CM RizwanColumn

مریم ان عمران آؤٹ؟ .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

اب جو معیار فلم مولا جٹ والا ہمارے ہاں سیٹ ہو چکا ہے اس کے مطابق مریم نواز مقبولیت کے معیار میں ان ہو گئی ہیں اور عمران خان آؤٹ ہو گئے ہیں کیونکہ صرف عمران خان ہی نہیں اب تو ان کے معاونین بھی جھینپ گئے ہیں۔ کلیہ چونکہ وہی بلند آہنگ میں الزامات لگائے والا کامیاب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تو چاچو بھی جھینپے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ یہاں چاچو سے مراد بعض سینئر سیاستدان ہیں۔ اب تو بس یہی نعرہ لگنے والا رہ گیا ہے کہ’’ قدم بڑھاؤ مریم نواز ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ اور شاید یہ نعرہ زرداری یا بلاول بھی لگا دیں یا مولانا بھی لگا دیں اور باپ اور مہاجر بھی لگا دیں۔ ویسے لگا دیں تو اچھا ہی ہے۔ کیونکہ اب اللہ تعالیٰ کے کرم سے ڈیفالٹ کا خطرہ تو ٹل گیا ہے۔ آئی ایم ایف بھی مان جائے گا اور برادر ممالک بھی کچھ نہ کچھ کردیں گے۔ باقی مرحلہ آگے جنرل الیکشن کا ہی آنے والا ہے۔ پھر یہ بھی عین ممکن ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی سابقہ اسمبلیاں ہی بحال کر کے جنرل انتخابات پر ہی گزارہ کر لیا جائے۔ دوسری جانب یہ تو طے شدہ ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اب واقعی نیوٹرل ہے اور رہے گی جبکہ عدالتی اسٹیبلشمنٹ بھی کتھارسس کے مرحلے سے گزر کر امید ہے کہ پارلیمنٹ اور سیاست کے کھیل میں خود کو آلودہ نہ کرنے کی پالیسی اپنا لے گی۔ یہ ایسے سہانے خواب ہیں جن کے پورا ہونے میں ہی ملک وقوم کی عافیت اور بھلائی ہے ورنہ خواہ مخواہ کی بے اصولیوں اور لڑائیوں میں کیا رکھا ہے۔ اب ملک مزید خرابی کا ہر گز متحمل نہیں۔
آپس کی بات ہے کہ پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ میں مریم نواز شریف نے جتنی جلدی اپنی خداداد سیاسی صلاحیتوں کو منوایا ہے۔ حالیہ قومی منظر نامے میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے والد میاں محمد نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم رہے، ان کے خاندان کو پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں عزّت و وقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شریف خاندان نے سات، آٹھ سال جلاوطنی میں بھی گزارے، اس کے باوجود بھی پاکستان کی سیاست میں مریم نواز شریف کو، نواز شریف کی بیٹی کے حوالے سے تو سبھی جانتے تھے، لیکن ملک کی سیاسی سرگرمیوں میں 2013ء سے پہلے مریم نواز شریف کہیں دکھائی نہیں دیتی تھیں، 2013ء کے بعد سیاسی حلقوں میں مریم نواز شریف کا تھوڑا بہت چرچا تو ہوا، لیکن کسی کو بھی یہ یقین نہیں تھا کہ مستقبل کی سیاست کا محور و مرکز مریم نواز ہی ہوں گی اور آج بلاشبہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کا سیاسی مستقبل مریم نواز شریف سے وابستہ ہے کیونکہ اب اقتدار کے ایوانوں میں بھی یہ آواز پوری شدت کے ساتھ گونج رہی ہے کہ آنے والا کل مریم نواز شریف کا ہے۔ مریم نواز شریف بہت ہی کم وقت میں پاکستان کی سیاست کا جزو لاینفک بن چکی ہیں۔ آج مریم نواز شریف ایک بیان دیتی ہیں تو ایوان اقتدار سمیت پاکستان کے طول و عرض میں اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے سب سے بڑے سیاسی حریف عمران خان نے اپنی اقتدار والی سیاست کے خاتمے کے مرحلے پر جس بیانیے کی ابتداء کی تھی اس بیانیے سے مریم نواز اپنے اقتدار کی ابتداء کر رہی ہیں اور یہ ہی عمران خان کی سیاسی زندگی کی موت ہے کہ انہوں نے باجوہ کی خوشامد کر کے اقتدار کا حلف اٹھایا تھا اور اسی باجوہ کی نفرت کے ساتھ اقتدار کی راہداریوں سے باہر نکل آئے پھر اس کے بعد سے لے کر آج تک اس نے جو بھی کیا پچھتاوے، مجبوری، سازش اور لالچ کے ساتھ کیا۔ اب عمران خان کی بعض فوجی افسران پر تنقید اس امید اور درخواست کی غماز ہے کہ وہ پھر اسی لاڈ پیار کے خواہاں ہیں، جس لاڈ پیار کو بیساکھی بناکر وہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے تھے جبکہ مریم نواز کا جو ایک دو ریٹائرڈ فوجی افسران پر تنقید والا بیانیہ ہے وہ ان کے والد نواز شریف کے
