ColumnRoshan Lal

کراچی کے حیران کن بلدیاتی انتخابات .. روشن لعل

روشن لعل

 

کراچی میں 2015 میں منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم 64.50 فیصد ووٹ لے کر فتح مند قرار پائی تھی۔2015 میں منتخب ہونے والا ایم کیو ایم کا میئر کراچی جب ستمبر 2020 میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہواتو اس کے لوگوں نے شدت کے ساتھ نئے بلدیاتی کا انتخاب کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ گو کہ نئے بلدیاتی انتخابات کا مطالبہ کرنے والوں میں تحریک انصاف ، پاک سرزمین پارٹی اور جماعت اسلامی کے لوگ بھی نمایاں تھے مگر ان میں سے ایم کیو ایم کی آواز سب سے بلند تھی۔ کراچی میں نئے بلدیاتی انتخابات کے مطالبے کے دوران وہاں نسلہ ٹاور کا واقعہ رونما ہوا ۔ نسلہ ٹاور کے واقعہ کے دوران جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کو اپنی سیاست چمکانے کا خوب موقع ملا۔ گو کہ نسلہ ٹاور واقعے کے دوران ادا کیے گئے حافظ نعیم الرحمٰن کے کردار کو سپریم کورٹ نے مبہم قرار دیا مگر اس کے باوجود کچھ ٹی وی چینلوں نے کمال مہربانی فرماتے ہوئے انہیں ابلاغ کا ہر وہ موقع فراہم کیا جسے وہ اپنے سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرسکتے تھے۔ سپریم کورٹ نے اکتوبر 2021 میں ایک ہفتے کے دوران نسلہ ٹاور گرانے کا حکم دیا ۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے ہر ممکن کوشش کی کہ سپریم کورٹ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے مگر یہ فیصلہ حتمی ثابت ہوا اور فروری 2022 میں نسلہ ٹاور گرا دیا گیا۔ حافظ نعیم الرحمٰن نہ تو نسلہ ٹاور کو گرانے کے حکم پر عملدرآمد کی راہ میں حائل ہوئے اور نہ ہی انہوں نے اس بلڈنگ کے
متاثرین کی داد رسی کیلئے کچھ کیا مگر اس کے باوجود کراچی کے مسائل پر بات کرنے کیلئے میڈیا انہیں سب سے زیادہ مواقع فراہم کرنے لگا۔ جماعت اسلامی کی تنظیم اور عہدیدار ملک کے قریباً تمام شہروں میں موجود ہیں۔ عجیب بات ہے کہ گزشتہ ایک برس کے دوران ، پورے ملک میں حافظ نعیم الرحمٰن کو ملنے والی میڈیا کوریج کا عشر عشیر بھی جماعت اسلامی کے کسی دوسرے عہدیدار کے حصے میں نہ آسکا۔ اس میڈیا کوریج کے دوران حافظ نعیم الرحمٰن بار بار کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کرتے نظر آئے۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا مطالبہ کرتے رہنے والے حافظ نعیم الرحمٰن کی سرکردگی میں جماعت اسلامی کے امیدواروں نے کئی مرتبہ قومی و صوبائی اسمبلی کی خالی نشستوںپر منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میںحصہ لیا مگر کسی بھی حلقہ میں وہ چند سو ووٹوں سے زیادہ کچھ حاصل نہ کر سکے۔ ان ضمنی انتخابات میں گو کہ ایم کیو ایم کی کارکردگی بھی متاثر کن نظر نہ آئی مگر اس کے امیدوار جماعت اسلامی کے
امیدواروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ووٹ حاصل کرتے رہے۔ فروری 2021 سے ستمبر 2022 کے دوران کراچی میں قومی اسمبلی کے پانچ اور صوبائی اسمبلی کے ایک حلقہ میں ضمنی الیکشن منعقد ہوئے۔ انتہائی کم ٹرن آئوٹ کے حامل ان ضمنی الیکشنوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان جو مقابلے ہوئے ان میں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر کامیابی حاصل کی جبکہ قومی اسمبلی کی باقی تین نشستوں میں سے دو پی ٹی آئی اور ایک کیو ایم کے حصے میں آئی۔ ان انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدواروں کی حالت یہ رہی کہ وہ ٹی ایل پی کے امیدواروں کے قریب بھی ووٹ حاصل نہ کر سکے۔ جماعت اسلامی کے امیدواروں کی اس طرح کی کارکردگی کے باوجود بھی حافظ نعیم الرحمٰن میڈیا پر چھائے رہے۔ میڈیا میں حافظ نعیم الرحمٰن پر کس طرح کرم فرمائی کی جاتی رہی، اس کی بڑی مثال ملک میں فعال ترین میڈیا ہائوس رکھنے کا دعویٰ کرنے والوں کے ٹی وی چینل کیلئے لاہور میں ریکارڈ کیاگیا ایک پروگرام ہے ۔
