ColumnKashif Bashir Khan

بڑے فیصلوں والا ہفتہ .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

صدر مملکت عارف علوی کے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کی تاریخ دینے کے بعد وفاقی حکومت،نگران حکومت، پنجاب و خیبر پختونخوا و دونوں صوبوں کے گورنر شدید پریشان ہیں اور نیب جیسے ادارہ جسے وہ گزشتہ قریباً 10 ماہ سے اپنے کھربوں کے کرپشن کیس ختم کرنے کے لیے قریباً قریباً ختم ہی کر چکے ہیں، کو وحشیانہ طور پر اس وقت استعمال کر رہے ہیں۔ چیئرمین نیب آفتاب سلطان نے صرف اس لیے استعفیٰ دے دیا کہ وہ حکومت کے دباؤ پرسیاسی انتقام پر مبنی کیس بنانے سے انکاری تھے۔آفتاب سلطان نے اپنی ٹویٹ میں واضع طور پر لکھا ہے کہ عمران خان اور دوسرے رہنماؤں پر مقدمات درج کرنے کے لیے ان پر بہت دباؤ ڈالا گیا لیکن انہوں نے اپنے ضمیر کے خلاف ایسے مقدمات بنانے پر استعفیٰ دینے کو ترجیح دی،نیب کی جانب سے عمران خان کی اہلیہ، فواد چودھری، شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک کو بھی توشہ خانہ کیس میں 8 مارچ کو طلب کیا گیا ہے۔نیب اپنے قیام کے بعد اس وقت شدید نکتہ چینی کی زد میں آیا تھا جب 2002 کے انتخابات کے بعد فیصل صالح حیات سمیت دیگر سیاسی لوگوں کو وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے نیب کا سیاسی استعمال کیا گیا تھالیکن 2022 میں تو اس ادارے کے پر کاٹ کر اتحادی حکومت کے قریباً تمام ہی افراد کو ان کی کھربوں کی کرپشن پر دائر ہونے والے کیسوں سے نجات دلوا دی گئی۔مستعفی ہونے والے چیئرمین نیب آفتاب سلطان کا بیان اندرونی کہانی بیان کر رہا ہے کہ ان پر عمران خان پر کیس بنانے کا دباؤ تھا اور ان کے انکار پر مستعفی ہونے کے بعد نیب کی جانب سے عمران خان سمیت دیگر تمام کوآج ہی کے دن نیب نوٹسز نے وفاقی حکومت کے مذموم عزائم کو عوام پر آشکار کر دیا ہے اور ماضی میں کروڑوں کی برانڈڈ گاڑیاں کو غیر قانونی و غیر آئینی طور پر توشہ خانے سے گھر لے جانے والوں نے چیئرمین تحریک انصاف و دیگر رہنماؤں کے خلاف ایسا کیس بنانے کی ابتدا کی ہے جو قانونی ماہرین کے نزدیک کیس بنتاہی نہیں۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنرز اور نگران حکومتوں کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور وفاقی حکومت کے گٹھ جوڑ نے پاکستان کو نہ صرف شدید سیاسی ہیجان میں مبتلا کیا ہوا ہے بلکہ دو اسمبلیوں کے انتخابات کی دانستہ تاریخ نہ دے کر پاکستان میں انارکی اور خانہ جنگی کی سی صورتحال پیدا کر دی ہے ۔ لاہور ہائیکورٹ میں پیشی کے وقت عوام کا جو جم غفیر لاہور کی سڑکوں پر دکھائی دیا اس نے ایک طرف تو نون لیگ کی عبرت ناک انتخابی شکست کا عندیہ دیا اور اس کے بعد نون لیگ و اتحادی انتخابات سے بھاگنے پرمجبور ہوئے ہیں جبکہ اپوزیشن جو تحریک انصاف ہے، سےدشمنی پر اتر آئے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ اور مریم نواز و مریم اورنگزیب کے جو بیانات سامنے آ رہے ہیں ان میں واضح طور پر عدلیہ کو دھمکایا جا رہا ہے کہ ان کے خلاف ریفرنس بھیجے جائیں گے جبکہ ان کا عمران خان سے سیاسی طور پر نہیں بلکہ دشمنی سے نبٹنے جیسے بیانات ملک میں آگ لگانے کے مترادف ہیں۔