ColumnKashif Bashir Khan

ریاست سے تجدید وفا! ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

ریاست سے تجدید وفا!

آج ریاست پاکستان کے باشندے سکتے کے عالم میں ہیں۔ غموں اور دکھوں کا بوجھ اٹھا اٹھا کر سکتہ طاری ہونا قدرتی ہے، ریاست پاکستان کے باشندوں کے غم اور دُکھ ان کے خاندانوں کے عطا کردہ نہیں بلکہ ریاست جسے ماں بھی کہا جاتا ہے، نے انہیں گزشتہ 75 سال میں اپنی مختلف حکومتوں کے ذریعے جو دکھ ناانصافی اور جبر کے ذریعے عطا کئے ہیں، وہ بہت ہی گہرے ہیں اور آج ریاست پاکستان کے باشندے گہرے دکھ اور قابل رحم حالت میں ہیں۔ریاست کے دکھ بہت گہرے ہیں جنہوں نے ریاست کے اکثریتی باشندوں کے رنج و الم کو ان کے خاندانوں تک پہنچایا ہے۔ریاست کو قائم رکھنے کی قیمت ریاست کے باشندوں نے کچھ اس طرح ادا کی ہے کہ آج وہ تنکوں کی طرح بکھرنے کے ساتھ ساتھ ٹوٹتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ریاست کی سب سے بڑی اور معتبر تعریف نبی کریم ﷺ نے دنیا کو دی۔یہ اسلامی ریاست کا تصور تھا اور واقعی ایک فلاحی ریاست کا تصور تھا جسے حضرت عمرؓ نے عمرز تھیوری کے تحت رسول کریم حضرت محمدﷺکی وفات کے بعد رائج کیا۔ سویڈن، جرمنی، ناروے، ڈنمارک اور برطانیہ وغیرہ میں آج بھی یہی نظام رائج ہے اور وہاں کی حکومتیں اور دانشور آج بھی فخر سے کہتے ہیں کہ اگر ہماری ریاستوں کی حکومتوں کی کارکردگی کے ثمرات عوام کی فلاح کیلئے 99فیصد سے زاہد ہیں، تو اس کی وجہ صرف اور صرف عمرز کی تقلید ہے۔ حضرت عمرؓ کا فلاحی ریاست کا تصور وہی ہے جو رسول کریم ﷺ نے نہ صرف دنیا کو دیا بلکہ اپنی حیات مقدسہ میں اس کو رائج کر کے عملی نمونہ بھی بنایا۔ گویا جن ممالک اور ان کے باشندوں کو ہم کافر قرار دیتے ہیں ان کی حکومتوں نے ہمارے آباؤ اجداد کے نظریہ فلاحی ریاست کو اپنا کر نہ صرف بے پناہ ترقی کی بلکہ اپنی عوام کو تمام بنیادی سہولیات فراہم کر کے بنی نوح انسان کی زندگیاں محفوظ اور آرام دہ بنائیں۔
برطانیہ کے شہر لندن میں قانون کی تعلیم کی سب سےبڑی درسگاہ ’’لنکنز ان‘‘ کے مین دروازے پر لکھے گئے الفاظ قائد اعظم محمد علی جناح کیلئے بھی اس عظیم درسگاہ میں جانے کا سبب بنے تھے۔یہ الفاظ تھے کہ”Complete Code Of Life Was Given By Muhammad(PBUH)”اس کا اردو ترجمہ ہے کہ زندگی گزارنے کے مکمل اور باضابطہ طریقہ و اصول حضرت محمد ﷺ نے دنیا کو دیا۔ اب سوچنے کی بات ہم مسلمانوں پر ہے کہ جب وہ اقوام جنہیں ہم کافر کہتے نہیں تھکتے حضرت محمد ﷺ کے نظام ریاست اور پھر اسی نظام ریاست پر چلائے گئے حضرت عمرؓ کے دور کو نہ صرف یاد رکھے ہوئے ہیں بلکہ انہی قوانین اور ضوابط کو عملی جامہ پہنا کر اپنی اقوام کو دنیا میں فلاحی سہولیات فراہم کر رہے ہیں ، اسلام کا نظریہ فلاحی ریاست کا عملی نمونہ بھی ہیں تو ہم بطور ریاست پاکستان کہاں کھڑے ہیں؟
بات ہو رہی تھی ریاست پاکستان کے عوام کی اور ریاست پاکستان کے عوامی حقوق کی فراہمی میں بانجھ پن کی۔ریاست کے بنیادی اجزاء ترکیبی میں رقبہ،فوج یادفاع،انصاف کی بلا تفریق فراہمی، روزگار کے یکساں مواقعے اور بنیادی ضروریات کی فراہمی ریاست کی حکومت کی اولین ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔ ریاست کے باشندوں کا ایک اور بنیادی حق اپنے نمائندے منتخب کرنے کا ہوتا ہے۔پاکستان اپنے قیام کے بعد ریاستی حکومت کے چناؤ میں عوامی نمائندے چننے کے معاملے میں بہت ہی خراب صورتحال کا شکار رہا اور بار بار آرمی کے شب خون کی وجہ سے ریاستی باشندوں کا حق رائے دہی ہمیشہ چھینا گیا۔ دوسری جانب جب جب انتخابات کا انعقاد ہوا سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مینڈیٹ کو چوری کرنے کا شور مچاتی رہیں۔آج بھی ریاست پاکستان کچھ ایسی ہی صورتحال کاشکار ہے بلکہ زیادہ تشویشناک ہے کہ اقتدار پر قابض ٹولہ آئین پاکستان کو روندتے ہوئے، سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کروانے سے گریزاں ہے۔ کسی بھی ریاست کی کامیابی اور عوامی فلاح کو جانچنے کا پیمانہ اس ریاست میں عوام کو ملنے والے انصاف ہوتا ہے۔الیکشن کمیشن بھی انصاف فراہم کرنے والا ادارہ ہوتا ہے جس پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اول وہ عوام کے ووٹ کی امانت کا امین ہوتا ہے، دوسرا اسے تمام سیاسی جماعتوں کو ان کے عوامی ووٹ کے تناظر میں انصاف فراہم کرنا ہوتا ہے۔اب یہ فیصلہ قارئین کو کرنا ہے کہ پاکستان میں موجودہ الیکشن کمیشن اور نگران حکومتیں کتنی غیر جانبدار اور ایماندار ہیں؟
جس ریاست پاکستان میں ہم رہ رہے ہیں اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ریاست اسلام کے نام پر حاصل کی گئی تھی لیکن اگر ریاستی معاملات کا بغور جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ریاست پاکستان میں ریاستی اداروں کا جبر عوام پر ظالمانہ ہے اور پھر انسانی جان کے جانے کے بعد اس کے قاتلوں کوکوراپ کرنے کی جو مثالیں پاکستان میں قائم ہو رہی ہیں، وہ بھی ریاست کی بدترین شکل ہے۔ اسلام میں حاکم،قاضی، ظالم و مظلوم کیلئے جو ضابطے و قانون ہمیشہ کیلئے متعین کر دیئے گئے ہیں، ان سب کا آج ریاست پاکستان میں مذاق بنا کر اپنے اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ایک سیاسی کارکن کو وحشیانہ تشدد سے قتل کرنے کے بعد صوبہ کے آئی جی اور نگران وزیر اعلیٰ کی پریس کانفرنس ریاستی اداروں کی ذمہ داری کو حادثے میں تبدیل کرنے کی ایک بھونڈی کوشش کی تھی۔سابق وزیر اعظم پر 80 سے زائد جھوٹے مقدمات بھی ریاست پاکستان کی ناکامی کامنہ بولتا ثبوت ہیں۔ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ آج ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں اور ملک لوٹنے والوں نے آج کل اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور سابق جرنیلوں کی جلسوں میں جو کردار کشی اور ان کے خلاف غلیظ زبان کا استعمال شروع کیا ہوا ہے،وہ نہایت افسوس ناک بلکہ خطرناک ہے۔کسی بھی ریاست میں عدلیہ کا بنیادی کردار ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں عدلیہ کوگھناؤنے طریقے سے اپنی پسند کے فیصلوں کیلئے رگیدنے اور بدنام کرنے کا سلسلہ پرانا ہے لیکن اب اس میں جو شدت ا ٓچکی ہے،جو ریاست کی سالمیت کے تناظر میں نہایت ہی خطرناک تو ہے ہی بلکہ اسلامی ریاست کی بنیادی تصور کے بھی خلاف ہے۔
آج ریاست پاکستان بظاہر کھوکھلی نظر آرہی ہے جس کی وجہ صرف اور صرف ریاست اداروں کی جانب سے ریاست کے باشندوں کو انصاف نہ ملنا ہے۔انصاف کی فراہمی صرف عدلیہ کی زمہ داری نہیں بلکہ تمام ریاستی ادارے جو حکومت کے تابع ہوں یا نہ ہوں، پر لازم ہے کہ مساوات اور انصاف قائم کریں۔یہ فیصلہ بھی میں قارئین پر چھوڑ دیتا ہوں کہ کیا تمام ریاستی ادارے بشمول عدلیہ عوام کو بلا تفریق انصاف فراہم کر رہے ہیں؟ریاست ہمیشہ آزاد ہوتی ہے اور اس کے معاملات اس کے باشندے چلاتے ہیں لیکن ریاست پاکستان کتنی آزاد ہے اور اس کے حکمران اس کے کتنے وفادار ہیں،یہ فیصلہ بھی آج میں اپنے قارئین پر چھوڑتا ہوں۔ ریاست پاکستان کے باشندے جہاں الم رسیدہ ہوں اور انہیں امید سحر نظر نہ آ رہی ہو ،وہاں کیسی آزادی اور کیسا انصاف؟آج ہم من حیث القوم بکھرے ہوئے ہیں اور سامراجی و استعماری آلہ کار ہم پر مسلط ہیں جنہیں اس ریاست کی دھرتی سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ریاست پاکستان کے باشندوں نے اگر اب بھی اپنی دھرتی سے تجدید وفا نہ کی اور اپنے وفاؤں کے بدلے حکمرانوں سے جفائیں ملنے کا حساب نہ کیا تو پھر نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی غلامی ہمیشہ کیلئے ہمارا مقدر ہو گی ریاست کی تعمیر نو اور اس کی اصل شکل میں واپسی اب پاکستان کے عوام کی زمہ داری ہے جس سے پہلو تہی ناقابل معافی جرم ہو گا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button