Column

سود اللہ اور اُسکے رسولؐ کے ساتھ جنگ جو جیتی نہیں جاسکتی

چودھری خادم علی مانڈلہ

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
پاکستان میں کہنے سُننے لکھنے اور بولنے کے لئے تو حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے اور یہاں کوئی قانون قران وسنت کے منافی نہیں بن سکتا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں ہر وہ قانون موجود ہے جس وجہ سے عملی طور پر ملک میں چوروں رشوت خوروں سود خوروں حرام خوروں بھتہ خوروں منشیات فروشوں ضمیر فروشوں قلم فروشوں قاتلوں دہشتگردوں مکاروں اور غداروں کی حکمرانی رہتی ہے، کیونکہ اگر ملک میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہوتی تو پھر حکم بھی اللہ تعالیٰ کا ہی چلتا قرآن و سنت کا نفاذ ہوتا جہاں چوروں کے ہاتھ کاٹے جاتے اور انکے ہاتھوں میں ملک نہ دیا جاتا ۔ قاتلوں کے سر قلم کئے جاتے اُن کے سروں پر تاج نہ پہنائے جاتے۔ ظلم کا نظام نہ ہوتا سودی نظام نہ ہوتا اللہ سبحان تعالیٰ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق قتل کیا جاتا یا پھانسی دی جاتی یا اُن کو ملک بدر کیا جاتا، ہمارا معاشرہ سودی معاشرہ بن چکا ہے جس میں بالکل خیر ہو ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور سود کو مٹانے اور اس سے بنی ہر چیز کو مٹانے کا کہا ہے۔ اسی لئے مومنوں کو سود چھوڑنے کا حکم بھی دیا اور سود نہ چھوڑنے کی صورت میں اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان جنگ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 275میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ترجمہ: اور اللہ نے حلال کیا بیع ( تجارت) کو اور حرام کیا سود کو، اور آیت نمبر 276میں فرمایا، ترجمہ: اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، اور آیت نمبر 278: میں فرمایا، ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود میں سے اگر تم ایمان رکھتے ہو، اور پھر آیت نمبر279میں واضع فرما دیا، ترجمہ: پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلانِ جنگ، اور قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کرنے والوں کے لئے زمین پر فساد برپا کرنے والوں کی جو سزا ہے وہ قران کی سورہ المائدہ مکی آیت نمبر 33میں واضع ہے اور جنگ کرنے والے صرف سود خور ہیں، ترجمہ: بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں، ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئی جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پائوں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا زمین سے دور ( یعنی ملک بدر یا قید ) کر دیئے جائیں۔ ہر وہ شخص اور ادارہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کر رہا ہے جو سود لے رہا ہے جو غالبًا حکومت ہے یا سود دے رہا ہے وہ بھی حکومت ہے یا سود لینے دینے میں سہولت کاری فراہم کر رہا ہے اس میں وہ تمام افسر بھی شامل ہیں جو قرضہ مانگنے جاتے ہیں اور یاد رکھیں ملک کی تباہی بربادی کا موجب صرف اور صرف سود ہے۔ حدیث میں سود کے 73وبال ( گناہ) ہیں، جن میں کم سے کم گناہ ماں سے زنا ہے لہذا حکمران سود ( حرام) کی لعنت سے بچیں اور قوم کو بھی بچائیں، ورنہ پوری دنیا سے بھیک مانگتے رہو گے پیٹ نہیں بھرے گا، ذلالت آپ کا مقدر ہوگی، عزت نہیں پائو گے کیونکہ عزت، عظمت صرف اللہ سبحان تعالیٰ اور اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی اطاعت میں ہی پوشیدہ ہے کیونکہ حرام کھانے سے بھوک ختم نہیں ہوتی بلکہ حرام کھانے سے موت واقع ہوتی ہے۔ یاد رکھیں کہ اللہ سبحان تعالیٰ نے معیشت کو اپنے ذکر کے ساتھ مشروط کر رکھا ہے، قرآن پاک کی سورۃ طٰہ آیت نمبر124میں واضع فرمایا ترجمہ: اور جس نے میرے ذکر سے منہ پھیرا تو بیشک اس کیلئے زندگانی تنگ ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے۔ اس آیت سے یہ واضع ہو گیا کہ معیشت اللہ کے ذکر کے ساتھ مشروط ہے اور اللہ کا ذکر یہی ہے کہ جو اللہ اور اُس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حرام کردہ چیزوں کو چھوڑ دو جن کے کرنے کا حکم ہے، اُن پر سختی سے عمل کریں جس کا نتیجہ بھلائی میں نکلے گا جو چیزیں فرض ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور ظلم کے خلاف اللہ کی رضا کیلئے جہاد کرنا فرض ہے۔ انصاف کرنا امانت میں خیانت نہ کرنا سچ بولنا کسی کا حق مت کھائو کسی پر ظلم نہ کرو رشوت مت لو کسی کا ناحق قتل نہ کرو اور سب اچھے کام کرنا کہ کچھ بھی ہو جیسے رشوت لینے اور دینے والا دونوں دوزخی ہیں، سچ بولو، ملاوٹ نہ کرو، کسی کا حق نہ کھائو، سود ( حرام) نہ کھائو اور فیصلے عدل کے ساتھ کرو، کسی پر ظلم نہ کرو ۔ لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے میں تمام برائیاں موجود ہیں جن سے اللہ کی رحمت نہیں بلکہ عذاب ہی مل سکتا ہے معاشرے میں جھوٹ عام رشوت عام سود عام ناحق قتل عام رشوت عام اقربا پروری عام شراب نوشی عام زنا عام ناچ گانا عام فحاشی عام چوری عام ملاوٹ عام راہزنی عام ہم فرائض سے بالخصوص جہاد سے باغی نظر آتے ہیں جبکہ حدیث میں ہے کہ نماز دین کا ستون ہے اور جہاد دین کی کوہان ( بلندی) ہے ان سب برائیوں کی وجہ سے ہی ہم زوال پذیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سب برائیوں سے بچنے ، اللہ اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button