CM RizwanColumn

پرائیویسی اور حساس ملکی مفادات .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

آج کل سوشل میڈیا پر انتہائی بد احتیاطی یہاں تک کی جا رہی ہے کہ حساس ترین ملکی مفادات کی مخالفت کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ (معاذ اللہ) پاکستان اپنے ایٹمی اثاثوں کو فروخت کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ آئی اے ای اے نامی ایک انٹر نیشنل آرگنائزیشن سے بات چیت کررہا ہے اور یہ کہ اس سلسلے میں ایک ایٹم خریدنے والے ادارے کا سربراہ آج کل سرکاری دورے پر پاکستان آیا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس قدر سنسنی پھیلا دی گئی ہے کہ اب عام لوگ ایک دوسرے سے ملاقات کے دوران حال چال بعد میں پوچھتے ہیں اور یہ بد خبری پہلے دیتے ہیں کہ اب پاکستان اپنے ایٹمی اثاثے بیچ رہا ہے۔ اس جھوٹی سنسنی میں رنگ بھرنے کے لیے ایک عدد تصویر بھی سوشل میڈیا پر دھڑا دھڑ شیئر کی جارہی ہے جس میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے سربراہ رافیل ماریانو گریسی اور ان کی ٹیم کے چند افراد پاکستان کے اٹامک انرجی سے متعلقہ کسی ادارے کے دورے پر موجود ہیں، حالانکہ یہ ایجنسی 1975 میں قائم کی گئی تھی دنیا کے اکثر ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی اس ایجنسی کا اس کے قیام کے سال سے پی ممبر ہے۔ پاکستان اس کا ممبر ہونے کی بناء پر ہی اپنی ایٹمی قوت کو پرامن مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا سند یافتہ اور عامل ہے۔ان مقاصد میں کے ای ٹو پراجیکٹ کراچی جو کہ بجلی پیدا کرتا ہے، چشمہ نیو کلئیر پراجیکٹ جو کہ چائنہ سے لیا گیا ہے سمیت کئی پراجیکٹ چل رہے ہیں۔ ان سب کو آئی اے ای اے نامی یہ ایجنسی ہی دیکھتی ہے، اور یہ سب کچھ ایک عالمی ضابطہ کے تحت دیکھتی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ جب بھی پاکستان کو اپنی ایٹمی توانائی کے لیے کسی نئی ٹیکنالوجی یا مٹیریل کی ضرورت ہوتی ہے تو دنیا بھر سے جہاں سے ہو سکے خریداری کے لیے منظوری یہی آئی اے ای اے نامی ایجنسی دیتی ہے۔ حالیہ دورے میں اس ایجنسی کے موصوف ہیڈ اور ان کی ٹیم نے نوری ہسپتال اور ایک ایگریکلچر سنٹر کا بھی دورہ کیا کیونکہ ان منصوبوں پر پاکستان کی نیوکلیئر انرجی استعمال ہورہی ہے۔ اس ضمن میں یہ بات طے شدہ ہے کہ یہ ایجنسی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی اتنی ہی خیر خواہ ہے جتنا کہ حکومت پاکستان ہے۔ پاکستان کے عوام کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہاں کی کسی بھی سابقہ یا موجودہ حکومت نے اس قسم کی کسی خرید و فروخت کا کوئی ارادہ نہیں بنایا جس کا پراپیگنڈا وہ گروہ کررہا ہے جو پچھلے چند روز سے لیک ہونے والی اپنی چند باعث شرم آڈیوز کو نہ صرف ڈھٹائی کے ساتھ تسلیم کر رہا ہے بلکہ کمال ڈھٹائی سے یہ بھی کہہ رہا ہے کہ ان کی اجازت کے بغیر ان کی فون کالز کیوں ریکارڈ کی گئیں حالانکہ اپنی حکومت میں یہ سب کچھ ان کے بقول حلال اور عین حق سچ تھا۔
ان میں ایک تازہ ترین آڈیو سابق وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کی ہے۔ اس آڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد سیخ پا ہو کر انہوں نے ٹویٹ کیا تھا کہ یہ آڈیو پرائیویسی ایکٹ کی براہ راست خلاف ورزی ہے اور وہ یہ بھی ارادہ رکھتی ہیں وہ اس کے پیچھے تمام لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرائیں گی اور یہ کہ وہ ان ذمہ داروں کے ارادوں سے واقف ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی رہنما، آئرن لیڈی کا خطاب پانے والی پنجاب کی سابق وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا یہ ردعمل اس آڈیو لیک پر ہے جس میں ڈاکٹر
یاسمین راشد اور سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کی مبینہ گفتگو ہو رہی تھی۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعے کے دن پنجاب کی نگران حکومت کا وہ حکم معطل کر دیا تھا جس کے تحت غلام محمود ڈوگر کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اس مبینہ آڈیو لیک سے متعلق ڈاکٹر یاسمین راشد نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ‘ میرا مسٹر ڈوگر کے ساتھ براہ راست کنسرن (تعلق) ہے۔ میڈیا پر گردش کرنے والی مبینہ آڈیو میں ڈاکٹر یاسمین راشد اور غلام محمود ڈوگر کی تصویر لگائی گئی ہے جس میں ہونے والی گفتگو میں ایک خاتون پنجابی زبان میں سوال کرتی ہیں کہ ‘کوئی اچھی خبر سنائیں، آرڈر ہو گئے ہیں؟ اس کے جواب میں دوسری جانب سے مردانہ آواز میں جواب دیا جاتا ہے کہ ابھی تک آرڈر نہیں ملے۔ خاتون سوال کرتی ہیں کہ ان کے ارادے کیا ہیں؟ میں ویسے پوچھ رہی ہوں۔،ان کو جواب ملتا ہے کہ وہ تو سپریم کورٹ سے آرڈر ملنے ہیں، وہ تو انشا اللہ جیسے ہی ہوں گے ہمیں مل جائیں گے۔ ہمارے بندے وہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ ڈاک جاتی ہے جج صاحبان کو، وہ سائن کرتے ہیں اس پر۔ کورٹ ٹائم میں تو نہیں کرتے ناں، وہ تو کورٹ ٹائم کے بعد ہی کرتے ہیں۔ خاتون کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ ’خان صاحب کافی کنسرنڈ (متفکر) تھے۔ میں نے کہا کہ میری اطلاع کے مطابق تو اب تک ان کو نہیں ملے۔ جواب میں آواز آتی ہے کہ وہ آ جائیں گے رات کو، ڈاک سائن ہو کے آ جاتی ہوتی ہے۔ خاتون کی جانب سے پھر کہا جاتا ہے کہ آج ہماری رات خاموشی سے گزر جائے گی؟ میں ویسے ہی پوچھ رہی ہوں آپ سے۔ ان کو جواب دیا جاتا ہے کہ ‘اللہ تعالیٰ خیر کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کرم کرے گا۔ خاتون کہتی ہیں کہ میں نے کہا مشکل سوال ڈال دیا آپ کو آتے ساتھ ہی۔
اس مبینہ گفتگو کے منظر عام پر آنے کے بعد ڈاکٹر یاسمین راشد کی جانب سے حیران کن طور پر یہ نہیں کہا گیا کہ یہ گفتگو جعلی ہے، بلکہ ڈاکٹر یاسمین راشد نے ایک پریس کانفرنس بھی کی اور کہا کہ عمران خان دنیا کی چھٹی بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں اور یہ کہ میں نے کوئی غلط بات نہیں کی۔ ایک سکیورٹی ادارے کا نام لے کر انہوں نے کہا کہ یہ سب اس ادارے نے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے کہنے پر کیا ہے۔ واضح رہے کہ غلام محمود ڈوگر تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان پر وزیر آباد میں ہونے والے حملے کے بعد بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ تھے۔
پنجاب میں 2021 کے آغاز میں لاہور کے اس وقت کے سی سی پی او عمر شیخ کو عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ غلام محمود ڈوگر کو سی سی پی او لاہور تعینات کیا گیاتھا۔ پھر گزشتہ سال ستمبر میں جب مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنماؤں مریم اورنگ زیب اور جاوید لطیف کے خلاف لاہور کے ایک تھانہ میں انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے تو اگلے ہی روز وفاقی حکومت نے سی سی پی او لاہور کو واپس اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کے احکامات جاری کیے تھے تاہم پنجاب حکومت نے انہیں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی۔ اس کے بعد سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں غلام محمود ڈوگر کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الہٰی سے گلے ملتے دیکھا جا سکتا ہے جس میں چودھری پرویز الہٰی ان کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنا کام جاری رکھیں اور یہ کہ انہیں کہیں نہیں جانے دیا جائے گا۔ پھر بھی یہ سلسلہ جنبانی جاری رہا اور بعد ازاں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے غلام محمود ڈوگر کو معطل کیا تو انہوں نے پہلے لاہور ہائیکورٹ اور پھر فیڈرل سروسز ٹریبونل (ایف ایس ٹی) سے رجوع کیا۔ پھر ان کا کیس سپریم کورٹ تک پہنچا۔ جہاں ان کی عہدے پر بحالی کے احکامات ہوئے تاہم پنجاب میں نگران حکومت کی آمد کے بعد ایک بار پھر ان کو سی سی پی او لاہور کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ وہ پھر نگران حکومت کے اس حکم کے خلاف عدالت عظمیٰ چلے گئے۔ اس پر گزشتہ روز سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے پنجاب کی نگران حکومت کے احکامات کو معطل کرتے ہوئے ان کو بطور سی سی پی او کام جاری رکھنے کی ہدایت کی اور ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ میں پولیس افسران کی ٹرانسفر پوسٹنگ کا معاملہ پہلے ہی پانچ رکنی بنچ سن رہا ہے اور غلام محمود ڈوگر کی ٹرانسفر کا کیس بھی پانچ رکنی بنچ سنے گا۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کی مبینہ آڈیو لیک حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آنے والا پہلا سکینڈل نہیں ہے۔ اس سے قبل سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت سیاست دانوں اور ججوں کی مبینہ آڈیو، ویڈیو لیکس کا سلسلہ حالیہ سیاسی بحران کے آغاز سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ اب یہ بات کوئی الزام نہیں کہ اب ہر ایک پر الزام لگانے والے خود الزامات کے نرغے میں ہیں اور صورت حال سے گھبرا کر وہ کبھی پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے اور کبھی پاکستان کے حساس ترین ایٹمی پروگرام کے فروخت ہونے کا جھوٹا پراپیگنڈہ کررہے ہیں۔ جب کہ ہر محب وطن پاکستانی کا ایمان ہے کہ وطن عزیز کی سلامتی استحکام اور مضبوطی ہی ہم سب کی اولین ترجیح ہونی چاہئے نہ کہ کسی سیاسی لیڈر کو بچانے کے لئے ملکی مفادات اور عزت کو داؤ پر لگا دیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button