CM RizwanColumn

عورت فوبیا ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

عورت فوبیا

کوئی کہہ رہا ہے کہ ہر سال مارچ کی آٹھ تاریخ کو منائے جانے والے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں ہونے والے عورت مارچ کو بند ہونا چاہیے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ خدا نخواستہ اس مارچ کی وجہ سے ملک کی مجموعی نسوانی حیا خطرے میں پڑ گئی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ پاکستان کی خواتین کو ایک سازش کے تحت مغربی عورت کی نقالی اور پیروی کے راستے پر گامزن کرنے کی یہ سوچی سمجھی سازش ہے جس کو ہمارے معاشرے کی چند بااثر خوا تین نے اپنی سرپرستی میں شروع کر رکھا ہے اور وہ سال بہ سال اس میں نت نئی خرافات اور نعروں کا اضافہ کر کے پاکستان کی خواتین کو بے راہ روی کی دلدل میں دھکیل رہی ہیں۔ کوئی اس عورت مارچ کے مقابل اسی دن اور اسی جگہ پر حیا مارچ کا انعقاد کر کے اسے رد کرنے کی عین اسلامی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کچھ مرد تو اس عورت مارچ میں شرکت کرنے والی خواتین کو عجیب و غریب القابات سے نوازنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ جو عورتیں ان مارچوں میں شامل ہوتی ہیں ان کا پاکستان کے پاکیزہ معاشرے سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں اور پھر یہ کہ ہر سال ان سب باتوں اور تنقیدی اور تنفیری جملوں میں یوں اضافہ ہو رہا کہ جیسے ہمارے معاشرے کے اسلام پسند مرد عورت فوبیا میں مبتلا ہو گئے ہیں اور ہر سال مارچ کی ابتدا میں آ کر اس فوبیا کی ابتدا ہوتی ہے اور آٹھ مارچ کو اس فوبیا کا عروج اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور خدا خدا کر کے جب یہ آٹھ مارچ گزر جاتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ حالات نارمل ہونا شروع ہو جاتے ہیں لیکن ہر سال کوئی نہ کوئی تلخ جملہ کسی ایک طرف سے ایسا ضرور بول دیا جاتا ہے جو سارا سال اس عورت مارچ کو متنازعہ بنائے رکھتا ہے۔ کوئی نہ کوئی تلخ واقعہ کسی نہ کسی جانب سے ضرور سرزد ہوجاتا ہے جس کی تلخی اگلے سال مارچ تک برقرار رہتی ہے اور کسی نہ کسی طرح معاشرے میں موجود صنفی تضاد و عناد کے بدترین عذاب کا اظہار پورا سال ہوتا رہتا ہے۔ حالانکہ بات سیدھی سی ہے کہ اللہ خالق کائنات نے ہر مرد اور عورت کو پیدا کر کے اسے کم از کم اس دنیاوی زندگی کیلئے اس کے جسم کا مالک اور قابض بنا دیا ہے اور اگر کوئی مرد یا عورت یہ کہہ دے کہ میرا جسم میری مرضی اور خاص طور پر اگر کوئی عورت یہ کہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی مرضی کے بغیر اپنا جسم کسی کے حوالے کرنے سے گریزاں ہے۔ اس میں بصد معذرت بے حیائی کہاں سے آگئی اور اگر کوئی عورت کسی عورت مارچ میں پلے کارڈ پر یہ بات بطورِ سلوگن لکھ کر مظاہرہ کرے تو بھی کوئی قیامت نہیں ا ٓجاتی اور اگر کوئی عورت یہ کہہ دے کہ اپنی جرابیں خود دھوو تو بھی کیا برائی ہے اور یہاں تک کہ اگر کوئی عورت یہ کہہ دے کہ میں بچے پیدا نہیں کروں گی تو بھی یہ اس کا ذاتی فیصلہ ہے کسی مرد کو اس پر کوئی تعزیر لگانے کا کوئی اختیار نہیں ہو سکتا ہے اگر آج وہ ان سب باتوں پر بضد ہے تو کل کلاں ہوسکتا ہے وہ ان سب باتوں پر قائل بھی ہو جائے کیونکہ وہ بالآخر ناقص العقل ہے اور خوا مخواہ ضد پر اڑ جانا اس کی فطری مجبوری ہے۔