Editorial

پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد۔۔۔

پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد !

گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن نے کہا ہے کہ صوبہ پنجاب کی نمائندہ اسمبلی کو تحلیل کرنے کی ایڈوائس مجھ تک پہنچی ہے۔جمہوری فرد کے لیے ایوان کو توڑنا مشکل کام ہے، لیکن آئین میں اسمبلی تحلیل کرنے کی شق موجود ہے، اس کے قانونی پہلو کو دیکھنا میرے فریضے میں شامل ہے۔آئینی اور قانونی تمام پہلوں کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے، نگران سیٹ اپ اور آئندہ الیکشن کی تاریخ بھی دینی ہے۔ ان سب پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کروں گا جو آئینی ،قانونی اور ملک و قوم کے مفاد میں ہو۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات بارہ اپریل کو کرانے کی تجویز پیش کر دی ہے اور امکان ہے کہ زیرنظر پڑھنے تک گورنرپنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کرچکے ہوں، پس دستخط ہونے کے بعد پنجاب اسمبلی کی تحلیل سے متعلق کوئی شائبہ باقی نہ رہے گا اور اگر اسی اثنا میں خیبر پختونخوا اسمبلی بھی تحلیل کردی جاتی ہے تو سابق وزیراعظم عمران خان اپنے مقصد میں کامیاب نظر آئیں گے ۔گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان نے وزیر اعظم کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات بارہ اپریل کو کرانے کی تجویز پیش کی ہے۔دوسری طرف پنجاب کی سیاسی صورت حال پر وزیراعظم شہباز شریف کی دو روزہ بیرون ملک مصروفیات کے بعد وطن واپسی پر سیاسی مصروفیات شروع ہو گئی ہیں اور دیکھا جائے تو دونوں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ملک میں جلد عام انتخابات کا ماحول نظر آئے گا، پاکستان تحریک انصاف بالآخر وفاق کی اتحادی حکومت پر دبائو بڑھانے میں کامیاب نظر آتی ہے۔ مرکز میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت کی تبدیلی سے لیکر پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی سمری
گورنر پنجاب تک بھجوانے کا سارا عمل سیاسی عدم استحکام کے عروج کے دوران ہوا کیونکہ 2018 کے عام انتخابات کے نتائج اور پی ٹی آئی کی حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی انتخابات کے نتائج کو متنازع قرار دے کر ملک گیر سطح پر رابطہ عوام مہم شروع کردی گئی جس کا اختتام پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے نئے اتحاد کی تشکیل، حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور اتحادی حکومت قائم ہونے پر ہوا مگر عمران خان نے حسب اعلان اپنا کہا سچ کردکھایا کہ وہ اقتدار سے باہر ہونے کے بعد مزید خطرناک ثابت ہوئے اور اتحادی حکومت کی ہر سیاسی چال کا مقابلہ اپنی جوابی چال سے کیا اور بالآخر اسمبلی کی تحلیل تک پہنچ کر اپنے آپ کو ہر مرحلے میں اتحادی حکومت کے لیے خطرناک ثابت کرتے رہے ہیں۔ اِس میں قطعی دو رائے نہیں کہ ہماری جمہوریت اور آئین ہمیشہ سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے، کبھی آمریت کا دور تو کبھی متفقہ آئین سے چھاڑ چھیڑکرکے موم کی ناک کی طرح رُخ بدل دیا جاتا ہے مگر افسوس کہ آئین کے وہی آپشن ہمیشہ استعمال میں لائے جاتے ہیں جو حکومت کو گرانے کے لیے طے کیے گئے ہیں اِس کے برعکس جمہوریت کو تقویت دینے والی ہر شق بظاہر سیاست دانوں سے اوجھل رہی ہے، لہٰذا کوئی بھی سیاسی جماعت دوسری جماعت بالخصوص برسراقتدار کو تسلیم کرنے سے ہمیشہ انکاری رہتی ہے، اگر اپنے بس کی بات نہ رہے تو ہم خیال دوسری سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملاکر برسراقتدار سیاسی جماعت کو لاچار کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیاجاتا ہے اور پھر اقتدار سے محروم کرنے کے بعد سبھی اتحادی جماعتیں اپنے اپنے منشور کو لیکر منتشر ہوجاتی ہیں ، چونکہ پچھلے سال تحریک عدم اعتماد کے مرحلے کے دوران اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے صدر مملکت کو قومی اسمبلی سمیت تمام اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سمری بھیج دی تھی لیکن وہ عدالتی فیصلے کی وجہ سے کارآمد ثابت نہ ہوئی اور بالآخر انہیں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے پر اقتدار سے باہر ہونا پڑا، لہٰذا عمران خان تب سے عام انتخابات کا مطالبہ لیکر سڑکوں پر ہیں جس طرح اتحادی جماعتیں اُن کے دورِ حکومت میں تھیں اور اُن کا واحد مطالبہ ملک میں عام انتخابات تھا، پس تب عمران خان نے اُن کا مطالبہ ہمیشہ رد کیا اور آج جب اتحادی جماعتیں اقتدار میں ہیں، وہ خود عام انتخابات کے انعقاد سے گریزاں ہیں، پس جو بھی اقتدار سے اقتدار سے باہر ہو وہ فوری انتخابات کا مطالبہ کرتا ہے لیکن کسی تبدیلی کی صورت میں اقتدار میں آکر اُن کا یہ مطالبہ یکسر ختم ہوجاتا ہے۔ بہرکیف تمام تر کوششوں کے باوجود اتحادی حکومت پنجاب اسمبلی کی تحلیل روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکی اوراگلے مرحلے میں خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے کی تیاریاں ہیں، لہٰذا زیادہ مشکلات بظاہر اتحادی حکومت کے لیے نظر آتی ہیں کیونکہ مالیاتی اداروں کی سخت شرائط اور عالمی حالات میں تیزی سے رونما ہوتی تبدیلیاں اتحادی حکومت کو اتنی مہلت نہیں دے رہیں کہ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں عوام کو وہ ریلیف دے سکیں جو سابق حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے دوران عوام کو دینے کا بارہا اعادہ کیا تھا،پس رواں سال نہ صرف سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات بلکہ ملک میں عام انتخابات کا سال بھی ہوسکتا ہے لیکن پھر بھی ماضی کو دیکھتے ہوئے ہمہ وقت یہ دھڑکا لگا رہے گا کہ اگر اِن انتخابات کو بھی حسب سابق متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی اور اِسی کی بنیاد پر سیاسی عدم استحکام برقرار رکھا گیا تو بے شک ملک میں سیاسی عدم استحکام نہ صرف جاری رہے گا بلکہ معاشی مسائل ، مہنگائی، غربت اور دہشت گردی جیسے توجہ طلب مسائل نظر انداز ہوتے رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button