ColumnNasir Sherazi

سیاسی خر مستیاں .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

طبی نقص کے باعث بینائی سے محروم افراد ہمدردی کے مستحق ہیں لیکن آنکھیں رکھنے والے اور بینائی کی نعمت سے مالا مال افراد کو حقائق نظر نہ آئیں تو ان کی حالت پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ گونگے بہرے ہوچکے ہیں، ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے، ان لوگوں کو قومی سلامتی کمیٹی کے چند روز قبل ہونے والے اجلاس اور اس کے جاری کردہ اعلامیے میں کچھ نظر نہیں آیا، ان کے بھونپو تواتر کے ساتھ بازی پلٹ جانے کی خبریں دے رہے اور قوم کو گمراہ کر رہے ہیں۔ قومی سلامتی کے حوالے سے اس اہم ترین اجلاس کے اعلامیے کی ہر سطر ایک واضح اعلان ہے جس میں مستقبل کے حوالے سے لائحہ عمل واضع ہے اور کہا گیا ہے کہ قومی معاملات پر کسی دبائو میں نہیں آئیں گے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہر معاملے میں اور خصوصاً جتھوں کو اداروں کے دروازوں پر لاکر انہیں یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ مسلز دکھا کر مرضی کے فیصلے حاصل کر لے گا تو یہ اس کی نادانی ہوگی۔ جب کہا گیا کہ درپردہ اہداف کے حصول کے لیے اداروں کے خلاف بیرونی قوتوں کی اعانت سے زہریلا پراپیگنڈا قومی سلامتی کو متاثر کرتا ہے تو سمجھ لینا چاہیے تھا کہ اب ایسے عناصر پر ہاتھ ڈالا جائے گا اور انہیں بے نقاب کرنے کے علاوہ کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ صاف لفظوں میں بتا دیا گیا کہ ہر قسم کی دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لیے کوششیں جاری رکھی جائیں گی تو اس کا مطلب یہ تھا کہ اب معاشی دہشت گردی بھی قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکے گی۔ اہم اجلاس کے ختم ہوتے ہی کچھ اچھی خبریں سامنے آئی ہیں، تحریک انصاف کے دور حکومت میں صرف صوبہ خیبر پختونخوا میں سیکڑوں افراد پر مشتمل سوشل میڈیا ٹیم بنائی گئی تھی جس کا اہم کام دیگر سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ کی کردار کشی اور اہم ملکی اداروں کے خلاف رائے عامہ کو ابھارتا تھا، ان افراد کو معقول ماہانہ تنخواہ اور اعزازیہ دیا جاتا تھا، اس ٹیم میں گیارہ سو افراد تھے جنہیں سرکاری فنڈز سے ادائیگیاں کی جاتی تھیں۔ نگران حکومت نے صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد اس پراجیکٹ کو بند اور ان تمام افراد کو فارغ کر دیا ہے۔ اس ٹیم کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز بلال احمد نامی شخص نے میڈیا پر آکر اپنی مذموم سرگرمیوں کا اقرار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی ٹیم ایسے کاموں میں ملوث رہی ہے جنہیں ناپسندیدہ کہا جاسکتا ہے، انہوں نے اپنے طرز عمل سے افواج پاکستان کو نقصان پہنچانے والی سوشل میڈیا سرگرمیوں کا اقرار کیا اور معذرت طلب کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا بیان حلفی بھی میڈیا پر پیش کیا جس
میں واضع کہا کہ آج کے بعد ان کا اس گروپ اور اس قسم کی سرگرمیوں مسے کوئی تعلق نہیں ہوگا ، اس اہم شخصیات کی گرفتاری کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔ پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث افراد کیخلاف ملک بھر میں کریک ڈائون جاری ہے لیکن اس حوالے سے اداروں کی ’’ پکڑو، سمجھائو اور چھوڑ دو‘‘ پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، ایسے افراد سخت ترین سزا کے مستحق ہیں جو نہ پکڑے جاتے تو اپنا ملک دشمن ایجنڈا زور و شور سے جاری رکھتے، اب
