Columnمحمد مبشر انوار

مجبوری اورخود کفالت .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

گذشتہ سال پاکستان کا بیشتر رقبہ سیلاب میں ڈوب گیا تھا جبکہ اس وقت بھی سندھ کے کئی علاقوں میں سیلابی پانی کھڑا ہے۔ اس کے انسانی صحت پر کیا مضمر نقصانات ہو سکتے ہیں اور کتنی بیش قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہو سکتا ہے،اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ترین امر ہے کہ انسانی جان کا نقصان کسی بھی صورت مالی طور پر نہیں لگایا جا سکتا اور نہ ہی مال و زر ایک انسانی جان کا متبادل ہو سکتا ہے۔ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیاں بڑی تیزی سے وقوع پذیر ہو رہی ہیں،اس امر کے متعلق حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں کہ آیا یہ موسمیاتی تبدیلیاں قدرتی ہیں یا انہیں انسانی عقل کنٹرول کر رہی ہے کہ ایک طرف حضرت انسان بہت سے تجربات کر رہا ہے جس سے خارج ہونے والا مواد براہ راست موسم پر اثرانداز ہوتا ہے تو دوسری طرف ہارپ ٹیکنالوجی کے متعلق بہت زیادہ خبریں زیر گردش ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے امریکہ دنیا کے موسم پر قابض ہو چکا ہے۔ اس قبضہ کے بعد اب یہ امریکہ کے اختیار میں ہے کہ جہاںچاہے ،جیسے چاہے اور جب چاہے موسمی تغیرات برپا کرسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں مذکورہ خطہ کو ہمہ جہتی طور پر، اس کے قدرتی ماحول کے برعکس تہہ و بالا کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ گذشتہ برس ہونیوالی بے تحاشہ بارشوں اور موسموں میں انتہا پسندی کو بھی ماہرین اس خصوصی ٹیکنالوجی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں،جبکہ ان بارشوں کے نتیجہ میں جو تباہی پاکستان میں نازل ہوئی،اس کے مضمرات سے نکلنے میں ایک عرصہ درکار ہے۔ یہ تو خیر اغیار کی مہربانیاں رہی ہیں تو دوسری طرف اپنوں نے ملک و قوم کی تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ سیلابی پانی کے راستے کو ہی بند کر دیا گیا یا سندھ کے وڈیروں نے اپنی فصلوں اور رقبوں کو بچانے کیلئے دیواریں تعمیر کر رکھی ہیں یا دریائی بندوں کو غریب عوام کی زمینوں کو برباد کرنے کیلئے دانستہ توڑا گیا۔ گذشتہ برس مون سون کی بارشیں تو خیر غیر متوقع طور پر بہت زیادہ ہوئی جبکہ عام سے کچھ زیادہ ہونے والی بارش کے باعث بھی کراچی جیسے شہر سے پانی کا نکاس ممکن نہیں رہا کہ جو قدرتی راستے؍نالے اس پانی کو سمندر تک لے جاتے تھے،اس میں ایسے روڑے اٹکائے جا چکے ہیں کہ ان کا حجم ؍قطر کم ہو چکا اور آبی نکاس کی صلاحیت نہ ہونے کے سبب کراچی ڈوب جاتا ہے۔ سب کو علم ہے کہ ان نالوں پر تعمیرات کر دی گئی ہیں،ان کی گہرائی اور پانی کواپنے پیٹ میں بھرنے کی گنجائش بہت کم ہو چکی ہے لہٰذا نکاسی آب تیز رفتاری کی بجائے رک رک کر،آہستہ آہستہ ان نالوں سے گذرتا ہے اورتب تک گلیاں، سڑکیں اور گھروں کے آنگن نالوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔
کسی بھی مہذب یا کم ازکم عوامی درد رکھنے والی ریاست میں حکمران ایسے مسائل کا حل سوچتے ہیں، وسائل کو بروئے کار لاتے ہیں اور ہر صورت ایسی مسائل کو اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں البتہ کسی ناگہانی آفت کی صورت اقوام عالم مل کر ایسے ملک کی مدد کرنے کو آگے بڑھتے ہیں تا کہ مسئلہ نہ صرف فوری طور پر ختم ہو جائے بلکہ مذکورہ ملک اپنے قدموں پر کھڑا ہو کر دوبارہ عالمی برادری کے شانہ بشانہ چلتا نظر آئے۔ ریاستیں اپنے ذرائع آمدن بڑھانے کیلئے ہر ممکن ذریعہ اختیار کرتی ہیں اور قریباً ہر دور میں تجارت ہی ایک ایسا ذریعہ رہا ہے کہ جس کے بل بوتے پر ریاستیں اپنے مالی ذخائر میں اضافہ کرتی نظر آتی ہیں، ماضی میں تجارت اجناس کی صورت رہی ہے تو آج تجارت کے ہزاروں پہلو کھل چکے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے ہزارہا ایسی مصنوعات متعارف کروا دی ہیں کہ جن کی تجارت سے ریاستیں اپنے معاشی حالات اور زر مبادلہ کے ذخائر کو بہتر بنا کر اپنے شہریوں کو بہتر معیار زندگی فراہم کر سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے ریاست پاکستا ن اوراس کے حکمران نہ ریاست کے متعلق سوچتے دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی اس کے شہریوں سے انہیں کوئی سروکار ہے۔اشرافیہ کے کسی بھی رکن کو دیکھیں،اس کی التجا بیرون ملک سرمایہ کاروں سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہو گی لیکن ان کا اپنا سرمایہ بیرون ملک نظر آئے گا،جو پاکستان پر پاکستانی اشرافیہ کے اعتماد کا شدید ترین فقدان ہے اور اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے۔نجی بجلی گھروں کے معاہدوں پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی نظر آتی ہے کہ درحقیقت جس طرح کے یہ معاہدے کئے گئے ہیں،کہیں نہ کہیں پس پردہ یہی پاکستانی اشرافیہ ہی مستفید ہونے والوں میں نظر آتی ہے۔
