Column

پنجاب کے گوردواروں کی دلچسپ تاریخ

ماں جی اللہ والے

پاکستان سکھ مذہب کے لیے ایک مقدس سرزمین ہے۔ سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک دیو جی نے اپنی زندگی کے آخری 18سال کرتار پور میں گزارے تھے۔ کچھ روز قبل بھارت سے تقریبا تین ہزار سکھ یاتری پنجاب کے مختلف گوردواروں میں بیساکھی میلہ کی دس روزہ تقریبات میں شرکت کے لئے واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ مذہبی تقریبات میں شرکت کے بعد سکھ یاتری 18اپریل کو واہگہ بارڈر کے راستے واپس بھارت چلے جائیں گے۔ بیساکھی میلہ کی مرکزی تقریب گوردوارہ پنجہ صاحب حسن ابدال میں ہوئی ہے اس گوردوارے میں ایک پتھر پر بابا نانک کے ہاتھ کے پنجے کا نشان لگا ہوا ہے جس کے متعلق سکھ برادری کا ماننا ہے کہ ایک پتھر پہاڑی سے لڑھکتا ہوا آیا تو بابا جی نے اسے ہاتھ سے روک دیا جس کی وجہ سے پتھر پر بابا جی کے ہاتھ کے پنجے کا نشان بن گیا اور پھر وہاں پانی کا چشمہ بھی جاری ہو گیا۔ اس کرامتی نشانی کی وجہ سے یہاں کے گوردوارے کو’’ پنجہ صاحب‘‘ کہتے ہیں۔
اسی طرح فاروق آباد سے تین کلومیٹر کے فاصلہ پر سکھ برادری کا ایک اور مقدس گردوارہ’’ سُچا سودا‘‘ واقع ہے جہاں بابا گورونانک کسی زمانے میں آرام کرتے تھے۔ سکھ مذہب کی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ جب گورونانک پندرہ برس کے ہوئے تو ان کے والد کالو نے انھیں تجارت کرنے کے لئے بیس روپے دے کر دوسرے شہر روانہ کیا۔ بابا گورونانک نے سفر کے دوران راستہ میں ایک جنگل سے گزرتے ہوئے ہندو سادھووں کی ایک ٹولی دیکھی جو پوجا پاٹ میں مصروف تھی۔ بابا گرونانک نے سادھووں کے مہنت ( سردار) سے دریافت کیا کہ جنگل میں کھائے پئے بغیر کیسے رہتے ہو تو اس نے کہا ’’ جب ہمارا بھگوان کھانے کے لئے دے دیتا ہے تو ہم کھا لیتے ہیں۔‘‘ یہ سن کر بابا گرونانک کو ان پر ترس آیا انھوں نے تجارت کے لئے والد کی دی ہوئی رقم سے خوردونوش کا سامان خریدا اور سادھووں کو دے دیا۔ بابا گورونانک جب سفر سے واپس آئے تو والد نے تجارت کا احوال پوچھا تو گورونانک نے کہا کہ ’’ میں نے ایسا سودا کیا ہے جس کا منافع اگلے جہان میں ملے گا کیونکہ خدا کے ساتھ کیا جانے والا سودا انسانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ منافع بخش ہے۔ ‘‘بابا گرونانک نے جس مقام پر ہندو سادھووں کو کھانا کھلایا تھا وہ جگہ اب ’’ سُچا سودا گوردوارہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
اسی طرح سلطان پور میں گوردوارہ بیر صاحب ہے جس کے متعلق سکھ برادری میں ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ بابا گورونانک نے ندی کنارے بیری کی شاخ سے مسواک کرنے کے بعد اسے وہیں زمین میں دبا دیا، بعد میں وہی شاخ ہری ہو کر درخت بن گئی۔ اس تاریخی واقعہ کی یاد کو تازہ رکھنے کے لئے اس مقام پر گوردوارہ بیر صاحب تعمیر کیا گیا ہے۔ لاہور میں گوردوارہ ڈیرہ صاحب ہے جہاں سکھوں کے پانچویں گوروارجن دیو سنگھ جی کی سمادھی ہے۔ بادشاہی مسجد کے پہلو میں واقع اس تاریخی گوردوارہ کے لئے پاکستان آئے سکھ پارٹی نے قیمتی سنگ مرمر کے 480مختلف سائز کے پتھر تحفہ میں دیئے ہیں جن پر بابا گورونانک کے اقوال کنندہ ہیں۔ بابا گورونانک کی وفات کے حوالے سے بھی ایک واقعہ مشہور ہے کہ 22 ستمبر 1539 کو جب گورو نانک اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ہندوئوں اور مسلمانوں میں اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ آخری رسومات کس مذہب کے تحت ادا کی جائیں ؟۔ سکھ مذہب سے متعلق مختلف کتابوں میں لکھا ہے کہ ’’ بابا گورونانک نے پہلے ہی بتا رکھا تھا کہ جب میں اس دنیا سے چلا جائوں تو میرے اوپر ایک چادر ڈال دینا‘‘ چنانچہ ان کی ہدایت کے مطابق ان کے جسد خاکی پر چادر ڈال دی گئی۔ جب چادر اٹھائی گئی تو وہاں پھول بچھے ہوئے تھے، چنانچہ آدھے پھول ہندووں نے لے کر اپنی مذہبی رسم کے مطابق جلا دیئے اور وہاں سمادھی بنادی جبکہ باقی آدھے پھول مسلمانوں نے لے کر سمادھی کے نزدیک زمین میں دفنا کر بابا گورونانک کی علامتی قبر بنادی۔ کرتار پور گوردوارہ میں بابا گورونانک کی سمادھی اور علامتی قبر پاس پاس موجود ہے۔ دنیا بھر سے سکھ یاتری جب کرتار پور آتے ہیں تو وہاں بابا گورونانک کی سمادھی پر اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں جبکہ نزدیک ہی واقع علامتی قبر پر مسلمان ان کے لئے دعا کرتے ہیں۔ بابا گرونانک کی زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ان کا قرآن کریم پر پختہ ایمان تھا اور وہ اسے اللہ کا کلام مانتے تھے، گورونانک جی باقی تین الہامی کتابوں پر بھی ایمان رکھتے تھے۔ بابا گورونانک اسلامی تعلیمات سے اس قدر متاثر تھے کہ اپنے کلام میں اس کا ذکر کرتے رہتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button