پاکستان میں اس وقت برسر اقتدار ٹولہ قانون و آئین کی دھجیاں اڑانے پر تلا ہوا ہے اور عوام کو ان کے جائز و آئینی حق رائے دہی سے محروم کرنے کے لیے انسانی حقوق کی پامالی سے لے کر آئین پاکستان کی پامالی تک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے جس کی وفاقی کابینہ کے قریباً 70 فیصد اراکین پر ملکی دولت لوٹنے پر کرپشن کے کیس تھے ۔وفاقی حکمران آج بھی نوے کی دہائی کی سیاست کرنا چاہ رہے ہیں جس کا انجام ان کی اپنی تباہی پر منتج ہو سکتا ہے کہ 10 ماہ میں بیرونی آقاؤں اور عالمی مالیاتی ادارے کو خوش رکھنے کے لیے اتحادی حکومت نے عوام کے ساتھ جو ظلم کیا ہے اس نے عوام کے منہ سے روٹی کانوالہ بھی چھین لیا ہے۔ مہنگائی،بےروزگاری و صنعتیں بند ہونے سے پاکستان کے مزید سات کروڑ لوگوں کا شمار غریبوں میں ہو چکا ہے۔پاکستان ایک آئینی ریاست ہے اور اس کے عوام،ادارے اور عدلیہ آئین پاکستان کے تابع ہیں۔موجودہ دور میں زبان و قلم پر قفل لگایا گیاہے جو کسی بھی ریاست کی سلامتی کے تناظر میں خوفناک ہوا کرتا ہے۔آج پاکستان جس اقتصادی اور سیاسی تباہ حالی کا شکار ہے اس کی مثال آزادی کے بعد کے 75 سالوں میں نہیں ملتی لیکن پاکستان کے عوام کے صبر کا امتحان ان پر مسلط وہ ٹولہ ہے جو پاکستان کے عوام کو اقتصادی طور پر تو قتل کر ہی چکا لیکن اب آئین پاکستان سے کھلواڑ کرنے کے درپے ہے۔
موجودہ سیاسی بدترین صورتحال1971 سے بھی خوفناک ہے کہ اس وقت جنرل یحییٰ خان و ہمنواؤں کی ہوس اقتدار نے پاکستان کو دو لخت کیا تھا جبکہ آئین پاکستان کا وجود نہیں تھا لیکن آج جب آئین پاکستان موجود ہے اور اس سے شدید کھلواڑ کیا جا رہا ہے اور نیب،ایف آئی اے اور پولیس جیسے اداروں کو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا تو ریاست کا وجود خطرے میں پڑ چکا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کو ماضی کی طرح دھمکانے کا سلسلہ نون لیگ کی جانب سے تیزی سے شروع کر دیا گیا ہے اور اس پر اگر اعلیٰ عدالتوں نے فوری ایکشن نہ کیا تو پھر آفتاب سلطان جیسے کچھ اور افسران بھی جلد سامنے آ سکتے ہیں جس کے بعد ریاستی امور کو سمیٹنا مشکل ہو سکتا ہے۔رانا ثناءاللہ کا ججوں کے خلاف ریفرنس بھجوانے اور ججوں سمیت سیاسی مخالفین کی فیک آڈیوز لیک کرنے کا سلسلہ نہایت ہی خوفناک اور ججوں کا دھمکانے کے زمرے میں آتا ہے۔
ریاست پاکستان کی سلامتی کے تناظر میں عوام کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی تمام کوششیں ناکام بنانے کی ذمہ داری اب اعلیٰ عدلیہ کی فوری ذمہ داری بن چکی ہے ورنہ اتحادی جماعتیں تو اپنے اقلیتی اقتدار کی طوالت کے لیے عوام،اپوزیشن اور تمام اداروں سمیت آئین پاکستان کو روندنے پر تلی ہوئی ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان کو موجودہ بدترین فاشزم پر مبنی اقدامات پر نہ صرف فوری از خود نوٹس لینا ہو گا بلکہ نیب کی متنازعہ ترین ترمیم اور تارکین وطن کے حق راے دہی کو ختم کرنے والے زیر سماعت کیسوں پر فیصلے کرنے کے ساتھ صدر پاکستان کا پنجاب اور خیبرپختونخوا کے صوبائی انتخابات کے اعلان کو آئینی و قانونی سند عطا کر کے اس صدارتی حکم نامے کے تحت انتخابات کو یقینی بنانے کا حکم جاری کرنا ہو گا کہ اس کے علاؤہ پاکستان کو غیر یقینی صورتحال سے نکالنے کا کوئی اور راستہ نہیں بچا۔ آنے والا ایک ہفتہ پاکستان میں بڑے فیصلوں کا ہفتہ لگ رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button