ColumnKashif Bashir Khan

داغ دل سے امید سحر تک .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

غالباً2007 کی بات ہے۔میں لاہور کے شادمان چوک سے مال روڈ کی جانب جا رہا تھا،میں نے ساتھ والی گاڑی میں دیکھا کہ پنک ساڑھی میں ملبوس مشہور غزل گائیکہ اقبال بانو بیٹھی ہیں۔ میرے ذہن میں فوری طور پر یہ خیال آیا کہ ہو نہ ہو اقبال بانو الحمرا ہال جا رہی ہیں۔تھوڑا آگے جا کر میرا خیال درست نکلا اور اقبال بانو کی گاڑی الحمرا کی جانب مڑ گئی۔میں بھی پیچھے پیچھے الحمرا پہنچا تو دیکھا کہ سامنے بینر لگا تھا’’اقبال بانو کے ساتھ ایک شام‘‘۔ تھوڑی دیر میں اقبال بانو سٹیج پر پہنچ چکی تھیں اور اپنے منفرد اور انوکھے کلاسیکل سٹائل میں پرانے گیت و غزلیں سنانا شروع کر دیں۔دشت تنہائی،داغ دل ہم کو یاد آنے لگے،تو لاکھ لے دے گوری سناتے سناتے ہال میں موجود سامعین و ناظرین کو اقبال بانو نے اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔’’داغ دل‘‘سن کر ایسا لگ رہا تھا کہ ہال میں موجود لوگوں کو اپنے اپنے داغ یاد آ رہے ہوں ۔اقبال بانو کے منتخب کلام کی گہرائی اپنے اندر بہت سے معنی سمیٹے ہوئے تھی۔
یہ جنرل پرویزمشرف کا دور تھا اور ماضی کے مارشل لاء کی نسبت نرم مارشل لاء تھا لیکن مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہال میں موجود اکثریت کو اپنے ملک میں اپنوں کے ہاتھوں ملنے والے داغ یاد آرہے تھے۔’’خود فریبی سی خود فریبی ہے‘‘جیسے مصرعے کی کمال ادائیگی نے اس غزل اور اس کے اشعار کو دلوں کے آر پار کر دیا تھا۔آخر میں جب اقبال بانو نے’’ہم دیکھیں گے‘‘گایا تو ہال میں موجود لوگوں کا جوش و ولولہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اقبال بانو 80 کی دہائی میں بدترین آمرجنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں اس وقت ایک متاثر کن شخصیت بن کر سامنے آئی تھیں جب انہوں نے حکومت کی جانب سے پابندی عائد کیے جانے والے گانے و کلام گائے۔
اقبال بانو دہلی میں پیدا ہوئیںاور پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی ہجرت کر کے پاکستان آ گئی تھیں۔انہوں نے نہ صرف غزل گائیکی کو پروان چڑھایا بلکہ ان کا بہت سا کلام فیض احمد فیض جیسے انقلابی شاعر کا لکھا ہوا تھا۔’’دشت تنہائی‘‘ کو جس طریقے سے اقبال بانو نے گایا ہے وہ صرف ان کا خاصہ تھا۔موسیقی میں راگوں کے ذریعے الفاظ کے معنی بیان کرنا نہایت مشکل کام ہے اور اس کیلئے طویل ریاضت اور راگوں پر مکمل گرفت ہونا شرط ہے۔ اگر آج بھی آپ’’داغ دل ہم کو یاد آنے لگے‘‘ سنیں تو مجھے یقین ہے کہ آپ کو زندگی کے بہت سے دل پر لگے داغ یاد ا ٓجائیں گے۔یہ داغ صرف عشق و محبت کے ہی نہیں ہوں گے بلکہ ان داغوں میں زیادہ تر داغ وہ ہوں گے جو اپنوں نے دئیے ہوں گے۔ان اپنوں میں دوست،محبوب،رشتے دار، رہبراور حکمران بھی شامل ہوں گے۔
بات تو سوچنے کی ہے اورکسی بھی کلام کو سمجھنے اور اس کی گہرائی میں جانے کی ہے۔کسی بھی کلام کو اگر ہم مجازی عشق کے تناظر میں سوچیں اور سمجھیں گے تو اس کے مفہوم میں تبدیل آ جائے گی اور اگر اسی کلام کو حقیقی عشق کو مدنظر رکھ کر پڑھیں اور سنیں تو ایک تو اس کا لطف دوبالا ہو جائے گا دوسرے اس کا مفہوم تبدیل ہو کر آپ کو اس دنیا اور اس کےبنانے والے کی حقیقت واضع کر دیتاہ۔شاعر کی شاعری کو بھی ایسے صداکار کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کے کلام کو زبان زد عام کر سکے،یہ ملکہ اقبال بانو کو بخوبی حاصل تھا اور وہ کسی بھی کلام کے ایک ایک لفظ کو اس طرح گاتی تھیں کہ وہ کلام سننے والے کے دل میں پیوست ہو جاتا تھا۔اقبال بانو نے ایک مرتبہ خود بتایا تھا کہ بھارتی شہر امرتسر میں شدید گرمی میں وہ گا رہی تھیں، جب انہوں نے راگ ایمن چھیڑا تو آسمان سے بارش شروع ہو گئی تھی۔