Editorial

گیس 74فیصد مہنگی کرنے کی منظوری

 

آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے گیس کی قیمت بڑھانے کے لیے سوئی گیس کمپنیوں کی درخواستوں پر فیصلہ جاری کرکے یکم جولائی 2022 سے گیس 74 فیصد تک مہنگی کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ سوئی ناردرن کے لیے74.42 فیصد جبکہ سوئی سدرن کے لیے 67.75 فیصد مہنگی کرنے کی منظوری دی گئی ہے،تاہم اوگرا کے اس فیصلے پر وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد اطلاق جولائی 2022سے ہوگا اور اگر وفاقی حکومت نے 40 روز میں منظوری نہ دی تو اوگرا فیصلے پر ازخود عمل درآمد ہوجائے گا۔ اضافے کا اطلاق یکم جولائی 2022 سے 30جون 2023 تک کے لیے ہو گا۔ بلاشبہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ اور اِس کی طوالت کے نتیجے میں عالمی معاشی نظام غیر مستحکم اور ایندھن اور خوراک کا بحران شدت اختیار کررہا ہے اور فی الحال یہ جنگ مستقبل قریب میں ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی مگر اِن دو ملکوں کی وجہ سے کم و بیش پوری دنیا میں بحرانی کیفیت پیدا ہوچکی ہے، روس اور یوکرین تیل و گیس اور اناج کے بڑے برآمد کنندہ ممالک ہیں اور پاکستان سمیت یورپی ممالک کی بہت بڑی تعداد اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اِن دونوں ممالک کی پیداوار پر انحصار کرتے ہیں مگر چونکہ روس اور یوکرین ایک دوسرے کے مدمقابل اور حالت جنگ میں لہٰذا ان کے خریدار ممالک افراتفری کی صورتحال سے دوچار ہیں، ضرورتیں پوری کرنے کے لیے نئی منڈیاں اور نئے ذرائع تلاش کیے جارہے ہیں، طلب میں اضافہ اور رسد میں کمی کی وجہ سے قیمتیں آسمان تک پہنچ چکی ہیں اور اِس جنگ نے ایسے تمام ممالک کی معیشتوں کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے جو پہلے روس اور یوکرین سے اپنی ضروریات پوری کررہے تھے لیکن اب انہیں عالمی منڈی میں منہ مانگے دام دینا پڑ رہے ہیں اور ہم بھی انہی ممالک میں شامل ہیں جو روس اور یوکرین سے مختلف اشیا درآمد کرتے ہیں مگر اب ہمیں عالمی منڈی سے رجوع کرنا پڑ رہا ہے جہاں پہلے ہی روس یوکرین جنگ اور عالمی کساد بازاری کو جواز بناکر من مانیاں کی جارہی ہیں یوں صرف دو ممالک کی جنگ نے کم و بیش پوری دنیا کو مضطرب اور کئی حوالوں سے پریشانیوں کا شکار کیا ہوا ہے، اور بلاشبہ سوئی گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے گھریلو اور صنعتی صارفین کی کمرٹوٹ جائے گی کیونکہ جہاں ہر گھر کے اخراجات میں اضافہ ہوگا وہیں انڈسٹری کی لاگت بہت زیادہ بڑھ جائے گی جو پہلے ہی گیس نرخ بار بار بڑھنے کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار ہے اور نا صرف عوام بلکہ، ملکی صنعتیں، معیشت، ٹرانسپورٹ اور سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں مگر اب ایک بار پھر یہ بڑا اضافہ ہونے جارہا ہے اور پہلے ہی ملک کی معاشی صورتحال کی وجہ سے انڈسٹری ہچکولے کھارہی ہے، کئی شعبوں میں تالہ بندی کرکے ملازمین کو بے روزگار کیا جاچکا ہے خصوصاً چھوٹی انڈسٹری میں تو بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے کو برداشت کرنے کی سکت ہی نہیں رہی مگر پھر بھی بدستور اضافہ کیا بھی جارہا ہے اور اگر آئی ایم ایف کی مشکل شرائط آنے والے دنوں میں مان لی جاتی ہیں تو مزید ایسے مشکل فیصلے اور اعلانات سامنے آنے کا خدشہ ہے، لہٰذا ایک طرف عالمی صورتحال ہمارے عوام اور انڈسٹری کے لیے گراں