ایسی صورتوں میں اسلام پر کاربند ذی شعور اور شرعی شخصیات کو اس کو ہوا نہیں بنانا چاہیے اور اس ضمن میں عورت فوبیا کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ کوئی بھی شخص اپنی ماں، بہن، بیوی یا بیٹی کو حکم دے سکتا ہے کہ وہ ایسی خرافاتی سوچ کا شکار نہ ہو لیکن کسی شرعی شخصیت نے پورے معاشرے کی عورتوں کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا کہ اُٹھ کر سب کو سمجھانا شروع کر دے، ظاہر ہے کہ اگر کوئی ان سب عورتوں کو مظاہرہ سے روکنے کیلئے اُٹھے تو مظاہرے پر آمادہ یہ عورتیں اس کے خلاف زیادہ زور اور شدّت سے مظاہرہ کریں گی۔ پھر یہ کہ یہ مارچ کوئی نئی بات نہیں پچھلی قریباً ایک صدی سے لوگ 8 مارچ کو خواتین کیلئے ایک خاص دن کے طور پر مناتے ہیں۔ خواتین کا یہ عالمی دن ایک مزدور تحریک کے طور پر شروع ہوا تھا اور اب یہ اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ ایک سالانہ دن ہے۔ اس دن کا آغاز 1908 میں نیویارک شہر سے ہوا جب 15000 خواتین نے کم گھنٹے کام، بہتر تنخواہوں اور ووٹ کے حق کیلئے مارچ کیا۔ اس کے ایک سال بعد سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے پہلا قومی یومِ نسواں منایا اور سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے خواتین کے پہلے قومی دن کا اعلان کیا۔ تاہم اسے بین الاقوامی بنانے کا خیال سب سے پہلے کلارا زیٹکن نامی ایک خاتون کے ذہن میں آیا جو کہ ایک کمیونسٹ اور خواتین کے حقوق کی کارکن تھی۔ اس نے 1910 میں کوپن ہیگن میں انٹرنیشنل کانفرنس آف ورکنگ ویمن میں یہ خیال پیش کیا۔وہاں 17 ممالک سے 100 خواتین موجود تھیں جنہوں نے متفقہ طور پر اس کی تائید کی۔ یہ پہلی مرتبہ آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں 1911 میں منایا گیا۔ اس کی صد سالہ تقریب 2011 میں منائی گئی۔ لہٰذا تکنیکی طور پر اس سال خواتین کا 113 واں عالمی دن منایا گیا ہے۔ خواتین کے عالمی دن کو باقاعدہ طور پر 1975 میں تسلیم کیا گیا جب اقوام متحدہ نے بھی اسے منانا شروع کیا۔ اس کیلئے پہلا تھیم اقوام متحدہ نے 1996 میں چنا، جس کا نام’’ ماضی کا جشن اور مستقبل کی منصوبہ بندی‘‘ تھا۔ اب خواتین کا یہ عالمی دن معاشرے، سیاست اور معاشی میدان میں خواتین کی ترقی کو منانے، جانچنے، پرکھنے یا بڑھانے کا دن بن گیا ہے جبکہ اس کے پیچھے سیاسی جڑوں کا مقصد عورتوں اور مردوں کے درمیان عدم مساوات کے بارے میں بیداری پھیلانا ہے، جو اب بھی ہڑتالوں اور مظاہروں کو منظم کر کے پھیلائی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ خواتین کا یہ عالمی دن کئی ممالک میں قومی تعطیل کا دن ہے۔ امریکہ میں مارچ کا مہینہ تاریخِ نسواں کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک صدارتی اعلان بھی کیا جاتا ہے جس میں سال بھر کی خواتین کی کامیابیوں کو اعزاز دیا جاتا ہے۔
اس سال خواتین کے عالمی دن 2023 کیلئے اقوام متحدہ کا عنوان ’’ڈیجیٹل آل‘‘ صنفی مساوات کیلئے ایجاد اور ٹیکنالوجی تھا۔ اس کا مقصد ٹیکنالوجی اور آن لائن تعلیم کے شعبوں میں لڑکیوں اور خواتین کے تعاون کو تسلیم کرنا اور اس کا جشن منانا ہے۔ اس سال خواتین کے عالمی دن پر خواتین اور لڑکیوں کیلئے عدم مساوات پر ڈیجیٹل صنفی فرق کے اثرات کی بھی چھان بین کی گئی کیونکہ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ اگر آن لائن دنیا تک خواتین کی رسائی کی کمی کو دور نہ کیا گیا تو اس سے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کی مجموعی گھریلو پیداوار کو ڈیڑھ ٹریلین ڈالر کا نقصان ہو گا۔تاہم اس سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر دیگر مسائل بھی زیر بحث ہیں۔ خواتین کے عالمی دن کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ اسے خواتین کیلئے مثبت تبدیلی لانے کیلئے ایک پلیٹ فارم کے طور پر بنایا گیا ہے۔اس سے منسلک تنظیموں اور پروگراموں کے ذریعے خواتین کے دقیانوسی صنفی کردار کو چیلنج کرنے، امتیازی سلوک کے خلاف آواز اٹھانے، تعصب کی طرف توجہ مبذول کرانے اور خواتین کو ہر شعبے میں شامل کرنے کیلئے آوازیں بلند کی گئیں ۔
