Editorial

پشاورپولیس لائنز کی مسجد میں خودکش دھماکا

 

پشاورپولیس لائنز کی مسجد میں خودکش دھماکے میں شہید ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے پہلے تو مسجد میں خودکش دھماکے کی ذمہ داری قبول کی اور موقف اختیار کیا کہ خالد خراسانی کے قتل کا بدلہ لیا ہے، تاہم طالبان رات گئے ذمہ داری قبول کرنے سے منحرف ہوئے اور کہا کہ مساجد دیگر مذہبی مقامات دہشت گردی کرنا ہماری پالیسی نہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف ہنگامی دورے پر پشاور پہنچے، آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کا دورہ کیا اور زخمیوں کی عیادت کی اور ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا جس میں وزیراعظم کو کورکمانڈر پشاور نے دہشت گردی کے عوامل اور محرکات پربریفنگ دی جبکہ آئی جی پولیس خیبرپختونخوا معظم جاہ انصاری نے پولیس لائنز خودکش حملے پر ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی۔وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی پالیسی غلط ثابت ہوئی اور افغان طالبان کی حکومت آنے کے بعد ٹی ٹی پی کی قوت مجتمع ہوگئی ہے، کالعدم ٹی ٹی پی کے پاس اب جدید ترین امریکی اسلحہ ہے۔ پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کی تحقیقات کی جارہی ہیں، یقیناً جلد ہی اِس کے پس پردہ کردار بے نقاب ہوجائیں گے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ نے پاک فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کو وہ تجربہ دیا ہے جو بلاشبہ کسی اور ملک کی فوج کے پاس نہیں ہے، ہم نے کم ترین وسائل کے باوجود دہشت گردی کی طویل جنگ میں کامیابی حاصل کی اور شرپسند عناصر کا ملک کے کونے کونے سے خاتمہ کیا، لہٰذا اپنے اداروں پر مصمم یقین رکھیے، جلد ملوث شرپسند اور اُن کے سہولت کاروں کو ثبوتوں کے ساتھ سامنے لایاجائے گا، اِس افسوس ناک واقعے کے پیچھے کچھ اسباق اور پیغامات ہیں۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنادراصل حقیقت کے قریب ہے کہ دہشت گردوں کو موجودہ صورت حال میں منظم ہونے کا موقعہ ملا ہے اور اگر سکیورٹی فورسز اِس دوران بھی انہیں تاک پر نہ رکھتے تو یقیناً امن و امان کی صورت حال خراب ہوسکتی تھی۔ افغانستان میں
طالبان حکومت آنے کے بعد توقع ظاہر کی جارہی تھی کہ اب سرحد پار سے دہشت گردوں کی آمدورفت ختم ہوگی اور طالبان کسی صورت اپنی سرزمین کو ہمارے یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے مگر افسوس کہ جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا جارہا ہے وہ توقع کے برعکس ہے، کیونکہ حال ہی میں افغانستان سے پاکستانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایاگیا اور کوئٹہ کے رہائشی علاقوں میں میزائل داغے گئے، یعنی سرحد پار سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آنے کی بجائے اب گولیاں اور میزائل آرہے ہیں، پھر ٹی ٹی پی نے بھی اِس موقعے کو سنبھلنے کے لیے بخوبی جانا اور حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں بیٹھے مگر پس پردہ اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے خود کو منظم کرتے رہے۔ ماضی میں بھی وطن عزیز کی حکمران جماعتوں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ آئین پاکستان کے تابع ہونے کی یقین دہانی کرانے والوں سے مذاکرات کیے جائیں تاکہ امن و امان کی صورت حال بہتر ہوسکے لیکن اِس کے باوجود دہشت گردوں نے اپنی کارروائیاں ختم نہیں کیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر عزم ظاہر کیا ہے کہ ریاست اور عوام کے اتحاد کی قوت سے دہشت گردوں کو ناکام بنائیں گے، دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے عظیم قربانیاں دی ہیں، ہم شہداء کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے، نیشنل ایکشن پلان پر پوری قوت اور جامعیت سےعمل درآمد یقینی بنائیں گےاور بلاشبہ اللہ کےگھر میں سربسجود نمازیوں کا خون بہانے والے مسلمان نہیں ہوسکتے، یہ جرم کرنے والے اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بھی نہیں بچ سکیں گے، مگر اِس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف سبھی کو حالات کا بروقت ادراک کرتے ہوئے بنیادی چیلنجز پر متوجہ اور متحد ہونا چاہیے، دہشت گردوں کو منظم ہونے کی مہلت قطعی نہیں دینی چاہیے، اسی ہزار شہدا کے جنازے ہمہ وقت آنکھوں کے سامنے رہنے چاہئیں جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف دنیا کی طویل ترین جنگ میں جانوں کے نذرانے پیش کیے اور پوری قوم افواج پاکستان کے ساتھ ثابت قدم رہی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک و قوم کو درپیش چیلنجز میں بڑے چیلنجز دہشت گردی کا ناسُور، مہنگائی اور معیشت ہے، متذکرہ چیلنجز ہی سرفہرست ہونے چاہئیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر من و عن عمل کیا جائے، تمام صوبے اپنے اپنے حصے کا کام فوراً کریں، ملک کو سیاسی استحکام دیاجائے تاکہ عوام مزید تقسیم ہونے کی بجائے ایک قوم کے طور پر ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم نظر آئیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button