ColumnImtiaz Aasi

نیب کی افادیت اورجیل بھرو تحریک .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

شاہد خاقان عباسی بڑے باپ کے بیٹے ہیں ان کے والد خاقان عباسی شہید دنیا سے جانے کے بعد بھی مری کہوٹہ کے رہنے والوں کے دلوں میں بستے ہیں۔جنرل ضیاء الحق شہید اور خاقان عباسی میں گہری دوستی تھی وہی انہیں سیاست میں لائے تھے ۔اردن میں پوسٹنگ ہوئی تو بھی ایک فلیٹ میں مقیم رہے ۔شاہد خاقان عباسی کا تعلق عسکری خاندان سے ہے ،ان کے سسر میجر جنرل ریاض آئی ایس آئی کے سربراہ تھے، خاقان عباسی کے رشتے میں کزن تھے ۔اپنے والد کی طرح شاہد عباسی سراپا شرافت ہیں ان کا بیان پڑھ کر حیرت ہوئی جب تک نیب ختم نہیں ہوتا حکومت چل نہیں سکتی ۔نیب میں ان کے خلاف مقدمہ ہے انہوں نے دوسرے سیاست دانوں کی طرح نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے سے انکار کرکے نئی مثال قائم کی ہے ۔وہ عدالت سے بریت پر یقین رکھتے ہیں۔شاہد خاقان عباسی کی خدمت میں عرض ہے ادارے کبھی برے نہیں ہوتے اداروں میں کام کرنے والوں سے شکایت کی صورت میں ادارہ ختم نہیں ہو سکتا ۔
شاہد خاقان عباسی کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے حالات خواہ کچھ بھی ہوں عدلیہ آج بھی آزاد ہے، عدالتی فورم کا مقصد عوام کو انصاف کی فراہمی ہے اگر ایک عدالت سے انصاف نہیں ملتا تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا مقصد لوگوں کو انصاف مہیا کرنا ہوتا ہے ۔نیب سے پہلے بھی احتساب کے ادارے بنائے گئے فاروق لغاری کا احتساب کمیشن اور نواز شریف کا احتساب بیورو جس کے سربراہ سینیٹر سیف الرحمان تھے ۔نیب جیسے ادارے کی افادیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔سیاست دانوں اور سرکاری افسران سے ریکوری کو ایک طرف رکھیں تو نیب نے اربوں روپے پرائیویٹ ہاوسنگ سوسائٹیوں سے متاثرین کو واپس کرائے لہٰذا نیب جیسے ادارے کی ملک میں بہت ضرورت ہے البتہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے اداروں کو سیاسی اثر ورسوخ سے بالاتر ہونا چاہیے ۔ہمارا ملک عجیب سمت چلا پڑا ہے معاشی اورسیاسی عدم استحکام کے باوجود حکمرانوں کو سمجھ نہیں آر رہا وہ کیا کریں۔انتخابا ت کی طرف جائیں تو اقتدار سے ہاتھ دھوناپڑتے ہیں اقتدار میں رہیں تو عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے سے ملک ترقی کی طرف گامزن ہوتا اور عوام کی مشکلات میں کمی آتی تو بات بن سکتی تھی۔ایوب خان کے دور میں آٹا اور چینی کی قیمتوں میں معمولی اضافہ ہوا تو انہیں عوامی رد عمل کا سامنا کرنا پڑا ۔ایوبی حکومت کے خلاف تحریک نے ذرا زور پکڑا تو ایوب خان نے اقتدار چھوڑنے میں عافیت سمجھی۔سابق وزیراعظم عمران خان نے جلسے اور جلسوس کرکے دیکھ لیااب جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا ہے ۔چلیں مان لیا حکمرانوں پر جیل بھرو تحریک کا کوئی اثر نہیں ہوگا بیرونی دنیا کو کیا پیغام جائے گا؟
