ColumnMazhar Ch

ہم کتابیں کیوں نہیں پڑھتے .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

 

کہتے ہیں کسی فرد کی ذہانت،اس کے مشاہدے اور مطالعے پر مبنی ہوتی ہے۔ موجودہ حالات وواقعات کا مشاہدہ انسان کو عمل کرنے کی صحیح رہنمائی فراہم کرتا ہے اور ذہانت کے حصول کیلئے اسے گذرے ہوئے کل میں لکھی گئی قدیم تواریخ و مذاہب اور فلسفہ وادب کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں پڑھنے والی قوم یہودیوں کی ہے جو ایک سال میں اوسطاً 72 کتابیں پڑھتی ہے جب کہ سب سے کم پڑھنے والی قوم مسلمانوںکی ہے جن کی کتابیں پڑھنے کی سالانہ اوسط صرف چھ منٹ ہے۔ اسی طرح مشہور جرمن فلاسفر ایمانول کانٹ نے کیا خوب صورت بات کی تھی کہ تمام اچھی کتابوں کا مطالعہ پچھلی صدیوں کے بہترین ذہنوں کے ساتھ گفتگو ہے ۔
یہودیوں کے عروج وغلبے کی سب سے اہم وجہ کتابوں کو اوڑھنا بچھونا بنانا اور تعلیم و تحقیق کے میدان میں ہمصراقوام سے سبقت لے جانا ہے جب کہ مسلمانوں کے زوال و پستی کی سب سے بڑی وجہ کتابوں سے دوری اور علم و تحقیق سے منہ موڑنا ہے۔ایک وقت تھا کہ ہمارے سائنس دانوں کی لکھی گئی کتابیں مغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی تھیں لیکن آج ہمارے ہاں تعلیم وتحقیق اور سائنس و ٹیکنالوجی سمیت ہر معاملے میں مغرب کے محتاج ہیں۔مسلمانوں کی موجودہ حالت کا نقشہ جون ایلیا نے بہت خوب صورت الفاظ میں کھینچا ہے،’’ قومیں اپنے اپنے راستوں پر دور تک آگے بڑھ چکی ہیں اور ہم ہیں کہ وقت کے ٹیلوں پر کھڑے یہ دعا کر رہے ہیں کہ یا تو تہذیب و تمدن کے یہ بڑھتے ہوئے قافلے راستے میں کہیں لٹ جائیں یا پیچھے لوٹ آئیں۔‘‘ ایک بہت ہی مشہور مقولہ ہے ریڈرز ہی لیڈر ہوتے ہیں۔لیکن ہمارے بہت ہی کم لیڈرز نے عالمی ادب و فلسفہ یا قدیم تواریخ و مذاہب کو صحیح معنوں میں پڑھ ا ہے۔
ہم عصر اقوام کے مقابلے میں مسلمانوں میں شرح خواندگی کی کمی کتابوں کی اشاعت اور کتب بینی میں اہم رکاوٹ ثابت ہوئی ہے۔ قوموں اور مذاہب کے حوالے سے دیکھیں توعیسائی اقوام میں خواندگی کی شرح90فیصد سے زائد ہے جب کہ مسلمانوں میں یہ شرح60فیصد سے کم ہے۔ 15 عیسائی ممالک ایسے ہیں جہاں شرح خواندگی 100فیصد ہے جبکہ مسلم ممالک میں ایک بھی ایسا ملک نہیں جس کی شرح خواندگی100 فیصدہو۔شرح خواندگی کے علاوہ کتابوں کی اشاعت کم ہونے کی دوسری اہم وجہ مسلم معاشروں میں نظریاتی و مذہبی اور سماجی وسیاسی قدغنیں ہیں۔مختلف نوعیت کی قدغنوں کے باعث ہمارے ہاں نہ صرف بہت سے اہم موضوعات پر کتابوں کی اشاعت نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ ان موضوعات میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ ہمارے ہاں سب سے زیادہ مذہبی کتابیں شائع اور پڑھی جاتی ہیں۔ خالصتاً علمی،فکری، تاریخی، اور سائنسی کتابوں کی اشاعت بھی بہت کم ہے اور ان موضوعات پر کتابوں کے متلاشی بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کتابیں زیادہ نہ پڑھے جانے کی دیگر وجوہات میں غربت، بے روزگاری ، مہنگائی اور کتابوں کی قیمتوں کازیادہ ہونا اہم ہیں ۔
کوئی شک نہیں کہ درج بالا وجوہات کتابوں کی اشاعت اور کتب بینی کے فروغ میں بڑی رکاوٹ ہیں لیکن گذشتہ چند سالوں میں سوشل میڈیا کے بڑھتے استعمال کی وجہ سے بھی کتب بینی میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔
ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو سوشل میڈیا کے استعمال سے کتابوں کی اشاعت بارے آگاہی اور ترغیب میں کافی اضافہ بھی ہوا ہے لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ بہت سے لوگ ذاتی پیسوں سے خریدی گئی کتابیں سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال کے باعث پڑھ نہیں پاتے۔اس معاملے میں اپنی مثال دوں گا کہ کچھ عرصہ قبل مہینے بھر میں سنجیدہ نوعیت کی دو تین کتابیں پڑھنا معمول تھا لیکن اب پورے ماہ میں بمشکل ایسی ایک آدھ کتاب ہی پڑھی جاتی ہے۔ہر سال کتاب میلوں میں درجن بھر کتابیں ترجیحی بنیادوں پر پڑھنے کیلئے خریدی جاتی ہیں لیکن اگلے کتاب میلے تک ان میں سے کئی کتابیں پڑھنے سے رہ جاتی ہیں۔سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال کے باعث اب تو شاعر اور ادیب دوستوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً موصول ہونے والی کتابیں پڑھنے میں بھی کئی کئی ہفتے لگ جاتے ہیں۔ جنوری کے شروع میں استاد صحافت اسلم ملک صاحب نے بڑی محبت کے ساتھ اسی کی دہائی میں پی ٹی وی پر خبریں پڑھنے والی مشہور نیوز کاسٹر ماہ پارہ صفدر کی خود نوشت’’میرا زمانہ میری کہانی‘‘ پڑھنے کیلئے دی جو ابھی تک مکمل نہیں پڑھ نہیں پایا۔
گذرے ہوئے کل میں لکھی جانی والی ماہ پارہ صفدر کی کتاب کئی حوالوں سے غیر معمولی اہمیت کی حامل کتاب ہے۔بظاہر اس کتاب میں مصنفہ کی زمانہ طالب علمی اور پیشہ ورانہ زندگی کے اہم واقعات کو قلم بند کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں یہ ستر اور اس کے بعد کے عشروں کی پاکستانی سماج اور سیاست کی غیر جانب دارانہ تاریخ ہے۔خوش آئند بات یہ ہے ہمارے ہاں شائع ہونے والی کتابوں میں ماضی میں روا رکھی جانے والی ریاستی وحکومتی پالیسیوں اورتلخ و تند حقائق کو توڑے مروڑے بغیر شائع کیا جانے لگا ہے۔اس حوالے سے یہاں بک کارنر جہلم کا تذکرہ ضروری ہے جو تعلیم، سیاست اور صحافت سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لکھاریوں کو پہلے سے موجود کتابوں کی از سر نو اشاعت کے ساتھ ساتھ نئے سرے سے کتابیں لکھنے کی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔قارئین کی سہولت اور دلچسپی کیلئےمصنفہ نے کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ ہر حصے کو الگ الگ ذیلی ابواب کے ساتھ لکھا ہے۔ پہلے حصے میں مصنفہ نے ساٹھ اور ستر کے عشرے میں اپنے لڑکپن، کالج اور یونیورسٹی دور میں نجی اور سماجی حالات کی منظر کشی کی ہے۔کتاب کا دوسرا حصہ ستر اور اسی کے عشرے میں رونما ہونے والے غیر معمولی نوعیت کے سماجی و سیاسی واقعات وتبدیلیوں کو بیان کرتا ہے۔کتاب کا تیسرا حصہ ایک میڈیا کارکن (بی بی سی اردو )کی حیثیت سے لندن سمیت دنیا بھر میں مصنفہ کے صحافتی مشاہدات و تجربات پر مبنی ہے۔کتاب میں پینسٹھ اور اکہتر کی جنگوں کے اصل اسباب و عوامل پر دلچسپ انداز میں روشنی ڈالنے کے علاوہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی کہانی بہت عمدگی سے بیان کی گئی ہے۔کتاب کے باب’’بھٹو خود میں ایک سونامی‘‘ میں سابقہ وزیراعظم عمران خان کے مقابلے میں اصل سونامی کا تذکرہ نہایت ہی متاثر کن انداز میں قلمبند ہوا ہے۔ کتاب میں بھٹو کی مقبولیت کا سیر حاصل تذکرہ بھی ہے اور بھٹوصاحب کی ان غلطیوں کا بیان بھی ہے جو ملک میں تیسرے مارشل لاء لگانے اور عوامی لیڈر کو تختہ دار تک پہنچانے کا باعث بنیں۔کتاب کا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ اس میں گھریلو، سماجی اور پیشہ ورانہ سطحوں پر خواتین سے روا رکھے جانے والے استحصالی و امتیازی سلوک پر بار بار بات کی گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button