گزشتہ ایک سال کے دوران افغانستان، ایران، یوکرین اور امریکہ جیسے کئی ممالک میں خواتین اپنے ملکوں میں جنگ، تشدد اور پالیسی میں تبدیلیوں کے درمیان اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی سے انسانی حقوق پر پیش رفت رک گئی ہے کیونکہ خواتین اور لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول سے روک دیا گیا ہے۔ ان پر زیادہ تر کام گھر سے باہر کرنے اور مرد سرپرست کے بغیر طویل سفر کرنے پر پابندی ہے۔
طالبان نے خواتین کو گھر سے باہر یا دوسرے لوگوں کے سامنے اپنا پورا چہرہ ڈھانپنے کا حکم دے رکھا ہے۔ ادھر گزشتہ سال مہسا امینی نامی 22 سالہ ایرانی خاتون کی ہلاکت کے بعد ایران میں مظاہرے پھوٹے جن کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ایران میں بہت سی خواتین اور مرد اب خواتین کے بہتر حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ ایران کی موجودہ سیاسی قیادت میں بھی تبدیلی چاہتے ہیں۔ علاوہ ازیں 24 فروری 2022 کو جب روسی فوج نے یوکرین پر حملہ کیا تو اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جنگ کے آغاز کے بعد سے یوکرین میں خواتین اور مردوں کے درمیان خوراک کی کمی، غذائی قلت اور غربت کے حوالے سے خلیج بڑھی ہے اور جنگ کی وجہ سے قیمتوں میں اضافے اور قلت کے باعث یوکرین میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ پھر یہ کہ 24 جون 2022 کو امریکہ کی سپریم کورٹ نے اس تاریخی قانون کو بدل دیا جس کے تحت امریکی خواتین کو اسقاط حمل کا حق حاصل تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پورے امریکہ میں اس کے خلاف شور اور مظاہرے ہوئے۔ بہت سی امریکی خواتین اسقاط حمل کیلئے میکسیکو جانے کا انتخاب کر رہی ہیں کیونکہ 2021 میں ایک تاریخی فیصلے کے بعد میکسیکو میں اسقاط حمل کو قانونی حیثیت دے دی گئی تھی۔ تاہم گزشتہ چند سال کے دوران خواتین کی حالت میں بھی بہتری آئی ہے۔ یہ بھی ایک اطلاع ہے کہ دس سال کی جدوجہد کے بعد نومبر 2022 میں یورپی پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا جو 2026 تک عوامی سطح پر تجارت کرنے والی کمپنیوں کے بورڈز میں خواتین کی زیادہ نمائندگی کو یقینی بنائے گا۔ یورپی یونین نے بھی کہا ہے کہ بہت سی ایسی خواتین ہیں جو اعلیٰ عہدوں پر بیٹھنے کی مستحق ہیں اور ہمارے نئے یورپی قانون کے ساتھ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے تاکہ ان خواتین کو ان عہدوں تک پہنچنے کا حقیقی موقع ملے۔دنیا بھر میں جہاں صنفی مساوات کی بات ہورہی ہے وہاں پاکستان میں اگر محض عورت کے گھر سے نکلنے پر پابندی عائد کرنے کی بات کی جائے گی تو وہ بے سود اور غیر متعلقہ ہوگی۔ خاص طور پر آج کی آن لائن اور ڈیجیٹل دنیا میں عورت کو اس حد تک آزادی اور اعتماد ضرور دینا چاہیے کہ وہ اپنی بات کہہ سکے۔ ہاں اگر وہ غلط بات کرے گی تو ہوسکتا ہے وہ کل کلاں اپنی درستگی پر بھی غور کرے لیکن اسے چھوٹتے ہی بے حیائی اور بے پردگی کے الزامات دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button