ثابت ہورہی ہے تو دوسری طرف ہماری ماضی کی قیادت کی کوتاہ اندیشی نے بھی اِس مشکل وقت کو ہمیشہ دعوت دی اور اسی کے نتیجے میں آج ہم قرضوں کے پہاڑ تلے دبے ہوئے ہیں کیونکہ ایک طرف ہم جدت اور تکنیکی لحاظ سے عالمی منڈی میں بہت پیچھے ہیں اور جو قلیل درآمدات کرنے کی سکت رکھتے بھی تھے تو وہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بارہا اضافے کے نتیجے میں کھوچکے ہیں اب دیکھنے میں آئے گا کہ اِس کے اثرات سے ہمارا کوئی بھی شعبہ محفوظ نہیں رہے گا، گھریلو صارفین جنہیں پہلے ہی مخصوص اوقات میں گیس فراہم کی جارہی ہے وہ بھی گیس کی قیمت میں اضافے پر چیخ اٹھیں گے تو دوسری طرف انڈسٹری صارفین بھی سراپا احتجاج ہونے کے بعد مشکل فیصلوں پر مجبور ہوجائیں گے جس کا نتیجہ مقامی مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے، مقامی منڈی میں مہنگائی اور برآمدات میں کمی کی شکل میں برآمد ہوگا۔ ملک بھر میں ہزاروں ایسے صنعتی کارخانے ہیں جن کامکمل یا زیادہ انحصار صرف گیس پر ہے اور اِس حالیہ اضافے کے نتیجے میں یا تو ان کی لاگت میں بے انتہا اضافہ ہوگااور اِس کے نتیجے میں عام مارکیٹ میں مہنگائی بڑھے گی بلکہ ڈر ہے کہ معاملہ تالہ بندی کی طرف نہ چلا جائے کیونکہ کوئی بھی صنعت کار یا کارخانے دار گھاٹے کے لیے کاروبار نہیں کرتا اور ہم تو ویسے ہی بیک وقت کئی طرح کی بے یقینی کا شکار ہیں، سیاسی عدم استحکام عروج پر ہے، ڈالر کی قیمت تمام تر دعوئوں کے باوجود قابو میں نہیں آرہی اور بدلے میں ہماری کرنسی گراوٹ کا شکار ہے لہٰذا گیس کی قیمت میں بڑے اضافے کا نتیجہ بڑے نقصان کے اندیشے کی صورت میں برآمد ہونے کا خدشہ ہے۔ صنعتیں ہر ملک کی معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہیں ، جو ممالک آج ترقی یافتہ نظر آتے ہیں انہوں نے اپنی صنعتوں کی ضروریات کا خیال رکھا اور انہیں ہر لحاظ سے سازگار ماحول فراہم کرکے عالمی منڈی میں اپنی پہچان بنائی مگر افسوس کہ ہمارے ہاں ہر دفعہ انڈسٹری کی کمر پر ہی چوٹ پہنچائی جاتی ہے، کبھی بجلی کی قیمت میں اضافے سے تو کبھی گیس کی قیمت میں۔ بلاشبہ ہمیں اپنی ضرورت کے لیے گیس کی بڑی مقدار درآمد کرنا پڑتی ہے جس کے نرخ عالمی منڈی اور عالمی حالات سے جڑے ہوتے ہیں مگر ہمارے پاس ایسا کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہم نے کبھی دوسرے ملکوں کی طرح متبادل ذرائع پر غور ہی نہیں کیا اور ہمیشہ اسی ڈگر کے مسافر رہے جس پر پہلے حکمران چل رہے تھے، لہٰذا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں کہ ہم مہنگی ترین بجلی اور مہنگی ترین گیس پر انحصار کریں، ڈیم نہ بناکر ہم تیل سے مہنگی بجلی بنانے پر مجبور ہیں تو دوسری طرف توانائی کے متبادل ذرائع پر توجہ نہ دے کر ہم عالمی کساد بازاری اور عالمی حالات کا شکار ہورہے ہیں اور اگر اس مجوزہ اضافے کا نفاذ عمل میں لایا گیا تو پورے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہو جائے گا، جس سے عوام اور صنعتکار یکساں متاثر ہوں گے۔ ملک کی بیشتر صنعتیں اس اضافے سے براہ راست متاثر ہوں گی ، صنعتی شعبے بالخصوص برآمدات سے وابستہ صنعتوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے او رملکی مصنوعات عالمی منڈی میں اپنا رہا سہا حصہ بھی کھودیں گی۔ گیس کی قیمتوں میں بھاری اضافے سے صنعتی بحران مزید گھمبیر ہوگا اور نتیجہ حکومتی محاصل میں کمی و بے روزگاری میں اضافے کی صورت میں برآمد ہوگا اور افسوس ہم یہ فیصلے اِس وقت میں کررہے ہیں جب پوری دنیا معیشت کی جنگ کو ہی اصل جنگ سمجھ کر نجی شعبے کو سہولیات دے رہی ہے مگر ہم ہمیشہ کی طرح باد ِ مخالف ہیں۔ گیس کی قیمت میں اضافے سے کوئی ایک شعبہ بھی متاثر ہونے سے باقی نہیں رہے گا پس درآمدات میں اضافہ اور برآمدات میں کمی مزید معاشی بحران کو گہرا کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button