بات گذشتہ برس ہونیوالے سیلاب کی تباہ کاریوں سے شروع ہوئی تھی لیکن بدقسمتی ہے کہ کوئی بھی بات کہیں سے بھی شروع کریں،اشرافیہ کے کردار تک جا پہنچتی ہے،ان کی لوٹ مار تک جا پہنچتی ہے کہ اگر اشرافیہ نے لوٹ مار نہ کی ہوتی تو پاکستان، جسے قدرت نے بے شمار وسائل سے نواز رکھا ہے، آج اس کی معاشی حالت اتنی ابتر نہ ہوتی کہ سیلاب متاثرین کی آبادکاری کیلئے پاکستان کو اقوام عالم کے سامنے جھولی پھیلانا پڑتی۔اشرافیہ نے صحیح منصوبہ بندی کی ہوتی،تو سندھ یا بلوچستان یا پنجاب میں سیلاب کی اتنی تباہ کاریاں نہ ہوتی اور نہ پاکستان کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے ہاتھ پھیلانا پڑتے بلکہ قدرت کے دئیے ہوئے اس بیش بہا قدرتی قیمتی خزانے کو محفوظ رکھنے کیلئے آبی ذخائر موجود ہوتے ،جو کئی سالوں کیلئے نہ صرف بجلی پیدا کرتے بلکہ زمینوں کو سیراب کرکے ان زمینوں پر سرسبز و لہلاتی فصلوں کی بہار کا موجب بنتےلیکن ہوا اس کے برعکس کہ اربوں ڈالر کا یہ بیش قیمت خزانہ، ریاست پاکستان کا بے شمار انفراسٹرکچر تباہ کرتا ہوا گذر گیا جبکہ اس کے غریب و نہتے شہریوں سے اپنی قیمت سے کئی گناخراج وصول کر گیا کہ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتی۔ عالمی برادری ایسی آفات پر خاموش نہیں رہتی اور اس گلوبل ویلج پر بسنے والے کی مشکل وقت میں مدد کیلئے کھڑی نظر آتی ہے،چنانچہ سیلاب کی تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے،عالمی برادری نے فوری طورضروری امداد مہیا کی لیکن پھر بدقسمتی کہ اشرافیہ اور اس کے حاشیہ برداروں نے یہ امداد بھی متاثرین تک پہنچانے کے بجائے اپنے گوداموں کی زینت بنا لی یا پھرامداد میں ملے خیموں کو سیاسی جلسوں میں سیاستدانوں کے قدموں میں یوں بچھایا کہ امداد دینے والوں کا مونو گرام ان کے قدموں کے نیچے نظر آیا۔سوائے تف کے اورکوئی لفظ اس اشرافیہ کیلئے نہیں نکلتا کہ کیا عالمی برادری اندھی ہے ؟کیا اسے نظر نہیں آتا کہ جو امداد وہ متاثرین کیلئے فراہم کرتے ہیں وہ کس مقصد کیلئے استعمال ہوتی ہے؟کیا ایسی حکومتوں پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟یا ایک دن عالمی برادری براہ راست متاثرین تک یہ امداد پہنچانے کا سامان کرے گی،تب خود مختاری کا رونا روتے ہوئے اپنی چونچ گیلی رکھنے کا چارہ کیا جائے گا؟نجانے اشرافیہ کی ہوس زر کی بھوک کب ختم ہو گی؟نجانے مجبور عوام کی بہتری کا خیال انہیں کب آئے گا؟
اس تمام تر پس منظر کے باوجود خوش آئند بات یہ ہے کہ جینوا میں منعقد ہونیوالی کانفرنس میں پاکستانی سیلاب متاثرین کیلئے ایک خطیر رقم کا اعلان کیا جا چکا ہے اور امید یہی ہے کہ اس تین روزہ کانفرنس میں پاکستان اپنے متعین کردہ ہدف سے زیادہ ’’امداد‘‘ اکٹھی کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ممکنہ طور پر یہ پاکستان کے گناہوں کاکفارہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو حکومت تبدیل ہونے کے بعد براہ راست پاکستانی حکمرانوں کو نہیں دیا جا سکا،اس کا مداوا اس صورت کیا جا رہا ہو۔ملنے والی یہ امداد فوری طور پر تو پاکستان نہیں پہنچ رہی لیکن توقع ہے پاکستان کو یہ رقوم جلد مل جائیں گی اور اگر حکومت پاکستان نے اپنے دیگر واجب الادا قرضوں سے بہتر طریقے سے نپٹ لیا، دوبارہ بیرون بنکوں کو منتقلی نہ ہوئی، نکاسی آب کے قدرتی راستوں سے تجاوزات ہٹانے میں استعمال کی گئی تو مستقبل میں سیلابی ریلوں سے کم نقصان کی توقع کی جا سکتی ہے البتہ تجارتی ترقی کے سب راستے بظاہر مسدود نظرآتے ہیں ،اس لیے خود کفالت کی عدم موجودگی میں ریاست پاکستان کی یہ مجبوری دکھائی دیتی ہے کہ ریاست پاکستان مانگنا نہیں چاہتی لیکن مجبوری ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button