اسمبلی یا رکن سینٹ آف پاکستان پر ہوتا ہے۔ مگر قانون کی سیکشن نمبر 8اور کلاز Aمیں درج ہے کہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر بلائے گئے اجلاس سے ایک ہفتہ پہلے تک ممبر پارلیمنٹ کو گرفتاری سے استثنیٰ حاصل ہوگا۔ آئینی طور پر قومی اسمبلی کے ممبر یا سینیٹ آف پاکستان کے ممبر کا کسی صوبہ کے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اس بل کی ڈرافٹنگ کے دوران کہیں نہ کہیں غلطی ہوگئی ہے۔ بل ڈرافٹ کرنے والوں کے ذہن میں یا تو اس قانون کا اطلاق ممبر پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کے ممبران پر بھی لاگو کرنا مقصود تھا یا پھر اس بل میں وزیراعلیٰ کے انتخاب والا جملہ غلطی سے لکھ دیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button