پاکستان

سپریم کورٹ کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف سماعت کرنے والا بنچ ٹوٹ گیا

فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف سماعت کرنے والا بنچ ٹوٹ گیا ہے تاہم سپریم کورٹ نے بنچ کی ازسرنو تشکیل کیلئے معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوا دیا ہے۔ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے سے متعلق آج کی سماعت کے دوران بنچ پر اعتراض اُٹھایا گیا تھا اور اس سے متعلق درخواستیں بھی پیش کی گئیں تھیں جنھیں منظور کر لیا گیا۔

بدھ کے روز جب سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالت کو بتایا کہ عید پر 20 ملزمان رہا ہو کر گھروں کو جا چکے ہیں، مزید یہ کہ منتفرق درخواست کے ذریعے رہائی پانے والوں کی تفصیل جمع کروا دی گئی ہے۔

جس پر جسٹس میاں محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا رہا ہونے والے ملزمان کیخلاف اب کوئی کیس نہیں ہے؟‘

جس پر عدالت میں موجود اعتزاز احسن اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور کہا کہ ’ان ملزمان کو سزا یافتہ کر کے گھر بھیج دیا گیا ہے، ایک بچے کو ٹرائل کئے بغیر سزا یافتہ کیا گیا وہ اب چھپتا پھر رہا ہے، یہ جو کچھ بھی ہوا ہے بڑا ’ہیپ ہیزرڈ‘ ہوا۔‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’اٹارنی جنرل کی جو پرفیکشن ہوتی ہے وہ اس کیس میں نظر نہیں آئی۔‘

جس پر جسٹس امین الدین نے اعتزاز احسن سے سوال کیا کہ کیا آپ جس کی بات کر رہے ہیں وہ اٹارنی جنرل کی جمع کرائی جانے والی فہرست میں شامل ہیں؟‘ جس پر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ’جی وہ اس فہرست میں شامل ہے۔‘

اعتزاز احسن کے جواب کے بعد عدالت نے اٹارنی جنرل کے بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔

فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس کے فیصلوں کی نقول طلب کر لیں۔

تاہم اعتزاز احسن اور دیگر وکلا کی جانب سے ملٹری کورٹس کے فیصلوں کو ریکارڈ پر لانے کی استدعا کی گئی۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ 20 ملزمان کی حد تک جو فیصلے سنائے گئے ریکارڈ پر لائے جائیں۔‘

جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ ’ہم ان سے فیصلوں کی نقول مانگ لیتے ہیں، ہمیں پتہ تو چلے ٹرائل میں کیا طریقہ کار اپنایا گیا۔‘

بعد ازاں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے بنچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے استدعا کی کہ ’نو رکنی بنچ کی تشکیل کیلئے معاملہ دوبارہ ججز کمیٹی کو بھیجا جائے۔‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button