تازہ ترینخبریںپاکستان

گورنر کے پاس تاریح نہ دینے کا کوئی اختیار نہیں

 

سپریم کورٹ آف پاکستان ( Supreme Court of Pakistan ) میں پنجاب ( Punjab ) اور ( Khyber Pakhtunkhuwa ) خیبر پختونخوا میں عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کے اجراء میں تاخیر کے تنازع سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔ جسٹس مظہر علی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گورنر کے پاس تاریح نہ دینے کا کوئی اختیار نہیں۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں عام انتخابات میں تاخیر سے متعلق سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس ( Suo motu ) کی سماعت آج بروز منگل 28 فروری کو جاری ہے۔ گزشتہ روز سماعت کرنے والے 9 رکنی لارجر بینچ سے 4 اراکین کے خود الگ ہونے کے بعد 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔

آج سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے اعتراض کیا کہ عدالتی حکم میں سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا، سپریم کورٹ بار ایسویشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکمنامہ نہیں ہوتا، جب ججز دستحط کردیں تو وہ حکمنامہ بنتا ہے

دوران سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے دلائل شروع کیے جب کہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ صدر اور گورنر معاملے میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں، کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنرز اپنے طور پر دےسکتے ہیں؟

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ نگران حکومت کی تعیناتی اور الیکشن کی تاریخ پر گورنر کسی کی ایڈوائس کاپابند نہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جہاں صوابدیدی اختیار ہو وہاں کسی ایڈوائس کی ضرورت نہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹی فیکیشن کون کرے گا ؟ عابد زبیری نے مؤقف اپنایا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکریٹری قانون نے جاری کیا۔

اٹارنی جنرل نے اعتراض کیا کہ عابد زبیری درخواست گزار کے وکیل ہیں، بار کی نمائندگی نہیں کرسکتے، عابد زبیری نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کا وکیل ہوں، کسی سیاسی جماعت کا نہیں، سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے انتخابات 90 روز میں ہی ہونے ہیں۔

دوران سماعت اسپیکرز کے وکیل علی ظفر ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری، جے یو آئی (ف) کے وکیل کامران مرتضی، صدر مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجا، اٹارنی جنرل شہزاد الہیٰ بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ صدر ہر اقدام حکومت کی ایڈوائس پر کرتے ہیں، گورنر بھی صوبائی حکومت کی ایڈوائس پر عمل کرتے ہیں، عابد زبیری نے استدلال کیا کہ گورنر کو اختیار ہے اسمبلی تحلیل کرنے کا، آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے 4 طریقے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلی تحلیل کرنے کا نوٹیفکیشن کون کرے گا، عابد زبیری نے کہا کہ اگر وزیر اعلیٰ ایڈوائس کرتا ہے تو گورنر نے نوٹیفکیشن کرنا ہوتا ہے، اگر گورنر دستخط نہیں کرتا تو 48گھنٹوں میں ازخود تحلیل ہو جاتی ہے، اس کیس میں گورنر کے بجائے اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکریٹری لا نے کیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے وکیل عابد زبیر نے کہا کہ سیف اللہ کیس 12 ججز نے انتخاب کے عمل کو لازمی قرار دیا، جسٹس جمال نے کہا کہ آرٹیکل 48 کہتا ہے کہ صدر کا ہر عمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہوگا، آیا موجودہ حکومت یا سابقہ حکومت انتخاب کے اعلان کا کہے گی؟

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button