Editorial

ؕسیلاب متاثرین اور اقوام عالم کی ذمہ داری

 

جنیوا میں وزیراعظم پاکستان محمد شہبازشریف اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس کی مشترکہ میزبانی میں ڈونر کانفرنس بین الاقوامی برادری کے لیے اہم موقع ہے کہ وہ پاکستان کا ساتھ دے اور تباہ کن سیلاب کے بعد متاثرین کی موثر بحالی کے لیے اپنے عزم کا اظہار کرے کیونکہ اِس کانفرنس کے ذریعے پاکستان تباہ کن سیلاب کے بعد تعمیرات کے لیے معاونت اور حمایت چاہتا ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں مون سون کی تباہ کن بارشوں اور پگھلتے گلیشیئرز کی وجہ سے قریباً اسی لاکھ لوگوں نے محفوظ مقامات پر منتقلی کے لیے نقل مکانی کی، اور زندگی بچانے کی کوشش میں دو ہزار کے قریب موت کے منہ چلے گئے۔ کھلے آسمان تلے رہنے والے اِن افراد کا گھر، پیشہ، مویشی غرضیکہ سب کچھ تباہ و برباد ہوچکا ہے، بدترین سیلاب نے املاک کا نام و نشان ختم کردیا ہے ، لوگ جان بچانے کی کوشش میں اپنے مویشیوں کو سیلابی ریلے میں بہتے ہلاک ہوتے دیکھ رہے تھے لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود اِن کو بچا نہ سکے۔ بلاشبہ وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں نے اپنے اپنے وسائل کے مطابق سیلاب سے متاثرہ افراد کی ہر ممکن مدد کی ہے، یہی نہیں ہر پاکستانی نے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے اپنے وسائل کے مطابق قربانی دی ہے مگر اِس کے باوجود متاثرین کی ازسرنو بحالی کے لیے ناکافی ہے۔ قیامت جیسی صورت حال میں افواج پاکستان کے تمام شعبوں نے متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے دن رات آپریشن جاری رکھے اور تمام وسائل استعمال کیے، اسی طرح ریسکیو اور دیگر اداروں نے بھی ہر ممکن کوشش کرکے متاثرہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا مگر اُس وقت کی تباہی کو دیکھتے ہوئے محسوس کیا جارہا تھا کہ متاثرین جلد دوبارہ معمولات زندگی کی طرف نہیں لوٹ سکیں گے، کیونکہ سیلاب اور بارشوں کے نتیجے میں جس قدر تباہی آئی ہے، اِس سے نمٹنا اور پھر متاثرین کو دوبارہ آباد کرکے ان کے نقصان کی بھرپائی کرنا کسی بھی ترقی پذیر اور کم وسائل والی ریاست کے لیے ممکن نہیں، ہم تو بیک وقت ہر طرف سے مشکل میں گھرے ہوئے تھے، چاروں صوبوں میں بدترین سیلاب اور مسلسل بارشوں نے تباہی و بربادی کے مناظر دیکھنے کے لیے پیدا کررکھے تھے، تمام حکومتی شخصیات یہاں تک کہ پاک فوج کے سربراہ اور افسران بھی متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے میدان عمل میں تھے کیونکہ اُس وقت پہلی ترجیح یہی تھی کہ جانی نقصان کو کم سے کم رکھا جاسکے، لہٰذا ہم بڑی حد تک اِس میں بروقت کارروائیوں کے نتیجے میں کامیاب تو رہے مگر اب متاثرین کی بحالی کا عمل رُکا ہوا ہے
حالانکہ جس قدر تباہی اقوام عالم دیکھ چکی ہے، اِس کے بعد متاثرین کی فوری بحالی کے لیے بلاتاخیر سبھی کوآگے آنا چاہیے تھا، بدترین معاشی مسائل کی شکار ریاست کے لیے متاثرین سیلاب کی بحالی اور ازسرنو آباد کاری بہت بڑی ترجیح ہے کیونکہ متاثرین کو نامساعد موسمی صورتحال کا سامنا ہے، متاثرین کی نصف سے زائد تعداد کھلے آسمان میں شدید ترین سردی کا سامنا کررہی ہے، سر پر چھت ہے اور نہ ہی موسمی اثرات سے بچنے کے لیے وسائل، ان میں وہ افراد جو حکومتی کاوشوں سے واپس اپنے علاقوں میں جاچکے ہیں انہیں بھی وسائل کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ان کے آمدن کے ذرائع، کھیت اور مال مویشی سب کچھ سیلاب کی نذر ہوچکا ہے، یہاں تک کہ ان کے پاس تعمیرات کے لیے پیسے نہیں ہیں کہ وہ دوبارہ چھت تک شدید سرد موسم کا مقابلہ کرسکیں، خوراک، ادویات اور دیگر ضروریات کی فراہمی بھی وفاق اور صوبائی حکومتیں کررہی ہیں مگر متاثرین کی بحالی کے لیے اقوام عالم کی طرف سے ویسی گرم جوشی اور جذبہ دکھائی نہیں دے رہا جس کی موجودہ حالات میں فوری ضرورت تھی۔ ستمبر میں سیلاب کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد انتونیو گوتیریس نے بربادی کے مناظر دیکھ کر اسے ماحولیاتی تباہی قرار دیا تھا اور اقوام عالم سے کہا تھا کہ پاکستان کو اُس جرم کی سزا ملی ہے جو پاکستان نے کیا ہی نہیں یعنی فضائی آلودگی پیداکرنے میں پاکستان کا ایک فیصد بھی حصہ نہیں لیکن موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں تباہی سے دوچار پاکستان ہی ہوا ہے۔ پچھلے سال ستمبر سے ابتک اگرچہ سیلاب کا پانی کافی حد تک اُتر چکا ہے لیکن اِس کے باوجود حالات آبادی کاری اور کاشتکاری کے لیے سازگار نہیں ہیں کیونکہ سیلاب متاثرہ علاقوں میں تباہ شدہ گھروں، دیگر ڈھانچے کی تعمیر، سماجی تحفظ، روزگار، ذرائع روزگار، پانی، نکاسی آب اور حفظان صحت ،آمد و رفت، آبی وسائل، آبپاشی ، توانائی اور دیگر امور کی بحالی کیلئے پاکستان کو فوری امداد کی ضرورت ہے۔ قبل ازیں مصر میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق جاری عالمی کانفرنس ماحولیاتی تباہی سے متاثرہ کمزور ممالک کے لیے فنڈ کے قیام کے تاریخی معاہدے پر اختتام پزیر ہوئی تو معاہدے پر عملدرآمد کے لیے عبوری کمیٹی قائم کی گئی تاکہ کمیٹی ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کے نقصانات کے ازالے کے لیے قواعد وضوابط طے کرے اور فنڈنگ کے نئے اور اضافی ذرائع بھی تلاش کئے جائیں ۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اِس کوپ 27 کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ غریب ممالک کے نقصانات کے ازالے کے لیے فنڈ قائم کرنے پر اتفاق کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ماحولیاتی انصاف کی جانب پہلا قدم قرار دیا تھا کہ عالمی سطح پر ہونے والی اِس پیش رفت سے ماحولیاتی آفات سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو مدد ملے گی جو موسمیاتی آفات اور اثرات کی کئی برسوں سے جنگ لڑ رہے ہیں اور حالیہ سیلاب اور کئی سالوں سے سموگ اور فضائی آلودگی نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان ان متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے، مگر اِس کے باوجود صورت حال بدستور ویسی کی ویسی ہی ہے اور متاثرین سیلاب کی جس قدر مدد کی جانی چاہیے، ویسے نہیں کی گئی لہٰذا اِس اہم معاملے پر ڈونرز کانفرنس کا انعقاد اِس لیے بھی ناگزیر تھا کیونکہ متاثرین سیلاب شدید ترین حالات کا سامنا کررہے ہیں اور انہیں عالمی برادری کی طرف سے خاموشی اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں مل رہا، حکومت پاکستان متاثرین سیلاب کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لانے کے باوجود اُس تباہی کو نہیں روک سکی جس کے ذمہ دار ہم پاکستانی نہیں تھے اور انتونیوگوتریس نے پاکستان میں موجودگی کے دوران واضح طورپر کہا تھا کہ پاکستان دوسروں کی کوتاہیوں کی سزا بھگت رہا ہے پس کاربن پیدا کرنے والے ممالک کو آگے بڑھ کر اپنا فرض ا دا کرنا پڑے گا،بلاشبہ انتونیوگوتریس کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی مدد کے لیے فنڈ قائم کرنے پر اتفاق سامنا آچکا ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اِس اہم اور عالم گیر مسئلے پر بڑی طاقتوں کو اپنا دبائو استعمال کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کی مدد کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ اِن ممالک کے متاثرہ افراد کو ریلیف مل سکے اور ایسے ٹھوس اقدامات بھی کرنے چاہئیں کہ ایک طرف کاربن کے اخراج کو روکا جائے تو دوسری طرف پے درپے آنے والی آفات کی صورت میں متاثرہ ممالک کو ریلیف دیکر لوگوں کو بچایا جائے۔ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات صرف انسانوں پر ہی رونما نہیں ہورہے بلکہ چرند و پرند بھی متاثر ہورہے ہیں، خوراک کا بحران قحط کی شکل اختیار کررہا ہے، پاکستان کی ہی مثال لے لیجئے کہ حالیہ سیلاب کے باعث پاکستان کو اجناس کی درآمدات پر بھاری زرمبادلہ خرچ کرنا پڑرہا ہے، ، پس ایک طرف حکومت سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں انفراسٹرکچرکی بحالی کے مشکل کام میں پریشان ہے، متاثرہ افراد کھلے آسمانوں تلے پڑے ہیں ، لہٰذا ان کو دوبارہ زندگی شروع کرنے کے بھی قابل کرنا ہے پھر سیلاب کی وجہ سے جو اجناس برباد ہوگئی ہیں اُن کی کمی پوری کرنے کے لیے مہنگے داموں درآمدات کرنا پڑرہی ہیں ، پس صورت حال ایسی ہے، جس نے چہاراطراف سے وفاقی اورصوبائی حکومتوں کو جکڑ رکھا ہے اور یہی نہیں شدید گرمی، شدید سردی، بارشوںکا قبل ازوقت ہونا اور مسلسل ہونا، فضائی آلودگی اور ایسے کئی مسائل سے پاکستان کئی سالوں سے نبرد آزما ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button