ہماری سیاسی تاریخ میں جیل بھرو تحریک کوئی نئی بات نہیں ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا گیا تو پیپلز پارٹی والوں نے گرفتاریاں دیں۔راولپنڈی، لاہور اور اٹک سے اراکین اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے رکن ملک حاکمین خان نے گرفتاری دی۔جنرل ضیاء الحق نے ایم آر ڈی کے رہنمائوں کو گرفتار کیا ۔ پورپی یونین اور دنیا کے دیگر ممالک کو جیل بھرو تحریک سے کیا پیغام جائے گا؟ حریت پسند ملکوں پر جیل بھرو تحریک کے بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک میں شمولیت کے لیے ہزاروں کارکن اب تک اپنے نام لکھوا چکے ہیں۔ کسی کو جرم کئے بغیر جیل تو نہیں بھیجا جا سکتا البتہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو سیفٹی ایکٹ کے تحت جیلوں میں بھیجا جا سکتا ہے۔جیلوں میں پہلے سے گنجائش سے زیادہ قیدی اورحوالاتی رہ رہے ہیں تحریک انصاف کے کئی ہزار کارکنوں کے جیلوں میں جانے سے امن وامان کا مسئلہ بن سکتا ہے۔پنجاب حکومت نے تحریک انصاف کے کارکنوں کو گرفتار نہ کرنے کا فیصلہ لیا ہے ۔سوال ہے تحریک انصاف کے کارکنوں کو بغیر کسی جرم کے فرمائشی پروگرام کے تحت جیلوں میں نہیں بھیجا جا سکتا تاوقتیکہ وہ کسی جرم کا ارتکاب نہیں کرتے ۔
بھٹو کے خلاف پی این اے کی نظام مصطفیٰ تحریک کے دوران جب بھٹو حکومت نے دفعہ ایک سو چوالیس کا نفاذ کیا تو اس کی خلاف ورزی کرنے پر پی این اے کے رہنمائوں کو جیلوں میں بھیجا گیا تھا اگرچہ تحریک انصاف عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی اس باوجود عوام کی بہت بڑی تعدادکوعمران خان سے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔پی ڈی ایم کے رہنمائوں نے عمران خان کے خلاف ہر سطح پر پراپیگنڈا کرکے دیکھ لیا وہ خان کے خلاف کوئی ٹھوس اور قابل تسلیم بیائنہ دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری مسلم لیگ نون کو گڑھے میں پھینک کر ایک طرف ہو گئے ہیں عوام کی مشکلات کا سارا ملبہ مسلم لیگ نون پر پڑ رہا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف اقتدار سنبھالنے سے اب تک عوام سے کئے گئے کسی ایک وعدے کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔دراصل ملک میں تبدیلی کی لہر چل پڑی ہے کئی عشروں تک حکمرانی کرنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون سے عوام کسی قسم کی خیر کی توقع نہیں ہے۔پنجاب میں مسلم لیگ نون ضلعی سطح پر کئی گروپوں میں بٹ چکی ہے۔ جن سیاسی جماعتوں کے رہنما اور کارکن گروپس میں منقسم ہو جائیں ایسی جماعتوں کی انتخابات میں کامیابی ممکن نہیں۔ نوازشریف نے پارٹی کے مردے جسم میں جان ڈالنے کے لیے اپنی ہونہار بیٹی مریم نواز کو مختلف شہروں میں ورکرز سے خطاب کرنے کا ٹاسک دیا ہے ابھی تک انہیں اس مقصد میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو سکی ۔جہاں تک صوبوں میں ضمنی الیکشن کی بات ہے الیکشن کمیشن کی طرف سے حیلے بہانوں کے باوجود بات عدلیہ پر آن پڑی ہے۔ عدلیہ کے لیے یہ معاملہ کسی امتحان سے کم نہیں ہے۔خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات سے الیکشن کو موخر کیا جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے پنجاب میں ضمن الیکشن سے راہ فرار کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔بدقسمتی سے قائد اعظمؒ اوران کے رفقاء کار کی وفات کے بعد راست باز قیادت کا فقدان رہا ہے۔سیاست دانوں نے ماسوائے اپنے اثاثوں میں اضافے کے سوا ملک اور عوام کے لیے کیا ہی کیاہے۔بہرکیف جیل بھرو تحریک کا ماسوائے حکومت پر دبائو ڈالنے کے کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button