ثبوتوں کے ساتھ پکڑے گئے ہیں تو پھر معافی کیسی۔ یہ بات لکھ لی جائے کہ جنہیں وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھوڑا جائے گا وہ کسی اور انداز میں اس مافیا کا حصہ بن جائیں گے۔ اس مافیا کے کارندے پنجاب اور سندھ میں بہت بڑی تعداد میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہر آنے والے دن کے ساتھ ایجنسیوں کے ریڈار پر آتے رہیں گے جبکہ ایسے ہی کئی نیٹ ورک پاکستان دشمن طاقتوں کی سرپرستی میں بھارت، برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا سے چلائے جارہے ہیں جن میں انہی ممالک کے لوگ بھی شامل ہیں۔ فورسز کے ایک انتہائی کامیاب آپریشن کے بعد دہشت گردوں کے سرغنہ گلزار امام عرف شمبے کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا ہے جو عرصہ دراز تک کالعدم بلوچ ری پبلکن آرمی میں براہمداغ بگٹی کا نائب رہا اور مختلف دہشت گرد تنظیموں کے انضمام کے بعد بننے والی بلوچ نیشلسٹ آرمی کا سربراہ بن گیا۔ یہ تنظیم پنجگور اور نوشکی میں قانون نافذ کرنے والے ارادوں پر حملوں میں ملوث رہی۔ گلزار امام کے افغانستان اور بھارت کے دوروں کے ثبوت بھی ریکارڈ پر ہیں۔ گلزار امام نیٹ ورک کو پکڑنا حساس اداروں کی بہت بڑی کامیابی ہے جس پر اسکے افسر اور جوان مبارک کے مستحق ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں ان کی کارکردگی کو سراہا گیا۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی مختلف شخصیات کو متعدد مواقع پر قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے، افواج پاکستان اور عدلیہ کو تضحیک کا نشانہ بنانے اور عوام الناس کو بغاوت پر آمادہ کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تو انہوں نے دوران تفتیش ایسے انکشافات کئے جن کا تصور محال تھا۔ ان میں شہباز گل کے بعد اب علی امین گنڈا پور
قابل ذکر ہیں، شہباز گل گرفتاری کے بعد تفتیش کے مراحل سے گزار کر رہا ہوئے تو وہ طمطراق نظریہ آیا جو کبھی ان کی وجہ شہرت تھا۔ رہائی کے بعد وہ عمران خان سے ملنے گئے تو ادھر سرد مہری کا رویہ دیکھ کر سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ وہ کن لوگوں کی جنگ کس انداز میں لڑتا رہا ہے۔ انہوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور اپنا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکلوانے میں کامیاب ہوگئے۔ وہ ملک سے باہر جانا چاہتے تھے کہ انہیں ملک چھوڑنے سے روک دیا گیا۔ شہزاد اکبر بھی عمران خان کی ناک کا بال تھے۔ حکومت جانے کے بعد ان کے کارنامے منظر عام پر آئے ہیں۔ جب سے وہ گوشہ نشین ہیں وہ بھی ملک چھوڑنے کے جتن کر رہے ہیں۔ علی امین گنڈا پور کو ایک مقدمے میں ضمانت ملی ہے، انہیں دیگر مقدمات میں گرفتار کرکے اسلام آباد پولیس کے حوالے کیا گیا ہے، علی امین گنڈا پور نے اپنی گرفتاری کے چوبیس گھنٹے کے اندر ایسے حیران کن انکشافات کئے ہیں جن سے پارٹی پالیسی اور ان کی لیڈر شپ کا پس پردہ چہرہ بے نقاب ہوا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ حکومت پاکستان اپنے ایک انٹرویو میں عمران خان کے حوالے سے بعض ویڈیوز کی ڈھکے چھپے الفاظ میں تفصیل بیان کر چکے ہیں۔ ایسی ہی سرگرمیوں میں کچھ دیگر انصافی شخصیت کے ملوث ہونے کی اطلاعات آرہی ہیں۔ تحریک انصاف کی سابق وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کے سر پر سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں، انہیں بھی تفتیش کیلئے بلایا گیا ہے جبکہ معصوم صورت وسیم اکرم پلس نیب کی پیشیاں اور حاضریاں بھگت رہے ہیں۔ صاف چلی شفاف چلی کے ایک کل پرزے کے گھر پر چھاپے کے بعد کئی کروڑ روپے کیش برآمد ہوچکے ہیں جبکہ راولپنڈی اسلام آباد کے35اور لاہور سے تعلق رکھنے والے25افراد کی فہرست سامنے آئی ہے۔ ان میں زیادہ تر افراد کا تعلق ریئل اسٹیٹ بزنس سے ہے جبکہ کچھ افراد دیگر کاروبار سے وابستہ ہیں۔ یہ تمام افراد تحریک انصاف کو سیاسی سرگرمیوں کیلئے سرمایہ فراہم کرتے تھے جبکہ اس خدمت کے عوض کاروباری فائدے حاصل کرتے رہے ہیں، ان کے اکائونٹس، ان کی دولت اور دولت جمع کرنے کے ذرائع کے علاوہ ان کے ٹیکس کے معاملات کی چھان بین بھی شروع ہوچکی ہے۔ ان میں کچھ اے ٹی ایم مشینیں بیرون ملک بھاگنے کی تیاریوں میں ہیں جبکہ بیشتر کو جہاز پرواز کرنے سے قبل اتارنے کے انتظامات مکمل کئے جاچکے ہیں۔ کھلی آنکھوں سے ہوا کا تبدیل ہوتا رخ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عقل کے اندھوں کو شاید کچھ نظر نہ آئے وہ سیاسی خرمستیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button