ColumnNasir Naqvi

منزل کی خبر نہیں .. ناصرنقوی

ناصرنقوی

 

ایسا لگتا ہے کہ سیاست کی فکر سب کو ہے، ریاست کی کسی کو نہیں، پھر بھی حکومت دعویدار ہے کہ وہ سیاست نہیں، ریاست بچانے آئے ہیں، وفاقی وزراء اور صوبائی گورنرز چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ عمرانی دور حکومت نے نہ سیاست کی پاسداری کی اور نہ ہی ریاست کی، پھر بھی اقتدار سے محرومی میں بے سروپا اڑا رہے ہیں۔ حالات سب کے سامنے ہیں کہ ریاست مدینہ اور نیا پاکستان بنانے والوں نے ہر وہ کام کیا جس کے حکومت میں آنے سے پہلے انکاری تھے، احتساب اور انصاف کا وعدہ تھا، اس لیے کوئی نتیجہ نکلا کہ نہیں کسی کے پاس جواب نہیں، جن پر الزام لگا انہیں پکڑا بھی گیا اور جکڑا بھی، پھر بھی لاحاصل ۔ آئی ایم ایف نہ جانے کی یقین دہانی کرانے کے بعد بھی بھاری بھرکم شرائط پر ریکارڈ قرضہ لے کر ماضی کے حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا لہٰذا جدید حالات میں سوشل میڈیا وار نے عمرانی حکومت کیلئے فضا سازگار بنا دی۔ اپوزیشن اتحاد سڑکوں پر روتا پیٹتا رہ گیا، کسی نے ان کی بات نہیں سنی، سلیکٹرز اور کوچز نے مسائل کا اندازہ کرتے ہوئے بیرون ملک سے ظفر مرزا، شہزاد اکبر، عبدالحفیظ شیخ جیسے بہت سے مددگار فراہم کر دئیے، سب نے وطن عزیز کو ایک تجربہ گاہ سمجھتے ہوئے نت نئے تجربے کئے۔ روزانہ کی بنیاد پر کامیابی، ترقی اور خوشحالی کے دعوے کئے گئے، سابق وزیراعظم عمران خان کے اعتماد کو تقویت دینے کیلئے عدالت عظمیٰ نے خصوصی توجہ دیتے ہوئے ان کو صادق و امین بھی قرار دے دیا۔اس فیصلے سے عمران خان کے بیانیے کو زبردست تقویت ملی اور پاکستانی عوام کی سوچ اس نہج پر پہنچ گئی کہ خان اعظم قوم کیلئے مسیحا ثابت ہو گا۔ قومی خزانہ لوٹنے والے قید ہوں گے لہٰذا چند ہفتوں اور مہینوں میں لوٹ مار کی دولت واپس آ جائے گی اور دنیا دیکھے گی کہ ملکی ترقی درست سمت میں چل پڑے گی لیکن کچھ نہیں ہو سکا۔ بہانہ یہی بنا کہ نواز شریف ٹولے اور آصف زرداری کی نگرانی میں لوٹ مار، منی لانڈرنگ اس قدر انتہاکی ہوئی ہے کہ اس پر قابو پانا مشکل ہو چکا ہے، موجودہ حکومت بھی اسی طرح کا بہانہ کر رہی ہے ، بس سیاسی اور حکومتی کردار بدلے ہیں یعنی شخصیات اِدھر سے اُدھر ہوئیں تو بیانیہ بھی بدل گیا۔ عوام مایوسی، پریشانی میں حیرت زدہ ہیں کہ ہم کس کا گریبان پکڑیں، ہماری تو زندگی اجیرن ہو گئی، تبدیلی گلے پڑ گئی،روزگار کے مواقع گھٹ گئے، مہنگائی بڑھی تو قوت خرید سے سب کچھ باہر ہو گیا، کون پوچھ سکا ہے کہ ترقی پذیر ملک میں بسنے والوں کے مستقبل اور سہولت کاری کیلئے کونسی حکمت عملی اپنائی گئی ہے کہ چار آمریت اور تین جمہوری ادوار میں بھی سوائے مسائل کے غریب عوام کو کچھ نہیں مل سکا۔ اس ساری حکمت عملی اور منصوبہ بندی میں کسی حکمران نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی ایسی پالیسی نہیں بنائی جس سے عوام الناس، متوسط طبقے اور ملازمین کیلئے کچھ نیا کیا جا سکے۔ ماہرین اقتصادیات کا دعویٰ ہے کہ موجودہ معاشی بحران اچانک نمودار نہیں ہوا، کبھی طویل مدتی منصوبے بنائے جاتے تھے کیونکہ اس وقت کے حکمرانوں کو اختلاف کے باوجود قوم کی حقیقی منزل کی خبر تھی، اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ جمہوری حکومت میں بھی طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں، کہیں اور ہے؟ مستقبل کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے لیکن کسی بھی شعبے میں دنیا اور ترقی یافتہ ممالک کی طرح تھنک ٹینک موجود نہیں، حالانکہ ہمارے ہاں باصلاحیت اور قابلِ رشک دماغ موجود ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا انحصار ہی ان تجربہ کار تحقیق کاروں پر کیا جاتا ہے جو قومی دھارے میں اپنا اہم اور مثبت کردار ادا کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں پھر بھی انہیں اپنی نہیں قوم کی منزل کی خبر ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں ریٹائرمنٹ کے بعد اچھے بھلے افسر کو بھی بے کار سمجھا جاتا ہے شاید اس لیے کہ سرکاری محکمہ سب سے پہلے اس سے گھر اور کار چھین لیتا ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ باصلاحیت لوگوں کی کمی نہیں، مین پاور کا بھی مسئلہ نہیں، کسی شعبے میں ہم خودکفیل ہیں کہ نہیں، آبادی میں ہم بہت سوں سے آگے ہیں حالانکہ یہ طوفان بھی منصوبہ بندی کے نقصان کا باعث ہے۔وسائل محدود اور مسائل لامحدود، اس لیے کہ ہمارے حکمران اقتدار میں آتے ہیں، اپنے وعدے اور منشور بھول کر وقت کے دھارے میں بہہ جاتے ہیں اب تو دنیابھر میں اتحادی حکومتوں کا رواج چل نکلا ہے لہٰذا اتحادیوں کو راضی رکھنے اور ساتھ لے کر چلنے کیلئے صاحب اقتداربہت زیادہ دبائو میں رہتے ہیں۔سابق وزیراعظم عمران خان بھی اب احساس کر رہے ہیں کہ دو تہائی اکثریت کے بغیر حکومت بااختیار نہیں ہو سکتی، حالانکہ بھاری مینڈیٹ نواز شریف حاصل کرنے کے بعد بھی حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے لیکن طاقت ور صاحب اقتدار اپنے آپ کو زیادہ مضبوط سمجھتے ہوئے من مانیوں کا شکار ہو جاتا ہے اس سے پہلے بھی طاقت کا سرچشمہ عوام کو سمجھتے ہوئے اپنی کرسی کو مضبوط کہنے والے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی مارے گئے تھے اس لیے کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کوئی بھی پاکستان میں مضبوط حکومت برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ بھٹو صاحب عوامی حمایت اور ملکی نامساعد
حالات میں ایک صاحب بصیرت سیاستدان کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرے تھے لیکن ان کی اٹھان اور ویژن اپنے پرائے کسی کو بھی ہضم نہیں ہوئی۔میں اور آپ ان کے نظریات سے خواہ اختلاف کریں پھر بھی اسلامی بم، تیسری دنیا، اسلامک چیمبر آف کامرس جیسے دور رس منصوبوں کی نشاندہی انہوں نے ہی کی تھی اور میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ کامیا ب اسلامی کانفرنس کا انعقاد ان کے قتل کی حقیقی ایف آئی آر تھی جس کا اعلامیہ دنیا بھر کیلئے باعث حیرانگی بنا تھا۔ امریکہ بہادر کو یہ اندازاور اسلامی دنیا کو یکجا کرنا پسند نہیں آیا تھا اسی لیے سی آئی اے نے سقوط ڈھاکہ کے بعد ایک اور سازش کر کے فخر ایشیا کا اعزاز پانے والے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو ایک جعلی اور فرضی مقدمے میں پھانسی چڑھوا دیا، پھر بھی قوم کو آمریت کے نعروں، وعدوں اور سبز باغ نے حقیقی منزل کی خبر نہیں ہونے دی بلکہ اسے یہی یقین دہانی کرائی گئی کہ تمہاری منزل یہی ہے اور پاکستان امیر المومنین جنرل (ر) ضیاء الحق کی زیر قیادت دنیا کی ایک بڑی اسلامی ریاست بن کر ابھرے گا۔