گوجرانولہ خطاب کے بیانیے اور نظریات سے وابستہ ایک تازہ بیانیے اور تحریک کا روپ دھار چکا ہے۔ اب اگر اس بیانیے کے ساتھ وہ عمران خان کو مزید بلند آواز میں دشنام اور الزام طرازی کے ساتھ للکارنے کا تسلسل جاری رکھتی ہیں اور روزانہ تین خوراک کی بنیاد پر علاجِ جاری رکھتی ہیں تو جلد ہی نہ صرف وہ اپنے سیاسی مخالف سے بلند و برتر ہو جائیں گی بلکہ وطن عزیز بھی ایک بڑے فتنے سے محفوظ ہو جائے گا۔ پھر وہ میاں محمد نواز شریف کی پاکستان واپسی کی خبر سنائیں گی تو اس سے مریم نواز کا سیاسی قد کاٹھ اور بھی بڑھ جائے گا۔ اب تک کی سیاسی جدوجہد میں مریم نواز نے مشکل وقت میں اپنے والد میاں محمد نواز شریف کے ہم قدم ہو کر نہ صرف ایک بہترین سیاسی قائد ہونے کا ثبوت دیا ہے، بلکہ ماں باپ کا سہارا بننے والی اولاد بھی ثابت ہوئی ہیں، جو ایک جانب کینسر میں مبتلا اپنی والدہ محترمہ کلثوم نواز شریف کی تیمارداری بھی کرتی رہیں تو دوسری طرف مشکلات میں گھرے والد کو بھی سپورٹ کرتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مریم نواز شریف کی سیاسی
پختگی اور سیاسی معاملات پر ان کی مضبوط گرفت کی بدولت دنیا کے بہترین جریدے نیویارک ٹائمز نے مریم نواز شریف کو دنیا کی گیارہ بااثر ترین خواتین میں بھی شامل کیا تھا۔ بقول سینئر مسلم لیگی رہنما مشاہد اللہ خان مرحوم، مریم نواز شریف کی شخصیت میں طوفان کے مخالف سمت سفر کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے، جو کسی بھی بڑے سیاسی قائد کی خصوصیت ہوتی ہے، اسی خداداد صلاحیت کی بدولت مریم نواز شریف کو بڑے کم وقت میں پاکستان کی صف اول کی لیڈر بننے میں مدد ملی۔ واضح رہے کہ مریم نواز عملی سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے شریف فیملی کے عوامی فلاح و بہبود کے اداروں شریف ٹرسٹ، شریف میڈیکل سٹی اور شریف ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ کی سربراہ رہیں۔ 2018ء کے عام انتخابات میں مریم نواز شریف نے مسلم لیگ نون کی الیکشن مہم کی قیادت کی۔ مریم نواز شریف نے مسلم لیگ (ن) کی الیکشن مہم اتنی کامیابی سے چلائی کہ خود مسلم لیگ نون کی قیادت بھی ششدر رہ گئی تھی۔ مریم نواز کی انہی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے شاید اب نواز شریف نے انہیں جماعت کی چیف آرگنائزر بنا کر میدان میں اتارا ہے۔ یادرہے کہ جب 2017ء میں پانامہ لیکس کا ایشو سامنے آیا اور حیرت انگیز طور پر اقامہ پر میاں محمد نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا گیا تو مریم نواز نے صحیح معنوں میں عملی سیاست میں، میاں محمد نواز شریف کے ساتھ قدم سے قدم ملائے اس دوران پاکستانیوں سمیت پوری دنیا نے مریم نواز شریف کا ایک نیا روپ دیکھا اور پھر اپنوں کے ساتھ ساتھ مخالفین بھی ان کی قائدانہ صلاحیتوں کے معترف ہو گئے۔ مریم نواز شریف نے اپنی جاندار تقاریر کے ذریعے پاکستانی عوام کو متحرک کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا اور مسلم لیگ نون کے ساتھ ہونے والے سیاسی انتقام کا بیانیہ عوام سے منوا لیا۔ سابق وزیراعظم عمران خان بھی میاں نواز شریف کی سزا کے اس فیصلے کو کمزور فیصلہ قرار دے چکے ہیں اور حال ہی میں ان کا یہ بیان بھی سامنے آ چکا ہے کہ نواز شریف کی سزائیں ختم کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں، جبکہ ‘واپس آؤ نواز شریف، کے الفاظ پاکستان بھر میں بچے بچے کی زباں پر ہیں جو مریم نواز کے بیانیہ کی اہم کامیابی ہے، اس سے مریم نواز شریف کی سیاسی قابلیت کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، مریم نواز کی سیاسی کامیابی میں ان کا لوگوں سے رابطے میں رہنا، ان کے مسائل سننا اور فوری طور پر عوامی مسائل کو حل کرنے کیلئے کوشش کرنا شامل ہیں۔ مریم نواز شریف پارٹی کو منظم اور اسے مستحکم کرنے کے فن سے بھی واقف ہیں۔
وہ محترمہ بینظیر بھٹو کی طرح سیاسی میدان میں باقاعدہ کردار کے حوالے سے کسی تربیت کے مرحلے سے تو نہیں گزریں، لیکن وہ مشاہداتی طور پر عالمی سیاسی بساط پر مختلف تبدیلیوں اور بدلتے سیاسی اور سماجی رجحانات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اپنے والد کے ساتھ متعدد جلسوں میں خطاب کے جوہر بھی خوب دکھا چکی ہیں ان کی تقریر کا خاص انداز عوام میں بے حد پسند کیا گیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ آج ملک بھر کا میڈیا یہ کہہ رہا ہے کہ عوام کو اکٹھا کرنے کا ہنر وہ جانتی ہیں۔ پھر یہ کہ وہ جیل کی دیواروں کے پیچھے بھی اولوالعزم رہیں۔ ان کی تقریر کا موضوع زیادہ تر ان کے والد کی سیاسی خدمات اور عوام کی محرومیاں ہوتی ہیں۔ مریم نواز شریف نے اپنی ذہانت، قابلیت اور کامیاب حکمت عملی سے یہ ثابت کیا ہے کہ سیاسی میدان میں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ وہ بآسانی کر سکتی ہیں۔ یہی امر دراصل سیاست میں ان کی کامیابی کا راز ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button