Column

محمد ایوب خان تیر ی یاد آئی تیرے جانے کے بعد

قاضی شعیب خان

محترم قارئین ! پاکستان کی 75سالہ زندگی میں 25سال سے زائد عرصے کے دوران عنان اقتدار فوجی حکمرانوں کے قبضے میں رہا۔ جن میں سابق صدر پاکستان فیلڈمارشل جنرل محمد ایوب خان کے دور حکومت کو عوام آج بھی ہمیشہ قدر کی نگاہ سے یاد کرتے ہیں۔ پنجاب، خیبرپختونخوا سے لیکر سندھ، بلوچستان،آزاد کشمیر،گلگت بلتستان کے روٹوں پر چلنے والے اکثر ٹرکوں، ٹرالرز اور دیگر گاڑیوں کے پیچھے ٹرانسپورٹرز حضرات نے فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان مرحوم کی بڑی سے پورٹریٹ کے ساتھ مصرع درج ہوتا ہے ، تیر ی یاد آئی تیر ے جانے کے بعد، جو عوام کی عقیدت و احترام کا برملا اظہار ہے۔ سیاسی و معاشی مبصرین کے مطابق فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب مرحوم اپنے ملک کے عوام کے اقتصادی ، معاشی خوشحالی کے ساتھ ساتھ انتہائی مثبت اور درد دل سوچ کے حامل تھے۔ جن کی گراں قدر خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ہر سال 19اپریل کو مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ برسی منائی جاتی ہے۔ جنرل ایوب خان مرحوم کے بڑے صاحبزادے گوہر ایوب خان مسلم لیگ ( ن) کے دور حکومت میں میاں محمد نواز شریف کے وزیر خارجہ بھی رہے جبکہ ان کے پوتے عمر ایوب خان وزیر مملکت برائے خزانہ کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ بعدازاں عمر ایوب خان نے 2018 کے الیکشن میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی زیرقیادت پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر کے ان کی کابینہ کے اہم رکن بھی رہے اور تاحال عمران خان کے پراعتماد گروپ کا حصہ ہیں۔ تحریک انصاف کے قائد کے حکم پر عوامی دھرنوں، احتجاجی تحریکوں اور جیل بھرو تحریک میں پارٹی کے دیگر قائدین کے ساتھ شانہ بشانہ سرگرم رہے ہیں۔ ملک کے دیگر علاقوں کی طرح ان کے اپنے آبائی حلقہ انتخاب ضلع ہری پور میں جنرل ایوب خان مرحوم کے حوالے سے کافی ووٹ بنک موجود ہے۔ علاقے کے عوامی و سماجی حلقے الیکشن میں جنرل ایوب خان کے خاندان کے نامزدکردہ امیدواروں پر بھر پور اعتماد کر اظہار کرتے ہوئے سپورٹ اور ووٹ کرتے ہیں۔ جنرل ایوب خان مرحوم انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ وہ پاکستان کے انقلابی شاعر ساغر صدیقی کی شاعری سی بھی بہت متاثر تھے ۔ اپنے دور حکومت میں لاہور میں قیام کے دوران تمام سرکاری پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دوریش منش شاعر ساغر صدیقی مرحوم سے ملاقات کرنے کے لیے ان کے پاس خود چل کر گئے تھے۔ اس موقع پر ساغرصدیقی نے اپنے شاعری کے ایک تاریخی مصرع میں کہا تھا، جو شائد آج کے دور کے حکمرانوںپر صادر آتا ہے۔
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے
ایوب خان مرحوم 14 مئی 1907 کو خیبرپختونخوا کے ضلع ہری پور کے علاقے ریحانہ میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم قریبی گائوں سرائے صالح کے پرائمری سکول سے حاصل کی اور 1922میں علی گڑھ یونیورسٹی میں داخل ہوئے بعدازاں ایوب خان نے رائیل ملٹری اکیڈمی سینڈہرسٹ جوائن کرکے اپنے فوجی سفر کا آغاز کرتے ہوئے 1958 میں پاک فوج میں فائیو سٹارزجنرل کے عہدے پرترقی کی ۔ یوں پہلے فیلڈ مارشل اور صدر پاکستان کے اعلی عہدی پر فائزہوئے۔ جنرل ایوب خان نے اپنے دور اقتدار میں آزاد مارکیٹ کے شعبے کو ترقی دیتے ہوئے پاکستان کی صنعت کوپرائیویٹائزڈ کرتے ہوئے ملک کی مصنوعات کو یورپ ، ایشیائی تجارتی مارکیٹوں تک ایکسپورٹ کیا ۔ ملک کی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا ۔پاکستان کی زرعی و صنعتی شعبے میں انقلابی اصلاحات روشناس کر کے بیرون اور اندرون ملک کے سرمایہ کاروں کے لیے مراعات کا اعلان کیا۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے صنعتی اداروں کو فروغ دیا۔ ملک میں صنعتی انقلاب کے نتیجے میں غریب اور محنت کش طبقے کے ملازمتوں کے نئے نئے مواقع پیدا ہوئے ۔ ملک میں بے روزگار ی اور مہنگائی پر مکمل طور پرقابو پایاگیا۔ جس کے باعث پاکستان خود کفالت کی جانب گامزن ہوا۔ عوام کی معاشی اور اقتصادی صورتحال قدرے بہت بہتر ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جاری سیاسی، معاشی اور آئینی بحرانوں کے گرداب میں الجھے ہوئے پاکستان کے عوام آج بھی ایوب خان کے دور حکومت کو ترجیح دیتے ہیں۔ جس میں مہنگائی اور بیرروزگاری کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ملک کے انفراسٹریکچر کو مضبوط کیا ، سڑکوں، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں کا جال بچھایا، بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرنے کے لیے تربیلا اور منگلا کے مقام پر بڑے ڈیم تعمیر کیے۔ ملک میں زراعت کے شعبے کو مزید ترقی دینے کے لیے مربوط نہری نظام کیا ۔ عوام کے مسائل کے حل کے لیے 1960میں بلدیات کے ایک نئے انقلابی نظام کے تحت عوامی ریفریڈم کرایا جس انھوں نے95.6% کامیابی حاصل کی۔ خاندان کے درینہ مسائل کے پرامن حل کے لیے2 مارچ 1961میں مسلم لاء آرڈیننس نافذ کیا ۔ جس میں شادی شدہ خواتین کو تحفظ دیتے ہوئے شوہر کی جانب سے بیک وقت تین طلاقوں کے اعلان پر پابندی کر دی۔ مذکورہ قانون کے تحت یونین کونسل کی سطح پر مصالحتی کمیٹیاں قائم کی جس میں خواتین اور ان کے زیر کفالت کے نان و نفقہ کے ساتھ ساتھ جائیداد کے تنازعات، جہیز اور دیگر شکایات کے حوالے سے فوری انصاف کے نظام کی رائج کیا۔ اس نظام کی روشنی میں معاشرے کے غریب او ر متوسط طبقے کے عائلی حقوق کو مکمل تحفظ دیا گیا۔ جنرل ایوب خان نے 1960میں پاکستان کے دارالخلافہ کو کراچی سے راولپنڈی اسلام آباد میں منتقل کیا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان بہنے والے چھ دریائوں کے پانیوں کے منصفانہ حل کے لیے معاہدے کیے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں پاک بھارت 1965کی جنگ چھڑ گئی جس کا اختتام تاشقند معاہدے کی صورت میں ہوا۔ جس پر ان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے اختلاف کرتے ہوئے بغاوت کا اعلان کر دیا تھا۔ اس دور میں پاکستان کی آبادی 115ملین تک ہونے کی وجہ سے دنیا کا ساتواں ملک بن چکا تھا۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے اس خطرناک رجحان پر قابو پانے کے لیے بعض حلقوں کی تنقید کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک میں منصوبہ بندی پر سختی سے پابندی عائد کی اور پیش گوئی کی کہ اگر آبادی کو کنٹرول نہ کیا گیا تو ایک وقت آئے گا کہ پاکستانی پاکستانی کو کھائے گا۔ جنرل ایوب خان نے ملک بھر کے تمام سکول و کالجوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ان میں نصاب تعلیم کا نیا نظام رائج کیا۔ ملک میں زرعی اصلاعات نافذ کرتے ہوئے مالکان اراضی پر 12.5ایکڑز سے زائد، 500کنال چاہی اور 1000کنال سے بارانی زمین اپنے قبضے میں رکھنے پر پابندی عائد کی تھی۔ جس کے غربت میں خاتمے کے ساتھ ساتھ مزارعین کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا۔ ملک میں تیل کی صنعت کے فروغ کے لیے کراچی میں تیل صاف کرنے کی ریفائنری قائم کی۔ ملک کی سالانہ جی این پی گروتھ 15فیصد تک پہنچایا جو بھارت کے مقابلے میں تین گناہ زیادہ تھی۔ بدقسمتی سے پاکستان کے 22 بااثر خاندانوں نے ان تمام انقلابی مراعات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوتے ملک کی66فیصد صنعتی اداروں ،80 فیصد بینکوں اور انشورنش کے کاروبار پر قبضے کر کے پاکستان کی معیشت کا استحصال کیا۔ اس دور میں صنعتکاروں نے چینی کی فی کلو گرام نرخوں میں از خود ایک روپیہ اضافہ کیا تو پورے ملک میں ہنگامے شروع ہو گئے عوام مشتعل ہو کر سڑکوں پر احتجاج کرنے لگے۔ جس پر جنرل ایوب خان نے 1969 میں اقتدار سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ 1971کی جنگ کے دوران جنرل ایوب خان مشرقی پاکستان میں تھے جہاں انھوں نے جنگ میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا ارادہ کیا توان کی صحت کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی پیش نظر انھیں رو ک دیا گیا۔ جنرل ایو ب خان کافی بیمار ہوگئے تھے اور 19اپریل 1974کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ جنرل ایوب خان کی موت کے بعد ملک میں سٹیٹس کو کے عادی مراعات یافتہ طبقے نے پورے سیاسی و معاشی نظام کو محض اپنے مفادات کی خاطر یرغمال بنا رکھا ہے جو کسی بھی سسٹم کو چلنے نہیں دیتے۔ جس کا خمیازہ پوری پاکستانی قوم بھگت رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button