امریکہ بہادر کو اس کے تھنک ٹینک یہ راز بتا چکے تھے کہ اسلامی کانفرنس سے دوررس نتائج نکلے ہیں اس لیے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا، موجودہ ماحول میں سیاستدان اور اکابرین اسلامی چوری کھا کر خوش ہیں اسی لیے اس نے خطے کے حالات بھانپ کر روسی صدر گوربا چوف کی غلطی پر جنرل صاحب سے ردعمل میں جہاد افغانستان کا کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کیا جسے صدر ضیاء الحق اور ان کے حواریوں نے من وسلویٰ اور بڑا اسلامی فریضہ سمجھتے ہوئے ہاتھوں ہاتھ لیا، ہر قسم کی امداد ملی، اسلحہ بارود بھی وافر دیا گیا اور ڈالروں کی بارش بھی خوب ہوئی۔ نتیجہ امریکہ بہادر کے حق میں نکلا، دنیا کی ایک سپرپاور منتشر ہو گئی ، اس ٹوٹ پھوٹ میں دنیا کا نقشہ بدل گیا نئی ریاستیں آزادی کی شکل میں سامنے آ گئیں، روسی سپر پاور کا غرور اور مٹی میں مل گیا اور پاکستان میں نہ صرف ایک بڑھی تعداد افغان بھائیوں کی آ بسی، بلکہ امریکہ بہادر اور ضیائی حکومت کے سہولت کاروں نے دونوں ہاتھوں سے دھن دولت باپ کا مال سمجھ کر اکٹھا کیا۔ آج وہی نو دولتیے اور اولادیں وطن عزیز کے ساہو کاروں میں شمار ہوتے ہیں، اگر جائزہ لیا جائے تو ایسا ہی فارمولا اپنی سیاست میں بھی بآسانی دکھائی دے گا۔ مطلب یہ ہے کہ امریکہ بہادر نے اپنے دوست ضیاء الحق اور ساتھیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا کسی کو یاد نہیں، اس لیے کہ انہیں منزل مل گئی، عوام الناس کا کسی نے اس لیے نہیں سوچا کہ اوّل تواسے منزل کی خبر نہیں، دوئم اس کے مسائل ایسے الجھا دئیے گئے کہ اسے دور دور منزل نظر نہ آئے۔
کوئی نہیں جانتا کہ حقیقی منزل کی خبر کیسے ہو گی؟ اور جنہیں علم ہے وہ بادشاہوں کی طرح زندگی گزارنا حق سمجھتے ہیں۔ انہیں عوام کیا اپنے قرابت داروں کی بھی فکر نہیں، جنرل صاحب کے بعد عمران خان نے بھی قوم کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے ریاست مدینہ کا نسخہ استعمال کیا۔ یقیناً ان کی تربیت کرنے والوں نے اچانک یہ سبق نہیں پڑھایا ہو گا کیونکہ وہاں تحقیقی کام کیلئے تھنک ٹینک موجود ہیں جنہوں نے وطن عزیز کیلئے یہ چورن تجویز کیا ہو گا اور ساتھ ہی طریقہ استعمال بھی بتا دیا ہو گا۔ چورن بکا، خوب بکا لیکن ابھی بھی منزل کی خبر نہیں، اسی لیے سیاست میں ہنگامہ آرائی، کھینچا تانی اور توڑ جوڑ تو موجود ہے، سیاسی بحران کا حل دکھائی نہیں دے رہا۔ مسائل سیاسی ہوں کہ معاشی بحران ، ان کے مستقل حل کیلئے دو ہی راستے ہیں ایک پارلیمنٹ کا فعال ہونا اور دوئم تمام قومی شعبہ جات اور محکموں میں باصلاحیت اور غیر جانبدار، تجربہ کار افراد کا تھنک ٹینک جو اپنی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر قوم اور قومی رہنمائوں کو منزل کی خبر دیں، کیونکہ ہماری ہر بے ترتیبی کی بنیاد یہی ہے کہ ہم اپنے مفادات تو جانتے ہیں لیکن کسی کو منزل کی خبر نہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button