تازہ ترینخبریںپاکستان

انتخابات کی تاریخ، بعض قانونی ماہرین نے صدر کا اقدام ائین کے منافی قرار دے دیا

اسلام آباد(اویس لطیف )ملک کے نامور آئینی اور قانونی ماہرین کی اکثریت نے صدر مملکت کی جانب سے دو صوبوں میں انتخابات کی تاریخ دینے اور الیکشن کمیشن کو مشاورت کیلئے طلب کرنے کے اقدام کو آئین کے متصادم قرار دیا،ماہرین کے مطابق آئین میں صدر مملکت کا کردار بلکل واضح ہے،

سینئر وکیل سپریم کورٹ شاہ خاور،حشمت حبیب اور وقاص ملک ایڈو کیٹ نے جہان پاکستان کو بتایا کہ صدر کسی صورت صوبوں کے انتخابات کی تاریخ دینے کے مجاز نہیں،جبکہ مرکز میں بھی صدر اسی وقت تاریخ دیں گے جبکہ وزیر اعظم قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھیجوائیں،الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے،صدر کی جانب سے کمیشن کو ڈکٹیشن دینے کی آئین میں گنجائش نہیں ہے جبکہ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل عارف چوہدری نے کہا ہے کہ گو رنرز کو تعینات کرنے کا اختیار صدر مملکت کے پاس ہے،

اگر گورنر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کریں گے تو صدر کو بطور سربراہ مملکت مناسب اقدمات اٹھانے کا اختیار ہے اور صدر کا اقدام آئین کے مطابق ہے۔تفصیلات کے مطابق دو صوبوں میں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے معاملات تنائو کا شکار ہیں،صدر مملکت نے 9اپریل کو پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات منعقد کرانے کی تاریخ دے دی ہے۔ اس حوالے سے آئینی اور قانونی ماہرین کی اکثریت نے جہان پاکستان سے گفتگو میں صدر کے اس اقدام کو آئین کے خلاف قرار دیا ہے،سینئر وکیل سپریم کورٹ اورمتعدد مقدمات میں عمران خان کے وکیل شاہ خاور نے کہا ہے کہ آئین میں واضح ہے کہ اسمبلیاں کیسے ٹوٹیں گی،

الیکشن کی تاریخ کون دے گا اور الیکشن کون کرائے گا جس میں کوئی ابہام نہیںہے،آرٹیکل 254واضح ہے، صدر مملکت از خود ایسا کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے اور نہ ہی صوبوں میں انتخابات کی تاریخ دینا صدر مملکت کا کام ہے،اس سوال پر کہ الیکشن کمیشن نے ایوان صدر میں مشاورتی اجلاس کا حصہ بننے سے انکار کیا ہے اس کا آئینی جواز کیا ہے انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آز خود مختار آئینی ادارہ ہے،صدر مملکت کی جانب سے مشاورت کیلئے طلب کرنا کوئی آئینی ضرورت نہیں ہے،

کمیشن کو اختیار ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اپنے فیصلے کرے،سینئر وکیل حشمت حبیب ایڈو کیٹ نے کہا کہ صدر مملکت نے یہ قدم تو اٹھایا ہے مگر اس کی کوائی واضح آئینی توجیہی ان کے پاس نہیں ہے، صدر نے الیکشن ایکٹ کا حوالہ دیا ہے مگر اس کا اطلاق وفاق پر ہوتا ہے نہ کہ صوبائی الیکشن پر،،صدر کا انتخابات کی تاریخ دینے کا اعلان صرف قومی اسمبلی تک محدود ہے اور وہ بھی تب فعال ہوتا ہے جب وزیر اعظم کی جانب سے اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس مل جائے،

صوبائی اسمبلیوں کے حوالے سے صدر ایسا کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے،سینئر وکیل سپریم کورٹ وقاص ملک ایڈو کیٹ نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ کا تعین کرنا متعلقہ صوبوں کے گورنرز اور وفاقی میں صدر کا اختیارہے،الیکشن کمیشن کو ایوان صدر سمیت کہیں سے بھی آرادانہ فیصلوں میں ڈکٹیٹ نہیں کیا جا سکتا،البتہ صدر مملکت سے غیر رسمی مشاورت میں کوئی حرج نہیں،انہوں نے کہا کہ اگر انتخابات مقررہ تاریخ سے آگے جاتے ہیں تو اس کیلئے آئین میں گنجائش تو ہے مگر اس کیلئے شرائط بھی واضح ہیں،

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی تشریح کے مطابق صدر کا عہدہ صرف علامتی ہے ،جو اپنے کاموں میں پارلیمنٹ،وزیر اعظم ہائوس کی ایڈوائس کا پابند ہے۔دوسری جانب سینئر وکیل عارف چوہدر ی نے صدر کے پاس کوئی اختیار نہ ہونے کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ گورنرز کی تعیناتی صدر کا اختیار ہے اور وہ تب تک گورنرز رہ سکتے ہیں جب تک انہیں صدر کی خوشنودی حاصل رہے تو ان حالات میں جب آیک آئینی مسئلے کی واضح خلاف ورزی ہو رہی ہے صدر اپنا اختیار استعمال کر سکتے ہیں ،

موجودہ حالات میں انتخابات کو آگے لے کر جانے کے حوالے سے آرٹیکل 6کی بات کرنا بھی آئین کا حصہ ہے،انہوں نے کہا کہ یہ ایسا ہی ہے جب وزیر اعلی پنجاب کا حلف لینے سے گورنر نے انکار کیا تو صدر نے مداخلت کی اور پرویز الہی سے ان کے عہدے کا حلف لیا تو اب بھی جب گورنرزایک آئینی ذمہ داری سے انکاری ہیں تو صدرکے پاس مکمل اختیار ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button