Editorial

بروقت انتخابات سیاسی استحکام کیلئے ناگزیر

 

سپریم کورٹ نے صوبائی انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو آج دن گیارہ بجے سنایا جائے گا۔پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات کی تاریخ پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ موجودہ حالات میں 90 روز میں الیکشن ضروری ہیں۔سماعت کے دوران عدالتی حکم پر وکلا نے سیاسی پارٹیوں کے قائدین سے مشاورت کی۔ پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کے ذریعے پیپلز پارٹی کا موقف سامنے آیا کہ الیکشن کی تاریخ مقرر کرنا سیاسی جماعتوں کا کام نہیں جبکہ مسلم لیگ نون کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ پارٹی قیادت سے بات چیت کر لی ہے، مزید مشاورت کے لیے وقت درکار ہوگا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نظام کو آئین کے تحت مفلوج کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، انتخابات کروانا لازم ہے، اولین ترجیح آئین کے تحت چلنا ہے، الیکشن کی تاریخ کے بعد رکاوٹیں دور کی جاسکتی ہیں، اگر کوئی بڑا مسئلہ ہو تو آپ عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں، کوئی بھی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا، عدالت کے علاوہ کسی کو انتخابی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں، ٹھوس وجوہات کا جائزہ لیکر ہی عدالت حکم دے سکتی ہے، آرٹیکل 254 وقت میں تاخیر پر پردہ ڈالتا ہے، مگر لائسنس نہیں دیتا کہ الیکشن میں 90 دن سے تاخیر ہو، الیکشن بروقت نہ ہوئے تو استحکام نہیں آئے گا۔ایک روز قبل عدالت عظمی میںپنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوںمیں عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کے اجرا میں تاخیر کے تنازع سے متعلق از خود نوٹس کیس میںچار معزز جج صاحبان نے خود کو 9 رکنی لارجر بینچ سے الگ کر لیا تھا جس کے بعد بینچ ٹوٹ گیاتھا، اس کے بعد گذشتہ روزعدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی قیادت میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے زیر بحث کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے اِس کیس کا فیصلہ محفوظ کرکے آج دن گیارہ بجے سنانے کا اعلان کیا ہے، اتحادی حکومت کی جانب سے پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنا موقف واضح کردیا ہے جبکہ اتحاد میں شامل جماعتوں کا موقف بلاشبہ آج عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ جناب چیف جسٹس پاکستان نے بالکل بجافرمایا ہے کہ نظام کو آئین کے تحت مفلوج کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل اور دستور پاکستان کے مطابق نوے روز میں انتخابات کے انعقاد کا معاملہ جس سمت لے جایا جارہا ہے، یہ آنے والی نسلوں کے لیے مثال نہ بنتا تو بہتر تھا، ایک طرف ہم دستور کی بالادستی کی
بات کرتے ہیں اور خود کو دستور کا محافظ قرار دیتے ہیں مگر دستور میں موجود ایسی چیزوں کی تلاش میں ہمہ وقت مصروف عمل رہتے ہیں جن کے ذریعے ہم سیاسی فائدہ اٹھاکر سیاسی مخالفین کو زیر کرسکیں۔ دنیا بھر میں ایک بات مختلف زبانوں اور مختلف مثالوں میں کہی جاتی ہے کہ سیدھا راستہ اگرچہ مشکل ضرور ہوتا ہے لیکن منزل کی جانب پہنچادیتا ہے مگر الٹا راستہ آسان ضرور نظر آتا ہے مگر راہ گیر کو گمراہ کردیتا ہے کیونکہ اس میں قدم قدم پر ایسی راہیں دریافت ہوتی ہیں جو راہ گیر کو منزل سے کہیں دور لے جاکر گم کردیتی ہیں۔ رواں ہفتے ہم نے دستور پاکستان کادن منایااور دستور کے حق میں مدلل خطاب کیے مگر وہ خطاب اور عمل ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان عام انتخابات کے لیے ہر حربہ استعمال کرچکے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی قربانی دیکر خودبظاہر آخری اور بڑا کارڈ استعمال کرلیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسمبلیوں کی تحلیل کے نوے روز میں انتخابات نہیں ہونے چاہئیں؟ کیا نوے روز کے اندر انتخابات کا انعقاد روکا جائے گا ؟ اور کیا یہ ایسا کرنا صرف ایک فریق کا حق ہے اور مستقبل میں کسی دوسرے پر ایسا کرنے پر پابندی ہوگی؟پنجاب اسمبلی کی تحلیل جس طرح ہوئی اور اِس سے قبل جس طرح سیاسی صورت حال دیکھنے کو ملی اِس میں پنجاب اسمبلی کی تحلیل یقیناً انتہائی مشکل بلکہ ناممکن نظر آتی تھی مگر ایک فریق نے بالآخر دوسرے کو سیاسی چال کے ذریعے چت کردیا۔ گورنر پنجاب اِس لیے انتخابات کی تاریخ نہیں دے رہے کیونکہ آئینی ماہرین کے مطابق انہوں نے اسمبلی کی تحلیل کی سمری پر دستخط نہیں کیے۔ معاملہ ہائی کورٹ گیا تو ہائی کورٹ نے بھی تمام شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین و قانون کے مطابق بات کی اور معاملہ سپریم کورٹ کو بھیج دیا پھر سپریم کورٹ میں دو معزز جج صاحبان کے متعلق جو موقف اختیار کیاگیا وہ بھی سبھی کے سامنے ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دستور پاکستان سبھی کے لیے قابل احترام ہے، ایسا قطعی نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں اپنا مفاد نظر آئے تو ہم دستور پاکستان کے واری صدقے جائیں مگر جب مخالفین کے حق میں بازی ہو تو دستور پاکستان کے اندر ایسی موشگافیاں ڈھونڈنے لگ جائیں جن کا ہمیں ہی فائدہ ہو۔ موجودہ حالات میں ہم کئی بحرانوں کا بیک وقت سامنا کررہے ہیں اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہم کسی بھی بحران میں متحد اور متفق نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ بحران ختم یا کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں، ہم راہ میں حائل رکاوٹیں ہٹانے کی بجائے رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں جو بلاشبہ ہمیں خود ہی ہٹانا پڑیں گی۔ لہٰذا دستور اور دستور کے محافظ اداروں کو ایسی صورت حال کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا اور بلاشبہ دستور پاکستان کے محافظ ہر حال میں اِس کی حفاظت کریں گے، کیونکہ یہی دستور ہم سب پاکستانیوں کو آزادی، تحفظ اور نظم دیتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button