Editorial

مشکل معاشی حالات اور مہنگائی

 

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ کوئی شک نہیں کہ اس وقت مہنگائی عروج پر ہے، حکومت مسائل کے حل کے لیے اقدامات اٹھارہی ہے۔جب ہم نے حکومت سنبھالی تو انتہائی مخدوش حالات تھے۔ آئی ایم ایف معاہدہ ٹوٹ چکا تھا اور تیل کی قیمتیں بلند ترین سطح پر تھیں۔نااہلی کی وجہ سے ہم سستی ترین گیس نہ خرید سکے جس کی وجہ سے مشکلات درپیش ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے اپنے خطاب میں جہاں تاریخ ساز مہنگائی کا ذکر کیا وہیں مہنگائی کی وجوہات اور اپنی حکومت کو معیشت کے حوالے سے درپیش مسائل پر بھی روشنی ڈالی لیکن دوسری طرف وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پاکستان تحریک انصاف کامعیشت پر جاری وائٹ پیپر مسترد کر تے ہوئے کہا ہے کہ معاشی استحکام کے راستے پر گامزن ہیں، پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا، ڈیفالٹ کی گردان اب بند ہونی چاہئے، مہنگائی کو روکنا حکومت کا اولین ایجنڈا ہے لیکن اس میں بتدریج کمی ہو گی ، آئی ایم ایف پروگرام مکمل کریں گے، سعودی عرب اسی ماہ مالی امداد فراہم کرے گا، چین سے بھی قرضہ موخر ہونے والا ہے ، 30؍ جون 2023ء تک ملک کو معاشی لحاظ سے بہتر سطح پر لے آئیں گے ، زرمبادلہ کےذخائر بھی بہتر پوزیشن پر ہوں گے ، ہم سرکاری اداروں کی نجکاری کریں گے ، موجودہ معاشی صورتحال اس حکومت کے 8ماہ کے اقدامات کا نتیجہ نہیں۔وزیراعظم پاکستان اور وفاقی وزیر خزانہ کے بعد ہم ذرائع ابلاغ کی ایک خبر کا ذکر بھی ضروری ہے۔ وفاقی حکومت نے معیشت کی بحالی کا منصوبہ تیار کر لیاہے اور جلد ہی قومی اسمبلی سے منی بجٹ منظور کرایا جائے گا۔وفاقی حکومت کی جانب سے معیشت کی بحالی کے 10 سالہ جامع مجوزہ منصوبے کے مطابق ٹارگٹڈسبسڈی صرف کم آمدن طبقے کو دی جائے گی، پٹرولیم مصنوعات اور گیس پر پٹرولیم لیوی 70 سے 100 روپے فی لیٹر کرنے، دکانداروں اور تاجروں پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔صوبوں کو منتقل کیے جانے والے فنڈز گیس اور بجلی کے شعبے میں لائن لاسز سے منسلک کر دیے جائیں گے۔ پس ثابت ہوا کہ ارباب اختیار کو تاریخ کی بلند ترین سطح کی مہنگائی کا احساس ہے، وزیرخزانہ سمجھتے ہیں کہ جون تک حالات بہتری کی طرف جائیں گے اور ذرائع ابلاغ سے پتا چلتا ہے کہ ایک منی بجٹ آنے کو تیار ہے جس میں پٹرولیم اور گیس مصنوعات پر ستر سے سو روپے فی لیٹر لیوی نافذ کی جائے گی جو بلاشبہ آئی ایم ایف
کا مطالبہ ہے ، مگر وفاقی حکومت مستحق پاکستانیوں کو ٹارگٹڈ سبسڈی بھی دے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف معاشی ایمرجنسی کی باتیں ہی کافی نہیں ہیں بلکہ معیشت جس نہج پر پہنچ چکی ہے اب ہمہ وقت سیاسی قائدین اور ماہرین کی ترجیح معاشی اصلاحات اور ان پر من و عن فوری عمل ہی ہونا چاہیے، مگر کیا سیاسی جماعتوں کے بیانیے اور سیاسی دائو پیچ معاشی مسائل کی سنجیدگی ظاہر کرتے ہیں اور کیا چند مہینے میں ملک میں معاشی انقلاب آجائے گا؟ ہماری رائے میں دہشت گردی کی طرح معیشت کو بھی سنگین مسئلے کے طور پر لینا چاہیے اور سبھی سٹیک ہولڈرز اور سیاسی قوتوں کو اِس امر پر متحد ہونا چاہیے کہ ہم نے وطن عزیز کو معاشی بحران سے باہر نکالنا ہے اور آئندہ ایسے تمام اقدامات سے گریزکرنا ہے جن سے ملک میں معاشی عدم استحکام جنم لے خصوصاً سیاسی بے یقینی کا خاتمہ۔ دیکھا جائے تو وطن عزیز کے عوام ہمیشہ سے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے سے متاثر رہے ہیں اور یہی سہانے خواب ہمیشہ انہیں اقتدار میں لانے کی وجہ بنتے ہیں مگر اقتدار میں آنے کے بعد ہر حکمران کے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں کیونکہ قومی خزانے کی زبوں حالی ،قرضوں کا بوجھ اور عالمی کساد بازار ہر وعدہ پورا کرنے میں رکاوٹ نظر آتے ہیں۔ معیشت کے حوالے سے ہم کوئی بھی شے اٹھالیں ہر چیز اپنی جگہ سے ہل چکی ہے۔ بجلی ، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں، پہلے عوام کو ان تینوں مدات میں کچھ سبسڈی دے کر ریلیف دیا جارہا تھا لیکن پھر آئی ایم ایف کے حکم پر وہ ریلیف واپس لے لیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب کرونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں معاشی سرگرمیوں کا طور طریقہ بدل چکا تھا اور ان حالات نے ثابت کیا تھا کہ اقوام کے خلاف لشکر کشی کرنے کی بجائے کساد بازاری کے ذریعے انہیں اپنا محکوم کیاجاسکتا ہے، لہٰذا اِس کے لیے ہر حربہ انتہائی دانش مندی کے ساتھ اپنایاجارہا ہے۔ کرونا وائرس آیا اور پھر چلاگیا اس کے بعد روس اور یوکرین کی جنگ کو بنیاد بناکر کساد بازاری شروع کی گئی اور انتہائی بدقسمتی کہ ہم اور ہمارے جیسے کمزور ممالک جو باہمی سیاسی جھگڑوں کو ہی ملک و قوم کی خدمت سمجھتے ہیں ، یہاں کی قیادت اُن بحرانوں سے نمٹنے کے صلاحیت سے نہ صرف عاری ہے بلکہ ان کے ہاتھ ، بس میں بھی کچھ نظر نہیں آتا لہٰذا عالمی سطح پر ہونے والی ہر تبدیلی کا سامنا ان کمزور معاشی ممالک کی عوام کو براہ راست کرنا پڑتا ہے اور اگر کہیں حکومت نے سبسڈی کی شکل میں عوام کو ریلیف دیا بھی تو وہ عالمی مالیاتی اداروں کے احکامات کی روشنی میںمجبوراً واپس لینا پڑ گیا اور ایسا ہی پاکستانی عوام سے ہوا ہے جو ہر بار انتخابات میں مہنگائی ختم کرنے کے سب سے بڑے دعویدار کو ووٹ کے ذریعے اقتدار دلاتے ہیں۔ موجودہ اتحادی حکومت کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ اِس نے عمران خان کے دور حکومت میں مہنگائی کے خلاف آواز بلند کی اور قریباً پونے چار سال عوام کو یقین دلایا کہ بے حد مہنگائی ہے مگر جب خود اقتدار میں آئے تو آج معاشی حالات ایسے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان خود کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی اپنے عروج پر ہے، تو وہ درست فرما رہے ہیں کیونکہ اب مہنگائی سابقہ حکومت کے دور سے بھی کہیں زیادہ ہوچکی ہے، اگرچہ موجودہ مہنگائی کو سابقہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیاجارہا ہے لیکن کیا اتنا کہنے سے مہنگائی کے زخموں سے چور عوام کے زخموں پر مرہم رکھا جاسکتا ہے، ہماری رائے میں صرف اعتراف ہی کافی نہیں بلکہ حکومت کو عملی اقدامات کے ذریعے مہنگائی کو سابقہ حکومت کے دور کی مہنگائی سے کم کی سطح پرلانا چاہیے۔ معیشت کو لاحق وہ تمام خطرات بھی دورکرنے چاہئیں جو عوامی اجتماعات میں کھول کھول کر بیان کیے جاتے تھے۔ موجودہ حالات میں کئی اطراف سے مہنگائی کا شکنجہ کسا جارہا ہے۔ مثلاً سابقہ حکومت کے دور میں کرونا وائرس کی وجہ سے عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں واضح طور پر ردوبدل دیکھاگیا اور ہم بھی اس تبدیلی کے اثرات کی زد میں آئے۔ موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو آئی ایم ایف کے حکم پر پٹرول، بجلی اورگیس کی قیمتیں بڑھانا پڑیں، اتحادی حکومت کے اِنہی اقدامات کے نتیجے میں مہنگائی کا ایسا طوفان آیا جو ابھی تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور اِس نے ہر شعبہ ہائے زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے ، بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے، غربت سے پریشان پاکستانی مزید غربت کا شکار ہوئے ہیں اور انہی حالات کا فائدہ گراں فروشوں نے خوب اٹھایا اور ہر چیز کئی گنا مہنگی صرف اسی بنیاد پر کردی گئی، چونکہ مقامی اور صوبائی حکومتوں کی عملداری ہمیشہ سے کمزور رہی ہے لہٰذا مہنگائی کو عروج پر پہنچنے سے کون روک سکتا تھاپس مہنگائی آج عروج پر پہنچ چکی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اتحادی حکومت کے رہنما بارہا یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ انہوں نے معیشت کی خاطر اپنی سیاست دائو پر لگادی ہے، یعنی انہیں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے فیصلوں کے عام پاکستانیوں پر معاشی لحاظ سے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ان کے ووٹرز بھی اس کی لپیٹ میں آئے ہیں لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ اتحادی حکومت کے رہنمائوں کو عام انتخابات سے قبل ان تمام وعدوں کو وفا کرنا ہوگا جو سابق حکومت کے دور میں مہنگائی ختم اور معیشت بہتر کرنے کے حوالے سے تھا وگرنہ تاریخ ساز مہنگائی کا اعتراف رابطہ عوام مہم میں کام نہ آئے گا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button