اس پروگرام کے اینکر کا نام تابش ہاشمی ہے۔ تابش ہاشمی کے مذکورہ پروگرام میں کراچی میں ہونے والی تاریخی بارشوں پر بات کرنے کیلئے حافظ نعیم الرحمٰن کو خاص طور پر لاہور بلایا گیا تھا۔اس پروگرام میں کراچی کی بارشوں پربات کرنے کیلئے حافظ نعیم الرحمٰن کی طرح سابق ناظم(میئر) کراچی مصطفیٰ کمال کو بھی لاہورمیں جلوہ افروز ہونے کی خصوصی سہولت فراہم کی گئی تھی۔ جن دنوں حافظ نعیم الرحمٰن کو خاص ٹی وی چینل نے خاص طور پر کراچی سے لاہور بلایا ان دنوںتباہ کن بارشیں ،کراچی کی طرح ،وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور ملک کے کئی دیگر علاقوں میں بھی برسی تھیں ۔ ان تمام بارش زدہ علاقوں میں جماعت اسلامی بھی موجود ہے اور وہاں حافظ نعیم الرحمٰن کی طرح جماعت کا کوئی نہ کوئی مقامی امیر بھی ہے مگر حیران کن طور پر نہ تو ان علاقوں میں جماعت اسلامی کا کوئی بندہ حافظ صاحب کی طرح متحرک نظر آیا اور نہ ہی کسی تابش ہاشمی نے وہاں کے جماعت اسلامی کے لوگوں کو خاص طور اپنے پروگرام میں شرکت کیلئے لاہور آنے کی دعوت دی۔اس خاص ٹی وی چینل کی طرح کئی دیگرمیڈیا ہائوس بھی حافظ نعیم الرحمٰن کو کوریج دینے کیلئے خاص سہولتیں فراہم کرتے رہے ۔
یہ بات انتہائی عجیب محسوس ہوتی ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں انتہائی کم ووٹ لینے کے باوجود کراچی میں حافظ نعیم الرحمٰن اور ان کی جماعت اسلامی تو بلدیاتی انتخابات کیلئے ہمہ وقت کمر بستہ رہے مگر وہ ایم کیو ایم جس نے 2021 میں بڑی شد و مد کے ساتھ لوکل باڈیز الیکشن کیلئے آواز اٹھائی تھی وہ صرف رسمی کارروائی کے طور پر اپنا مطالبہ دہراتی نظر آئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم کیو ایم کے سرکردہ لوگوں کے اپنے رویوں اور لندن میں موجود ’’مہربانوں ‘‘ کی وجہ سے کراچی کے لوگوں کا ان پر اعتماد پہلے جیسا نہیں رہا لیکن اس کے باوجود سابقہ تمام ضمنی الیکشنوں میں وہ کم ازکم جماعت اسلامی سے کئی گنا زیادہ ووٹ حاصل کرتے رہے ۔ اس حقیقت کے باوجود نہ جانے کیوں انہوں نے جماعت اسلامی کیلئے اس طرح میدان کھلا چھوڑ دیا کہ اب کراچی کی میئر شپ کیلئے جماعت اور تحریک انصاف کا اتحادبنتا نظر آرہا ہے۔ ایم کیو ایم نے اس سے پہلے بھی2001میں بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کر کے جماعت اسلامی کیلئے میدان کھلا چھوڑا تھا۔ ایم کیو ایم کے اس بائیکاٹ کے نتیجے میں ہی جماعت اسلامی کے مرحوم نعمت اللہ کا ناظم (میئر) کراچی بننا ممکن ہو اتھا۔مرحوم نعمت اللہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ بحیثیت ناظم انہوں نے کراچی کیلئے بے مثال خدمات سرانجام دیں۔ وہ ابھی اپنے عہدے پر موجود تھے جب کراچی کے بلدیاتی اداروں میں خالی ہونے والی115 مختلف نشستوں پر ضمنی الیکشن منعقد ہوئے۔ عجیب بات ہے کہ نعمت اللہ مرحوم کی مبینہ بے مثال خدمات کے باوجود ایم کیو ایم نے 115میں سے 91 نشستوں پر جماعت اسلامی کے امیدواروں کو شکست دی تھی۔ 2001 میں کیے گئے بلدیاتی الیکشن کے بائیکاٹ کے متعلق ایم کیو ایم نے کہا تھا کہ اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اب دیکھتے ہیں کہ حیران کن نتائج کے حامل حالیہ بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کے متعلق آنے والے دنوں میں ایم کیو ایم کیا عذر پیش کرتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button