ColumnNasir Naqvi

ہونی ،انہونی .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

آپ اور میں ہزاروں لاکھوں اندازے بھی لگا لیں پھر بھی ’ہونی‘‘ ہو کر ہی رہتی ہے۔ سابق وزیر اعظم اپنی طبیعت کے لحاظ سے خاصے ضدی ہیں وہ جس چیز کے پیچھے پڑ جائیں اس سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ ان کی پرانی ساتھی عائشہ گلالئی کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ خان اعظم ’’بدلہ‘‘ ضرور لیتے ہیں۔ بقول شخصے انہیں سابق سپہ سالار جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ پر غصّہ ہی اس بات کا ہے کہ وہ اچھے بھلے برسوں سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاسی جدوجہد میں مصروف تھے کہ اچانک باجوہ صاحب نے ان کا انتخاب کرلیا پہلے وہ نہیں مانے کیونکہ حامد خان جیسے ماہر قانون دان مخالف تھے اوران کا دعویٰ تھا کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ صرف تحریک انصاف ہے۔ اس لیے ایک روز یہ بڑی طاقت بن کر ضرور ابھرے گی لیکن مختلف ذرائع اور انداز سے عمران خان کو قائل کر کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ سوچ رکھنے والوں سے نجات دلا دی گئی اور 2018 الیکشن کے نتائج کی روشنی میں تخت اقتدار کا حقیقی خواب دکھا کر ہر اہم شخصیت کو عمران خان کے حلقہ احباب میں شامل کرا دیا گیا، ایسا ہونا کوئی نئی بات نہیں تھی، ماضی میں بھی ایسی مشق ہوتی رہی ہے بلکہ ایک سے زیادہ مرتبہ کنگز پارٹی بھی بنائی گئی۔ اس مرتبہ صرف انداز بدلا ، ایک پارٹی کا انتخاب کر کے اسے کنگ بنا دیا گیا۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ 2018ء کی منصوبہ بندی میں ’’اپنے پرائے‘‘ سب شامل تھے یعنی ملکی و غیر ملکی مشاورت، پھر بھی معاملہ گڑبڑ اس لیے ہو گیا کہ بنائو سنگھار کے بعد تخت نشین ہونے والے عمران خان کبھی کبھار وضع کردہ حدود سے تجاوز کرنا اپنا حق سمجھنے لگ گئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ نواز شریف بھی اسی شوق میں مبتلا تھے۔ اقتدار کی خواہش میں ابتداء میں سب کچھ تسلیم کر لیتے لیکن جلد ہی حکومتی طاقت سے سب کو زیر کرنے کی جدوجہد شروع کر دیتے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ریکارڈ ہولڈر وزیراعظم
ہونے کے باوجود تین بار ہی منصب سے اتارے گئے۔ دوسری بار انہیں بھاری مینڈیٹ دیا گیا لیکن وہ نواز شریف کو ہضم ہی نہیں ہو سکا، ان کے نادان دوستوں نے سپہ سالار پرویز مشرف سے ہی دو دو ہاتھ کرا دئیے۔ پہلے کارگل جنگ دونوں طاقتوروں کے درمیان وجۂ تنازعہ بنی پھر سری لنکا سے واپسی پر ان کا جہاز اپنی سرزمین پر اترنے سے روک دیا گیا جس کی پاداش میں سابق وزیراعظم نواز شریف اٹک جیل کے مہمان بن گئے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جس بھاری مینڈیٹ پر نواز شریف اور ان کے حواری اتراتے تھے وہ خاک میں مل گیا، زبردستی کے صدر پرویز مشرف کی صرف پندرہ منٹ کی تقریر آئین و قانون اور مسلم لیگی متوالوں پر ایسی بھاری بن گئی کہ کسی نے احتجاج کی جرأت تک نہیں کی، پھر بھی دوست ملک سعودیہ کے شاہ عبداللہ دس سالہ معاہدے پر پورا شریف خاندان اپنی سرزمین لے اڑے، سپہ سالار کے جہاز کا اغواء بھی انہونی تھی اور سنگین ترین الزام کے بعد آل شریف کا سعودیہ روانہ ہونا بھی کسی انہونی سے کم نہیں تھالیکن ہونی ہو کے رہتی ہے۔ لہٰذا ہو گئی ہمارے ہاں انصاف بقدر جثہ ملنے کی روایت ہے لہٰذا دو مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد نکالے تو گئے لیکن انہیں بچانے والوں نے ہائی جیکنگ جیسے خطرناک مقدمے سے بھی مکھن سے بال کی طرح ایسا نکالا کہ آج ماضی کے اوراق میں اس حقیقت کو مصلحت پسندی، نظریۂ ضرورت اور این
آر او کی فائل میں دبا کر داخل دفتر اس انداز میں کیا گیا کہ آج اس کی حقیقت منوانے کے لاکھوں جتن بھی کر لیں پھر بھی کوئی نہیں مانے گا بلکہ کراچی ایئرپورٹ پر اس آپریشن کی کارروائی کرنے والے آئی جی سندھ رانا مقبول بری ہونے کے بعد اپنی انہونی خدمات کے صلے میں ایوان بالا سینیٹ میں بیٹھے موج کر رہے ہیں۔ اگر کمانڈو زبردستی کے صدر پرویز مشرف ہمت کر جاتے تو آج باوقار اور بہادر لوگوں کی داستاں بھی نہ ہوتی داستانوں میں،لیکن ہونی ہو کے رہتی ہے لہٰذا تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی جدوجہد محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کیلئے کی گئی پھر بھی انہونی یہ ہوئی کہ یہ اعزاز میاں نواز شریف کا مقدر بن گیا۔ اسی طرح انہونی یہ بھی ہے کہ عمران خان اور شہباز شریف کے ہاتھ کی لکیریں یہ چغلی کھاتی تھیں کہ دونوں کبھی وزیراعظم نہیں بن سکیں گے۔ دست شناسوں نے خوب زائچے بنا بنا کر دعوے کئے لیکن ہونی کو کوئی ٹال نہیں سکا، عزت اور ذلت دینے والے مالک کائنات نے 2018ء کے الیکشن میں ہی دونوں کو دونوں چیزیں دے دیں ایک کو وزارتِ عظمی دینے کے بعد واپس لے کر اور دوسرے کو وزارت عظمی پر بٹھا کر بتا دیا کہ وہ کسی کو کچھ دے کر امتحان لیتا ہے اور کسی سے کچھ چھین کے؟
سیاست میں کبھی دروازے کھڑکیاں بند نہیں ہوتے کیونکہ سیاست کھیل ہے اقتدار کا اور حکومت، سلطنت، ریاست مال و دولت و طاقت کے زور پر جو گل کھلاتی ہے، آدم زادے اس کے شوقین ہیں۔ لہٰذا یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ’’شوق دا کوئی مُل نئیں‘‘ لہٰذا ذرا سا گردن گھما کر اقتدار، حکومت اور بادشاہت کے عشاق کا جائزہ لیں، اصول، قانون اور ضابطے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے، باپ بیٹے کا، بیٹا باپ کا ہی نہیں، بھائی سے بھائی لڑتے جھگڑتے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے دکھائی دیں گے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں چودھری برادران جن میں اختلاف انہونی سمجھا جاتا تھا، ذرا سا پنجاب کا تخت ڈگمگایا ایک چھت کے نیچے رہنے والے یک جان دو قالب وکھرے ہو کر لوگوں کی حیرانی کا باعث بن گئے حالانکہ سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر پہلے زرداری صاحب کو قائل کر کے چودھری پرویز الہٰی کو نائب وزیراعظم بنوایا پھر بُرے وقت میں حمزہ شہباز کی وزارتِ اعلیٰ کی فراغت کے بعد انہیں پی ڈی ایم کا وزیراعلیٰ نامزد کرا کے مٹھائی بھی کھلائی اور مبارک بادیں بھی دی گئیں لیکن ’’ہونی‘‘ ہوکے رہی، چند منٹوں میں پرویز الہٰی سب کچھ سیاسی، اخلاقی اقدار کو روندتے عمران خان کی گو د میں نظر آئے، اسے انہونی ہرگز نہیں کہا جا سکتا، اس لیے کہ سیاست نام اس کھیل کا ہے جس میں اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے کا مظاہرہ جائز سمجھا جاتا ہے یعنی یہ بات اٹل ہے کہ حتمی کچھ بھی نہیں۔ اب پرویز الہٰی اس قدر عمران خان کے چہیتے ہیں کہ پہلے ان کے کہنے پر اسمبلی ناں ناں کرتے ہوئے بھی تحلیل کر دی اور اب ان کا دل جیتنے کیلئے مسلم لیگ قاف کو پی ٹی آئی میں ضم کرنے کو تیار ہیں، نہ یہ انہونی ہے اور نہ ہی چودھری شجاعت حسین کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹسز جن میں پرویز الہٰی، مونس الہٰی اور حسین الہٰی سے جواب طلبی مانگی گئی ہے کیونکہ صوبائی صدر کی حیثیت سے پرویز الہٰی اپنی پارٹی ضم کرنے کا فیصلہ کر ہی نہیں سکتے، البتہ انہونی یہ کہی جا سکتی ہے کہ موجودہ دور میں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے بات چیت کے بھی روادار نہیں ہیں بلکہ موجودہ سیاسی بحران میں پرویز الہٰی کا اچانک آسانی سے اعتماد کا ووٹ لے لینا انہونی ہے حالانکہ پنجاب میں تبدیلی کے دعوئوں کو ہی حقیقت سمجھا جا رہاتھا۔ یوں سمجھئے کہ وفاقی حکومت اور ا سکے ہمنوائوں نے منصوبہ بندی ’’ہونی‘‘ کی کر رکھی تھی اور ہو گئی ’’انہونی‘‘بس اسی کی پاداش میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور وزیر دفاع خواجہ آصف کو لندن میں نواز شریف کے سامنے پیشی بھگتنی پڑی، سیاسی حالات یکسر مختلف ہو چکے ہیں اس لیے میاں نواز شریف شور شرابے اور چرچے کے بعد ابھی وطن واپسی سے انکاری ہیں کیونکہ اس ماحول میں مقدمات اور اشتہاری ہونے کے باعث ان کی گرفتاری آئین و قانون کے مطابق ہو گی اسے کسی بھی طرح انہونی قرار نہیں دیا جا سکے گا جو کسی بھی طرح مسلم لیگ نون اور پی ڈی ایم کیلئے نیک شگون ہرگز نہیں ہو گا۔
ملک و ملت اس وقت معاشی اور سیاسی بحران میں مبتلا ہے۔ یہ بھی انہونی اس لیے نہیں کہ سب کچھ ماضی کے حکمرانوں کا کیا دھرا ہے، اس میں تینوں بڑی اور اہم سیاسی پارٹیوں نے ہر دور میں اپنا اپنا حصّہ ضرور ڈالا لہٰذا کسی کوبری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکا، جبکہ اس انہونی میں ان کا حصّہ بھی کسی سے کم نہیں، جو بظاہر دکھائی نہیں دیتے معاملات کی بہتری کیلئے ہمیں ہر سطح پر بہتری قومی اور اجتماعی سوچ سے لانی ہو گی جس کیلئے لازم ہے کہ الزامات اور دعوئوں سے ہٹ کر ماضی کے مقابلے میں کچھ نیا کیا جائے۔ اندازِ زندگی ہی نہیں، سیاسی سوچ کو بھی انفرادیت اور مفادات سے بالاتر کر کے پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے مل کر کچھ کیا جائے ورنہ ہم ہی نہیں، ہماری آئندہ نسلیں بھی ’’ہونی‘‘ کو قسمت اور ’’انہونی‘‘ کو حادثہ یا اتفاق سمجھنے پر مجبور رہیں گی حالانکہ یہ دونوں معاملات اتفاق یا حادثاتی ہرگز نہیں ہوتے بلکہ کئے کے آفٹر شاکس ہوتے ہیں۔یوں ہمیں سنجیدگی سے ہونی اور انہونی کو قسمت نہیں، لمحۂ فکریہ سمجھنا ہو گا تاکہ محدود وسائل میں بکھرے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button