ColumnRoshan Lal

پاکستان لٹریری فیسٹیول .. روشن لعل

روشن لعل

 

کچھ گن کاری لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی صلاحیتوں کا اگر اعتراف نہ کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ان کی حق تلفی نہیں بلکہ اپنے کام کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں۔اسی طرح کچھ تقریبات اتنی اہم ہوتی ہیں کہ اگر ان کا ذکر انہیں تاریخ ساز قرار دے کر نہ کیا جائے تو بات ادھوری محسوس ہونے لگتی ہے۔تاریخ ساز تقریبات اور باصلاحیت لوگوں میں خاص تعلق ہوتا ہے ، ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ تاریخ ساز قرار دی جانے والی کسی تقریب کے ساتھ کسی باصلاحیت انسان کا نام نہ جڑا ہو۔ ان دنوں شہر لاہور میں پاکستان لٹریری فیسٹیول کے نام سے جس تاریخ ساز تقریب کا شہرہ ہے اس کا سہرا ایک انتہائی باصلاحیت شخص محمد احمد شاہ کے سر ہے ۔ محمد احمد شاہ آرٹس کونسل آف پاکستان ، کراچی کے منتخب صدر ہیں۔ پاکستان میں لٹریری فیسٹیول منانے کا تصور تو کسی حد تک بھارت سے درآمد شدہ ہے مگر اس تصور کو یہاں مقبول بنانے میںجن لوگوں نے نمایاںکردار ادا کیاان میں احمد شاہ سرفہرست ہیں ۔ پاکستان میں جب بھی کبھی دہشت گردی یا اسی طرح کی کسی دوسری وجہ سے سکیورٹی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں تو سب سے پہلے ادب و ثقافت سے وابستہ تقریبا ت ملتوی کر دی جاتی ہیں ۔ احمد شاہ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ نامساعد حالات میں بھی لٹریری فیسٹیول جیسی تقریبات منعقد کرنے سے نہیں گھبراتے۔پاکستان میں سالانہ بنیادوں پر جن شہروں میں لٹریری فیسٹیول منعقد ہوتے ہیں ان میں قابل ذکر نام کراچی ، لاہور ، اسلام آباد اور حیدرآباد کے ہیں۔ ایک عرصہ سے مختلف شہروں کے ناموں سے لٹریری فیسٹیول منائے جانے کے بعد جب پاکستان کے نام سے لٹریری فیسٹیول منانے کا موقع آیا تو احمد شاہ نے اس کیلئے لاہور شہر کا انتخاب کیا ۔ لاہور کو علم و ادب، سیاست و صحافت اور آرٹ و فلم کا گہوارہ ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی سے وابستہ قد آور شخصیات سے مالامال شہر بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ لاہور کے تاریخی پس منظر سے آگاہی کی وجہ سے ہی احمد شاہ نے اولین، پاکستان لٹریری فیسٹیول منعقد کرنے کے لیے اس شہر کو چنا۔
احمد شاہ نے میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ پاکستان لٹریری فیسٹیول کا لاہور میں انعقاد اس لیے کیا جارہا ہے کیونکہ یہ شہر نہ صرف ایک ہزارسال سے علم و ادب کا گہوارہ بنا ہوا ہے بلکہ یہاں ہر دور میں نابغہ روزگار ادبی شخصیات اور فنکار پیدا ہوتے رہے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دنوں کراچی میں جو عالمی اردو کانفرنس منعقد ہوئی اس میں شرکت کرنے والے 80 فیصد ادیبوں کا تعلق لاہور، اسلام آباد اور پنجاب کے دوسرے شہروں سے تھا۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ پہلا پاکستان لٹریری فیسٹیول لاہور میں منعقد کرنے کے بعد اس نام سے اسلام آباد ، کراچی، پشاور، کوئٹہ مظفرآباد اور گلگت بلتستان میں بھی فیسٹیول منعقد کیے جائیں گے اور پھر اس سلسلے کو امریکہ ، کینیڈا، یوکے اور دبئی وغیرہ تک وسعت دی جائے گی۔ احمد شاہ کے مطابق لاہور میں منعقدہ پاکستان لٹریری فیسٹیول میں صرف اردو ہی نہیں بلکہ پنجابی اور سرائیکی کے سیشن بھی منعقد کیے جائیں گے ۔ اسی طرح جب پاکستان لٹریری فیسٹیول دوسرے شہروں میں منعقد ہو گا تو اردو کے ساتھ ساتھ پشاور میں پشتو اورہندکو اورگوادر میںبراہوی اور بلوچی کو بھی تقریبات کا حصہ بنایا جائے گا۔
