Editorial

معاشی بحران اور صنعتوں کی بندش

 

گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے بدھ کو فیڈریشن ہائوس کا دورہ کیااور تاجر برادری اورصنعتکاروں سے ملاقات کی۔ صنعت کار گورنر اسٹیٹ بینک کے سامنے پھٹ پڑے اور مطالبہ کیا کہ بند ہونے والی صنعت کا سود اسٹیٹ بینک اپنے ذمے لے،یہی صورتحال رہی تو مارچ تک ہنگامے پھوٹ پڑیں گے،اوپن اکائونٹ میں ڈالر کی منتقلی کی اجازت دی جائے، جب مر رہے ہوں تو مرا ہوا بھی حلال ہو جاتا ہے۔ایف پی سی سی آئی کے صدر عرفان شیخ نے کہا کہ ایکسپورٹرز اور امپورٹرز اسٹیٹ بینک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ سابق صدر ناصر مگوں کا کہناتھاکہ اسٹیٹ بینک میں بیٹھے افراد خود کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سمجھتے ہیں،سپلائی چین نہ کھلی تو بے روزگاری کا سیلاب آئے گا،رمضان میں دالیںایک ہزار روپے کلو ہو جائیں گی،پاکستان میں بہت ڈالرز ہیں، اسٹیٹ بینک انہیں تلاش کرے۔ یہاں تک کہ ایک پرانے صنعت کار ملازمین کی چھانٹی کرنے کا ذکر کرتے ہوئے روپڑے۔ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے بہتری کی نوید اِس طرح سنائی کہ متحدہ عرب امارات(یو اے ای) نے اپنے2ارب ڈالر کے ڈیپازٹس رول اوور کردیے ہیں، اگلے ہفتے سے ڈالرز آئیں گےتو زر مبادلہ کے ذخائر بڑھنا شروع ہو جائیں گے،اگر درآمد کنندگان ڈالر کا بندوبست کرتے ہیں تو ہمیں اعتراض نہیں ہو گا،کچھ مال بلا اجازت امپورٹ کے سبب بھی پورٹ پر پھنسا ہوا ہے،کرنٹ اکائونٹ خسارے کے سبب اقدامات کرنے پڑے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کو مدعو کرنے کا مقصد انہیں صنعت کاروں کے مسائل سے آگاہ کرنا اور کچھ حوصلہ افزا باتیں سننا تھا پس گورنر اسٹیٹ بینک نے دو ارب ڈالر آنے کا عندیہ دے کر انہیں حوصلہ دے دیا مگر اِس سے قبل ملک کے بڑے صنعت کاروں نے جو کچھ کہا اِس کا لب لباب تھا کہ ملازمین کی صنعتوں سے چھانٹیاں کی جارہی ہیں، ظاہر ہے کہ اِس کے نتیجے میں صنعتوں کی پیداوار میں بھی کمی ہوگی اور اِس کمی کے اثرات دور جہاں تک پہنچیں گے اِن کا ادراک معیشت کی سمجھ بوجھ رکھنے والے بخوبی رکھتے ہیں۔ ایف پی سی سی آئی کے سابق صدور کہنا تھا کہ بحران کے حل کے لیے وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے پاس کوئی پالیسی نہیں،ایسا لگتا ہے کہ اسٹیٹ بینک کمرشل بینکوں سے ملا ہوا ہے، صنعتیں بند،لوگ فارغ کیے جا رہے ہیں، بینکوں سے ڈالر کے تین تین ریٹس دیے جا رہے ہیں۔ ڈالرز کی اپنے طور پر انتظام پر کھلی امپورٹ کی اجازت دی جائے، ملک انارکی کی طرف جا رہا ہے۔گورنر اسٹیٹ بینک نے تسلیم کیا کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ہو گئے ہیں،بینکوں سے کہا ہے خوراک، ادویات، تیل کو ترجیح میں رکھیں،بزنس کمیونٹی کی تکالیف کا احساس ہے۔ مزید
ڈالرز آتے ہی مزید امپورٹس کو سہولت دینے کا منصوبہ ہے ۔ڈالرزکے معاملے پر بینکوں کے خلاف تحقیقات مکمل ہیں، جلد ایکشن لیا جائےگا،کسی بینک کو نہیں چھوڑیں گے، رپورٹ 23 جنوری کو سامنے آئےگی۔دوسری طرف عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ورلڈ بینک نے پاکستان کے لیے قرض کی منظوری آئندہ مالی سال تک موخرکی ہے۔ورلڈ بینک نے درآمدات پر فلڈ لیوی لگانے کی بھی مخالفت کی ہے اور ورلڈبینک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پائیدار معیشت کے لیے بورڈ ڈسکشن مالی سال 2024 میں متوقع ہے جبکہ سستی توانائی کے لیے قرض بھی اگلے مالی سال منظور کیا جاسکتا ہے۔مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزارت خزانہ نے عالمی بینک کی جانب سے پاکستان کا 1.1ارب ڈالر قرض روکنے کی تصدیق کردی ہے اورسیکرٹری خزانہ کے مطابق حکومت کی جانب سے متعلقہ اقدامات نہ کرنے پر قرض روکا گیا ہے،قرض مؤخر نہیں ہوا ، حکومت قرض کے حصول کے لیے اقدامات کررہی ہے، عالمی بینک کی جانب سے کچھ مطالبات تھے جن کا تعلق صوبوں سے ہے،ہماری طرف سے تمام کام مکمل ہے لیکن عالمی بینک کے وکیلوں کے مطابق کچھ دستاویز کم ہیں، حکومت صوبوں سے اس حوالے سے درکار ڈیٹا مانگ رہی ہے۔ ملک کے بڑے صنعت کاروں کے گورنر اسٹیٹ بینک کے روبرو پیش کیے گئے مسائل اور گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کا معیشت کی صورتحال سے متعلق اعتراف ملکی معاشی حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے جس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے مگر اِس معاشی کیفیت سے باہر نکلنے کے لیے حوصلہ افزا اقدامات اور اِن سے پہلے سنجیدگی قطعی کہیں نظر نہیں آتی یہی وجہ ہے کہ پاکستان ٹیکسٹائل مل ایسوسی ایشن نے ڈیڑھ سو سے زائد اسپننگ ملز بند کر دی ہیں، جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں اور صنعتی ادارے ابھی معاشی سنگینی برداشت کرنے کی کچھ سکت رکھتے ہیں ان کی بھی نظریں اسٹیٹ بینک کے لیٹر آف کریڈٹ کھولنے کا انتظار کر رہی ہیں، غرضیکہ ملکی صنعت کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو لیٹر آف کریڈٹ کا منتظر ہو ، دوسری طرف عوام کی وہ اکثریت ہے جن کو ملک کی معاشی صورتحال کی زیر زبر تک کا علم نہیں لیکن وہ معاشی مسائل کا شکار اور تاریخ کی بلند ترین سطح کی مہنگائی کا سامنا کررہے ہیں، پس ایک طرف کاروباری سرگرمیاں اور صنعتیں سُکڑ رہی ہیں اور لوگ بے روزگار ہورہے ہیں تو دوسری طرف بنیادی اشیائے ضروریہ کی قلت، مہنگائی اور غیر یقینی نے کم و بیش ہر پاکستانی کو ہلکان کررکھا ہے۔ بظاہر حالات کے سُدھار کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی کیونکہ نہ تو حکومت درآمدات کے متبادل تلاش کررہی ہے اور نہ ہی برآمدات کو فروغ دینے کے لیے مناسب اقدامات سامنے آرہی ہیں اور پھر ڈالرز کی قلت مالیاتی بحران کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت کو نئی برآمدی منڈیوں کی تلاش کے لیے تاجر برادری اور صنعتکاروں کے ساتھ تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے لیکن جہاں چیلنجز کو بحران بننے سے پہلے روکنے کی صلاحیت نہ ہو وہاں ایک کے بعد دوسرا بحران سامنے آتا ہے، کبھی آپ کی سنجیدگی اور انداز بیاں ظاہر کرتا ہے کہ آپ سے زیادہ کوئی بھی اِس مٹی سے وفادار نہیں مگر جونہی کچھ کرنے کا موقع ملتا ہے وہ سب کچھ کیا جاتا ہے جو قول و فعل میں تضاد کی مثال کے طور پرسامنے رکھا جاسکتا ہے۔ صنعتی شعبہ جہاں تالہ بندی کی طرف جارہا ہے تو دوسری طرف درآمد کنندگان خوراک اور اشیائے خورونوش کے متوقع بحرانوں کا عندیہ دے رہے ہیں بلکہ ہر شعبہ ارباب اختیار کو متوجہ کرنے کے لیے اپنے مسائل پیش کرتے ہوئے انہیں متوقع مشکل حالات سے آگاہ کررہا ہے، اور بلاشبہ ارباب اختیار اِن سے لاعلم نہیں پس کچھ تو ایسا ہو جو پوری قوم کی تشویش پر آپ کی سنجیدگی کو ظاہر کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button