Columnمحمد مبشر انوار

انتخاب مئی یا اکتوبر یا ۔۔۔۔۔مبشر انوار

محمد مبشر انوار( ریاض)

 

مسلمہ مہذب و جمہوری معاشروں میں یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ جمہوری عمل ایک تسلسل کے ساتھ آئین کے تحت بروئے کار رہتا ہے اور حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ البتہ پاکستان جیسے ملک میں یہ عمل غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کے باعث نہ صرف پٹڑی سے اتر جاتا ہے بلکہ اس کے اثرات جمہوری ادوار میں بھی واضح دیکھے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے کہ آئین کے تحت موجودہ سب سے بڑی سیاسی جماعت، دو صوبوں میں اسمبلیاں تحلیل کر چکی ہے اور آئین کے مطابق ان اسمبلیوں کے انتخابات نوے روز کے اندر ہونا ضروری ہیں تا کہ پاکستان میں آئین کی بالا دستی ثابت ہو سکے لیکن حالیہ صورتحال اس کے مکمل طور پر برعکس ہے۔ پی ڈی ایم کی جماعتیں وفاق میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد، تحریک انصاف کے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کے بعد، اول تو ان کے استعفے منظور نہیں کئے گئے، دوئم ذاتی مفادات کے تحت فوری طور پر تحریک انصاف کے استعفیٰ منظور کرکے، خالی نشستوں پر آئین کے مطابق ضمنی انتخابات نہیں کروائے گئے۔ دوسری طرف تحریک انصاف مسلسل واویلا کرتی رہی کہ پی ڈی ایم کو اقتدار رجیم چینج آپریشن کے بعد ملا ہے لہذا قوم کا فریش مینڈیٹ ضروری ہے اس لئے پورے ملک میں نئے انتخابات کروائے جائیں جبکہ اس دوران پنجاب میں پی ڈی ایم نے تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کی وفاداریاں مبینہ طور پر خریدیں اور اپنی حکومت بنا لی۔ پھر ایک قانونی جنگ عدالتوں میں لڑی گئی اور بکائو اراکین کے ووٹ پی ڈی ایم سے نہ صرف واپس ہوئے بلکہ ان کی رکنیت بھی ختم کر دی گئی۔ بعد ازاں ضمنی انتخابات میں عوام نے پی ڈی ایم اور ان لوٹے اراکین کا بھرکس ووٹوں کے ذریعہ نکال دیا اور تحریک انصاف کی حکومت میں پنجاب میں پھر قائم ہو گئی لیکن عمران خان مسلسل پورے ملک میں انتخابات کا مطالبہ کرتے رہے، جس پر پی ڈی ایم کے اکابرین عمران کو اپنی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے پر اکساتے رہے کہ دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سے قومی نمائندوں کا ستر فیصد حصہ خالی ہو جائے گا، لہذا جمہوری روایات کے مطابق حکومت وقت کو پورے ملک میں ایک ساتھ انتخاب کروانا لازم ہو جائیگا۔ عمران خان کوشش کے باوجود فوری طور پر دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل نہ کر پائے اور اس میں کئی ایک وجوہات کے باعث بالآخر جنوری میں اپنی حکومتیں تحلیل کردی، آئین اور جمہوری روایات کے مطابق لازم تھا کہ حکومت نوے روز میں انتخابات کا انعقاد کرتی لیکن بدنیتی کہیں یا آقائوں کی خواہشات یا ہوس اقتدار کا تڑکا کہ حکومت وقت نے اسمبلیوں کی تحلیل کرنے کی سمری موصول ہوتے ہی گورنروں کے ذریعہ اس میں رخنے ڈالنے شروع کر دئیے۔ معاملات عدالتوں میں گئے اور مسلسل قانون دلائل کے ساتھ آخر کار عدالت عظمی کی طرف سے پنجاب میں 14مئی کو انتخابات کی تاریخ دی گئی جبکہ اس سے قبل عدالت عظمی آئین کے مطابق نوے روز میں انتخابات کروانے کا حکم بھی دے چکی تھی لیکن حکومت، الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں کے ٹال مٹول سے ضمنی انتخابات منعقد کروانے کی آئین شکنی تو ہو چکی لیکن عدالتیں ابھی بھی تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ علاوہ ازیں! مسلم لیگ ن اپنے ماضی کے عین مطابق بظاہر ایک بار پھر عدالت میں تقسیم کروا چکی ہے اور معزز جج صاحبان دو گروہوں میں منقسم نظر آ رہے ہیں، جن کے متعلق قارئین و عوام بخوبی جانتے ہیں لیکن کیا اس طرح مسلم لیگ ن اپنے مقاصد حاصل کر پائے گی؟ کیونکہ اس وقت میڈیا میں ایسی تشویشناک خبریں زیر گردش ہیں کہ حکومت ایک انتظامی حکم کے تحت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو عہدے سے ہٹانے کے لئے غوروخوض کر رہی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اس وقت سختی کے ساتھ آئین پر عمل درآمد کروانے کی کوشش کر رہے ہیں گو کہ عمومی رائے یہی ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں دانستہ تاخیر کے باعث آئین شکنی ہو چکی ہے اور عدالتوں کو آئین شکنی پر ملزمان کے ساتھ سختی سے نپٹنا چاہئے لیکن معروضی حالات اس کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں، اس کو ملحوظ خاطر رکھنا بھی ضروری ہے۔ تا ہم عدالت عظمیٰ کا پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے کیا گیا فیصلہ انتہائی اہم ہے اور اس وقت ساری نظریں اس پر گڑی ہیں کہ آیا حکومت، الیکشن کمیشن اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس فیصلے پر عملدرآمد کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟۔ اگر اس فیصلے پر عملدرآمد ہو جاتا ہے تو گمان کیا جا سکتا ہے کہ ابھی سیاسی جماعتوں او ر ان کے اکابرین میں آئین کی اہمیت باقی ہے اور اگر اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو پھر کیا ہوگا؟۔ معروضی حالات اس امر کی چیخ چیخ کر نشاندہی کر رہے ہیں کہ حکومت وقت کسی بھی صورت انتخابی عمل میں نہیں جانا چاہتی اور ہر صورت عدالت عظمی کے فیصلے پر حیلے بہانے عملدرآمد رکوانا چاہتی ہے یا ایسے داؤ پیچ استعمال کرنا چاہتی ہے کہ جس سے ایک طرف موجودہ حکومت کے بڑے سیاسی شہادت کے رتبہ پر فائز ہو جائیں اور دوسری طرف فوری طور پر اس فیصلے پر عملدرآمد ممکن نہ رہے۔ عدالت عظمیٰ کی رائے کے مطابق مذاکرات کا ڈول ڈالے سے قبل ہی پی ڈی ایم نے عدالت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ عدالت کا مذاکرات کے لئے کہنا کسی بھی طور مناسب نہیں، ویسے حقیقت بھی یہی ہے کہ عدالت کا کام فقط آئین و قانون کے مطابق فیصلے دے کر ان پر عملدرآمد کروانا ہے، سیاسی جماعتیں کیا کرتی ہیں اور کیا نہیں، ان کو رائے دینا یہ مسئلے کا حل بتانا واقعتا عدالت کا کام نہیں، بالخصوص پاکستانی معاشرے میں کہ جہاں سیاسی جماعتیں ہمہ وقت اپنی غلطیوں کے لئے دوسروں کا کندھا استعمال کرنے کے لئے تیار نظر آتی ہیں۔ رجیم چینج آپریشن کے بعد سے عمومی تاثر یہی نظر آتا ہے کہ موجودہ حکومت نہ صرف اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری کرے گی بلکہ عین ممکن ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کے تعاون سے ایسی صورتحال بھی بنائی جائے کہ مدت پوری ہونے کے بعد بھی اقتدار انہی لوگوں کے پاس رہے اور جمہوری عمل کو سویلین حکومت میں معطل کر دیا جائے، اس مفروضہ کو دانستہ یا نادانستہ ریاستی مشینری آف دی ریکارڈ عوام الناس میں دہراتی ہے تاکہ عوام اس کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو جائیں۔ قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے بعد بھی اقتدار سے چمٹے رہنے کی لئے، جن آئینی شقوں کا حوالہ دیا جاتا ہے، اس سے کم از کم ریاست پاکستان کی خدمت کسی صورت ممکن نہیں اور نہ ہی اقوام عالم میں اس کا وقار بلند ہو سکتا ہے، مراد اپنے اقتدار کے لئے یہ پاکستان کو سری لنکا بنانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کروانے کی صورت میں، وزیراعظم اور چیف الیکشن کمیشنر براہ راست توہین عدالت کے مرتکب ہوتے نظر آتے ہیں اور عدالت عظمی فوری طور پر ان دو شخصیات کو نا اہل قرار دے سکتی ہے جس کے نتیجہ میں فوری طور پر وزیراعظم کی نشست خالی ہو جائے گی اور اسی طرح چیف الیکشن کمیشن کی نشست بھی خالی ہو جائیگی۔ لہذا وزیراعظم کے نئے انتخاب کا مرحلہ تاخیری حربوں سے کیا جائے گا کہ جتنا وقت گزارا جا سکتا ہے، گزار لیا جائے اور اسی طرح چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا معاملہ وزیراعظم کے انتخاب کے بعد عمل میں لایا جائیگا، یعنی اس عمل میں آئین شکنی کا عمل مسلسل جاری رہے گا۔ بعد ازاں نئے وزیراعظم اور چیف الیکشن کمشنر فوری طور پر انتخابات کروانے میں تامل سے کام لیتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے مزید وقت کا مطالبہ کریں گے اور یوں وقت گزرتے گزرتے اگست تک پہنچا دیا جائیگا اور اسمبلی اپنی آئینی مدت بھی پوری کر لے گی۔ تب نگران حکومتوں کا غلغلہ ہو گا اور مزید وقت کھینچا جائیگا تاکہ موجودہ چیف جسٹس اپنی مدت ملازمت پوری کر لیں گے، یوں حیلے بہانوں سے آئین شکنی اس طرح کی جائیگی کہ وہ وقت کی ضرورت محسوس ہو البتہ انتخابات کے لئے وہ وقت مناسب ہو گا یا نہیں کہ اس دوران عمران خان مسلسل اپنی مقبولیت اور دبائو بڑھاتے رہیں گے اور ایسی صورت میں کیا اکتوبر انتخابات کے لئے موزوں ہو گایا پھر اکتوبر کے بعد ۔۔۔، گو کہ یہ غیر آئینی بات ہے لیکن ابھی تک آئین کے مطابق عملدرآمد کہاں ہوا ہے؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button