پاکستان لٹریری فیسٹیول ،لاہور میں موسم بہار کی آمد کے موقع پر منعقد ہو رہا ہے ۔ کچھ برس پہلے تک لاہور میں موسم بہار کے دوران بسنت کا تہوار منایا جاتا تھا۔ بسنت کا تہوار مناتے ہوئے یہاں پتنگوں کا بو کاٹا کرتے کرتے اس طرح سے انسانوں کے گلے کاٹے گئے کہ اس کے نتیجے میں تفریح اور خوشیوں کا سامان پیدا کرنے والا قدیم ثقافتی تہوار ہمیشہ کیلئے ہماری زندگیوں سے کٹ گیا۔ لٹریری فیسٹیول کو بسنت جیسے تہوار کا متبادل تو نہیں کہاجاسکتا مگر شعور و آگہی میں افزودگی اور تفریح کے حصول کا ذریعہ ضرور سمجھا جاسکتا ہے۔ لٹریری فیسٹیول کے
متعلق کہا جاسکتا ہے کہ یہ لٹریچر فیسٹیول کے نام سے منعقد کی جانے والی تقریبات کی تبدیل شدہ اور ترقی یافتہ شکل ہے ۔ لٹریچر فیسٹیول کی تقریبات اگرصرف مختلف زبانوں میں ہونے والی تخلیقات کے متعلق اظہار خیال تک محدود ہوا کرتی تھیں تو لٹریری فیسٹیولز کے دوران اب زبان و ادب پر گفتگو کے ساتھ ساتھ رقص اور موسیقی کی محفلوں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ ادبی مجلسوں کے ساتھ رقص و موسیقی کی محفلوں کے انعقاد کو کسی طرح بھی دخل در معقولات نہیں کہا جاسکتا کیونکہ الگ الگ نظر آنے کے باوجود یہ فنون بر صغیر میں زمانہ قدیم سے اس طرح باہم وابستہ ہیں کہ ان میںارتقا ایک دوسر ے کے زیر اثر رہ کر ہی ہوتا ہے۔
زمانہ قدیم میں جب مہا بھارت سے ماخوذ کالی داس کی لکھی ہوئی کہانی ’’ شکنتلا‘‘ کو ڈرامائی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا تھا تو یہ پیشکش مغربی اوپیرا (Opera)کی طرح ادب ، موسیقی اور رقص کا مجموعہ ہوتی تھی۔اس پیشکش کے دوران ایک گلوکار شعروں پر مبنی مختلف اداکاروں کے ڈائیلاگ اونچی آواز میں گیت کی شکل میں گاتا تھا، اس گائیکی کوڈھولک سمیت جن دوسرے آلات موسیقی کی سنگت میسر ہوتی تھی ان ہی کی تھاپ پر رقاص اپنے جسم کے مختلف اعضا کو ایک ڈسپلن میں حرکت دیتے ہوئے اس طرح رقص کرتا تھا کہ گائیک کی بیان کردہ کہانی ان لوگوں کے ذہنوں میں آسانی سے منتقل ہوجاتی جن کے کانوں تک اس کی آواز نہیں پہنچ پاتی تھی۔ کالی داس کے ڈرامے ’’شکنتلا ‘‘ کی ڈرامائی تشکیل کے دوران برصغیر میں ادب ، موسیقی اور رقص کی آمیزش کی جو روایت قائم ہوئی ہماری فلموں کے گانے اسی روایت کا تسلسل ہیں۔ کالی داس کے ڈرامے سے وابستہ اس روایت کا ذکر یہاں ان لوگوں کیلئے کیا گیا ہے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ رقص و موسیقی کی محافل کو ہرگز کسی لٹریری فیسٹیول کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔
لاہور شہر میں منعقدہ پاکستان لٹریری فیسٹیول میں جہاں مشاعرے کے دوران فیض احمد فیض، ن م راشد، مجید امجد اور میرا جی کی شاعری پر گفتگو ہوگی وہاں موسیقی کی محفل میں علی عظمت، علی ظفر، سائیں ظہور، ساحر علی بگا اور جٹ برادران اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔ اسی طرح مستنصر حسین تارڑ، زہرہ نگاہ، ضیا محی الدین، افتخار عارف، انور مقصود، امجد اسلام امجد، بشریٰ انصاری، شان شاہد، حامد میر، سہیل وڑائچ، عاصمہ شیرازی اور مظہر عباس جیسے شاعر ، ادیب اور صحافی بھی مختلف پروگراموں میں حصہ لیں گے۔ پاکستان لٹریری فیسٹیول کے لاہور میں انعقاد کیلئے محمد احمد شاہ کے کردار کا اعتراف کرنے کے ساتھ الحمرا آرٹس کونسل انتظامیہ کو کو خراج تحسین پیش کیا جانا بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے لوگوں نے فیسٹیول کو کامیاب بنانے کیلئے انتہائی کم وقت میں بہت کچھ کیاہے۔ احمد شاہ اور الحمرا انتظامیہ کی کوششوں کو اصل میں اسوقت کامیاب سمجھا جائے گا جب لاہوریئے جوق در جوق پاکستان لٹریری فیسٹیول میں شرکت کر یں گے۔ لاہور یوں کو چاہیے کہ وہ فیسٹیول میں شریک ہو کر ثابت کریںکہ وہ اس شہر کی تاریخی ، ادبی اور ثقافتی روایتوںکے اصل وارث ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button