اقبال بانو کے فن میں بر صغیر کی مشہور زمانہ کلاسیکل سنگر بیگم اختر کی جھلک نظر آتی تھی۔جنرل ضیاالحق کے زمانے میں ملک میں آزادی تحریر و تقریر پر مکمل پابندی تھی بلکہ ایسا سوچنے والوں پر بھی کڑی سزاؤں کا اطلاق ہوتا تھا اور اس سفاکیت کاعملی مظاہرہ سرعام کیا جاتا تھالیکن فیض احمد فیض اور حبیب جالب جیسے انقلابی اس سیاہ ترین دور میں بھی کلمہ حق بلند کرتے رہے۔فیض احمد فیض تو جنرل ضیاالحق کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد ملک سے باہرفلسطین میں رہائش پزیر ہو گئے تھے۔ فلسطینیوں کیلئے بھی ان کا کلام تاریخ کی درخشندہ مثال ہے۔پاکستان کو چھوڑنے کے بعد فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ جنرل ضیاالحق میری وفات کے بعدمنافقت کا مظاہرہ کرے گااور جنازے میں آنے کی خواہش ظاہر کرے لیکن اسے میرے جنازے میں شمولیت کی اجازت نہ دی جائے اور پھر 1982 میں فیض احمد فیض کی وفات کے بعد دنیا نے دیکھا کہ اس وقت کے آمر صدر پاکستان جنرل ضیاالحق نے جنازے میں شمولیت کی درخواست کی لیکن فیض احمد فیض کی دونوں صاحبزادیوں نے اپنے مرحوم والد کی وصیت کے عین مطابق انہیں فیض کے جنازے میں شرکت سے روک دیا تھا۔
یوں تو بہت سے گلوکاروں نے فیض احمد فیض کے کلام کو گایا لیکن فیض کے کلام کو دوام بخشنے میں اقبال بانو سب کو پیچھے چھوڑ گئی تھیں۔مشہور انقلابی نظم’’ ہم دیکھیں گے‘‘کو اقبال بانو کے بعد بہت سے لوگوں نے گایا لیکن اس نظم کو عالمی شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے والی اقبال بانو ہی تھیں۔یہ نظم ضیاالحق کے تاریک دور میں لکھی گئی اور اقبال بانو نے آمر کے ضابطوں کو نہ مانتے ہوئے’’ہم دیکھیں گے‘‘فروری 1985 میں ایسی گائی کہ آج اتنے سال کے بعد بھی وہ نوجوانوں اور آزادی و انقلاب کے حامیوں کے لہو کو گرماتی ہے۔فیض احمد فیض کے انقلابی کلام کو گانے والوں میں ٹینا ثانی،نیئرہ نور اور آج کل لال بینڈ کے تیمور راشد کا نام سرفہرست ہے۔ ’’جگر دریدہ ہوں چاک جگر کی بات کرو،امید سحر کی بات کرو‘‘جیسی نظم گا کر تیمور راشد بھی نوجوانوں میں بہت مقبول ہو چکے ہیں ۔ماضی میں فیض احمد فیض اور حبیب جالب جیسے انقلابی نڈر شعراء قوم کی حالت تبدیل کرنے کی شدید خواہش کو لبوں تک لانے سے کبھی نہیں چوکتے تھے اور قوم کو راستہ دکھانے کو عبادت سمجھتے تھے،لیکن آج جہاں زندگی کے تمام شعبوں میں انحطاط نظر آتا ہے وہاں ہمیں قوم کو راستہ دکھانے والے شعراء بھی نظر نہیں آتےاور نظام اور اس کے آلہ کاروں کے کاسہ لیسوں کی ایک فوج ہے جو نظام سے اپنا اپنا حصہ تو وصول کر رہے ہیں لیکن نظام کی بدترین تنزلی کے خلاف بولنے اور لکھنےسے گریزاں ہیں۔آج کوئی نہیں جو کہہ سکے’’اے چاند یہاں نکلا نہ کر،یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا‘‘امید سحرکی بات کرنے والے بھی جاچکےاور ہم دیکھیں گے،جیسی نظم کو گاکر لازوال بنانے والی اقبال بانو بھی ابدی نیند سو چکی۔ عوام کی آزادی کے متوالوں اوراستحصالی نظام کے باغیوں کو راستہ دکھانے والوں کی رخصتی بھی موجودہ بد ترین ملکی حالات کی ایک بڑی وجہ کہلائی جا سکتی ہے۔لاہور کی سڑکوں پر عوام کی بات کرنے کی پاداش میں پولیس سے ڈنڈے کھانے والاحبیب جالب اور کلمہ حق کہنے کی پاداش میں حیدرآباد سازش کیس میں گرفتار ہو کر ٹانگے میں عدالت لے جائے جانے والے فیض احمد فیض(پابجولاں چلو) کے بعد پاکستان کے عوام کوامیددلانے والے ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔
اقبال بانو بھی ان عظیم انقلابی شعراء کی ساتھی تھیں کہ فیض کا کلام گانے پر ان پر ریڈیو اور سرکاری ٹی وی پر پابندی لگا دی گئی تھی لیکن آج بھی وہ بھی دنیا بھر میں ان کی گائی ہوئی نظم’’ہم دیکھیں گے‘‘ مزاحمت کا استعارہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button