ColumnNasir Naqvi

وقت کسی کی جاگیر نہیں! .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

زندگی کی ایک بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ وقت کسی کا نہیں ہوتا، اس کے ساتھ جو بھی قدم ملا کر حالات و و اقعات سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر چلتا ہے وہی مقدر کا سکندر کہلاتا ہے ورنہ کوتاہی اور نااہلی میں اس کی ’’دولتی‘‘ گدھے گھوڑے سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ ان جانوروں سے گرنے والوں کا علاج ممکن ہے، وقت کے گرائے لوگوں کا اٹھنا محال ہی نہیں، اکثر ناممکن ہو جاتا ہے۔ حضرت انسان چونکہ مالک کائنات کی طرف سے اشرف المخلوقات کی سند رکھتے ہیں اس لیے ان کے پائوں زمین پر نہیں ٹکتے، طاقت ور اور دولت مند یہی جانتے ہیں کہ جو وہ ہیں وہ کوئی اور نہیں، عقل سلیم کے تحفے کے باوجود انہیں یہ یاد نہیں رہتا کہ مدمقابل بھی اشرف المخلوقات ہی ہے تمہیں اگر مالک نے عزت و دولت دے ہی دی ہے تو آدم زادے ہوتے ہوئے جانوروں کی ہم سری نہ کرو ورنہ تم کون سے سوشل اینمل ہو؟ سب یہ بھی معلومات رکھتے ہیں کہ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا اور وقت سے بڑا دوسرا کوئی ظالم نہیں، زندگی کی مشکلات اور اتار چڑھائو میں اس راز سے بھی واقف ہیں کہ آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا ۔ پھر بھی جس کو قدرت نے طاقت، دولت اور حکمرانی عطا کر دی وہ سمجھتا ہے کہ وقت ان کا ہے ’’لگامیں‘‘ کھینچ کر من مرضی کر لیں کوئی ان کا بھلا کیا بگاڑ سکتا ہے پھر دنیا یہ بھی دیکھتی ہے کہ سب جاہ و جلال خاک میں مل جاتا ہے۔ شان و شوکت ماضی کی غلطی ہو گئی، بھگت بھی لی لیکن برسوں بیت گئے بات بن نہیں رہی، وہ یہ بات سوچنے کو تیار نہیں کہ اس نے قدرت کا خوبصورت چانس کیوں ضائع کیا؟ اپنا احتساب بھی نہیں کرتا کہ اچھے دنوں میں اس نے کیا نہیں کیا؟ ہاں یہ دعویٰ ضرور کرتا ہے کہ اسے ایک مرتبہ پھر چانس مل جائے تو دوبارہ ویسا نہیں کرے گا جو کچھ کر بیٹھا ہے پھر بھی راز کو عیاں نہیں ہونے دیتا کہ لوگ کیا کہیں گے؟ مالک کائنات یقیناً ایسے میں مسکراتا ہو گاکہ ’’اے کلمہ گو!تیرا ایمان ہے کہ اللہ
دیکھ رہا ہے پھر بھی اس قدر رعونت؟لیکن اسے صرف دنیا کی پڑی ہے کیونکہ وہ علم رکھتا ہے کہ اللہ ستر مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے اس کی معافی کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے،اسی لیے وہ گئے دنوں کا سراغ لگانے کو تیار نہیں، جسے طاقت، دولت اور اقتدار مل جائے وہ اپنی بشری فطرت کے تابع ہو کر آپے سے باہر ضرور ہوتا ہے حالانکہ ہر کسی کا انجام مٹی میں مٹی ہی ہونا ہے اس لیے کہ حقیقت تو یہی ہے کہہ’’مٹی کا پتلا‘‘ ہے ، زمین و آسمان کے مالک نے کسی کو کسی ادا پر نواز دیا تو وہ پوری دنیا کو اپنے سے کم تر سمجھتا ہے اس موضوع بحث کو دنیاوی طور پر جتنی بڑھائیں گے بڑھتی جائے گی، ہاں اگر نتیجے پر پہنچنا مقصود ہو تو اسے دین حق اسلام اور نسخہ کیمیا قرآن مجید کی روشنی میں مرشد کامل آقائے دوجہاں کی تعلیمات کے ذریعے پرکھیں سب کچھ سامنے آ جائے گا کہ ’’وقت کسی کی جاگیر نہیں‘‘۔ سورج اور چاند کا مقررہ وقت پر ابھر کر ڈوب جانا اس بات کی دلیل ہے وقت ہمیں ایک انجانے شیڈول میں عطا کیا جاتا ہے جس کا اختتام بھی ہم نہیں جانتے، اصل مالک وہی ہے جس نے زمین و آسمان تخلیق کیا اور اس میں سے جتنا چاہا ہمیں دے دیا، وہ جانتا تھا کہ اگر اس نے اس وقت کو کسی خاص پیمانے میں محدود کر دیا تو آدم زادے وہی فساد برپا کریں گے جن کا فرشتوں کی زبانی اسے مالک کل کو بتایا گیا تھا جیسے وہ جانتا نہیں؟
اب اسے دنیاوی طور پر پرکھنے کی کوشش کریں، ماضی میں فرنگیوں نے مسلمانوں کی ابتری اور غلطیوں سے دنیا فتح کی، اودھم مچا کر انسانوں کو انسانوں کا غلام بنایا گیا، جہاں جہاں حضرت انسان کا شعور بیدار ہوا وہاں وہاں آزادی کی شمع روشن ہوگئی، دنیا کا نقشہ ہی یکسر بدل گیا، مختلف نظام رائج کئے گئے، طاقت اور دولت میں جائز ناجائز انداز میں اضافہ کیا گیا پھر سب نے دیکھا امریکہ اور روس، دنیا کے چودھری بن گئے۔دونو ں نے حالات و واقعات، تجربات اور مشاہدات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اپنے حواری اکٹھے کر لیے لیکن سب کے سب مشترکہ مفادات کی بنیاد پر تھے، ماضی میں جھانکیں تو یورپی ممالک بھی برطانوی غلامی سے آزادی حاصل کرتے دکھائی دیں گے۔ ایرانی تاریخ صدیوں پر محیط ہے وہاں کی بادشاہت بھی اپنے منفرد انداز میں امریکہ بہادر کی سرپرستی میں دنیا کی اہم ترین تھی لیکن ایک مرد مسلماں کی تحریک نے انقلاب کی راہ نکال کر بادشاہت کا تخت و تاج قوم کی ٹھوکر سے ایسے اڑا دیا کہ مغلیہ بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی طرح شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی اور اس کے خاندان کو ’’دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے چار میں‘‘۔
امریکہ بہادر منہ تکتے رہ گئے ۔ پھر بھی امریکہ بہادر اپنے معاملات کی بہتری اور نمبرداری کیلئے سرگرم رہے۔ انہیں روس آنکھوں میں کھٹکتا تھا۔ بڑے ہاتھ پائوں مارے پاکستانی آمر جنرل محمد ایوب خان کے دروازے پر دستک دے کر ترقی و خوشحالی کے خواب دکھائے، وہ پہلے بھی پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کا دورہ روس ختم کرا کے ہمدردی لے چکا تھا لیکن صدر ایوب خاں اپنے دس سالہ سنہری دور کا جشن منانے کے بعد اپنے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی تحریک پر ہمت ہار کر نئے آمر جنرل محمد یحییٰ خان کو اقتدار دے کر چلتے بنے۔انہیں بطور سپہ سالار پاکستان سے دلچسپی تھی لیکن سیاست سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا اس لیے کہ الزام یہی ہے کہ ان کے مشغلے’’شراب اور شباب‘‘ تھے لہٰذا ملکی تاریخ کے پہلے غیر جانبدارانہ انتخاب عمل میں آئے۔ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ دونوں حصوں میں عوامی فلاحی کارڈ کھیلے گئے،یحییٰ خان نے ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا، بھٹو صاحب نے وہاں جانے سے انکار کر دیا۔ ازلی دشمن بھارت نے بین الاقوامی سازش میں اپنی سہولت کاری سے ایسا رنگ بھرا کہ مکتی باہنی نے گوریلا جنگ شروع کر دی۔ بنیاد صدر ایوب خان کے دورِ حکومت کے چند فیصلوں کو بنایا گیا اور پھر حالات کا جائزہ لیتے ہوئے سینئر صحافی عباس اطہر نے ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ کی شہ سرخی چھاپ دی اور پھر وہ منحوس گھڑی دیکھنے کو ملی کہ سقوط ڈھاکہ ہو گیا۔ بھائی سے بھائی جدا ہو گئے۔ وقت نے کروٹ لی تو صدر یحییٰ خان اسلامی کانفرنس رباط میں نہ صرف پاکستان کی نمائندگی کرنے گئے بلکہ وہاں آئندہ اسلامی کانفرنس لاہور کا وعدہ بھی کر آئے جو ذوالفقار علی بھٹو نے انتہائی ذمہ داری سے نبھایا، اس کامیاب کانفرنس میں مسلم امہ نے بھٹو صاحب کے ہاتھ مضبوط کئے۔ بنگلہ دیش تسلیم کیا گیا اور شیخ مجیب الرحمن کو خصوصی طور پر اسلامی رہنمائوں کے ہمراہ لاہور لایا گیا پھر کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ نے دنیا میں کہرام مچا دیا کہ مسلمان بھٹو صاحب کی قیادت میں تیسری دنیا ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے لہٰذا مسلم اُمہ مستقبل میں دنیا کیلئے تھریٹ بن سکتی ہے حالانکہ بھٹو صاحب سوشلزم کارڈ پر کامیاب ہوئے تھے ان کا خیال تھا کہ وقت ان کے ساتھ ہے لیکن سی آئی اے نے ثابت کر دیا کہ وقت کسی کی جاگیر نہیں، سازش ہوئی، پہلے ایک منصوبہ بندی کے تحت الیکشن دھاندلی کے نام پر آمریت لائی گئی، پھر جنرل ضیاء الحق نے اسلامی ممالک کے سربراہوں کی سفارش کے باوجود بھٹو صاحب کو پھانسی کا پھندا پہنا دیا، پھر امریکہ سے جنرل صاحب کے رازونیاز بڑھے تو جہاد افغانستان میں روس بکھر گیا ہم آج بھی لڑنے مرنے اور مالی بھاری نقصان کے باوجود دہشت گردی سے جان نہیں چھڑا سکے، ضیاء الحق بھی وقت کو جاگیر سمجھ بیٹھے تھے۔ آخر سی آئی اے نے ہی ان کا پٹاخہ بجا دیا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو وقت نے حکمرانی دی لیکن غلطی کی پکڑ یا سازش کامیاب ہو گئی، نواز شریف وطن سے دور اور بے نظیر شہید وطن کی مٹی میں مٹی ہو گئیں، وقت نے سلیکٹرز کو مخبری کی کہ اگر عمران خان کو چانس دیا جائے تو بات مختلف ہو سکتی ہے اقتدار ملا تو انہوں نے بھی سہانے وقت کو جاگیر سمجھ کر ایسی من مانیاں کیں کہ اپنے دس سالوں کا حق سمجھنے والے ساڑھے تین سال میں فارغ ہو گئے، جنہیں چور ڈاکو اور کرپٹ کہا وہی حاکم بن گئے۔ وقت کسی کانہیں ہوتا، بلکہ جاگیریں بھی اسی دنیا میں دھری رہ جاتی ہیں، وقت کو جاگیر سمجھنے والے کیا بیچتے ہیں؟ 2022ء حشر سامانیاں کر کے 2023ء سے امید وابستہ کر کے رخصت ہو گیا پھر بھی وقت جب پورا ہوا ہے امتحانی مراکز کی طرح پرچہ ہی نہیں، دنیا میں طاقت، دولت، اقتدار، اختیارات سب کچھ چھن جاتا ہے۔ مرتے دم پر بہت سے ایسے لوگ دنیا میں جینا چاہتے ہیں زندگی کے شور میں بھی یاروں کی محفلوں کیلئے وقت مانگتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اس لمحۂ موجود میں جواب ملتا ہو گا وقت کسی کی جاگیر نہیں، اب منہ، کان، آنکھیں بند کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ بس اس کا حل ایک ہی ہے کہ دنیا کے مختصر سے قیام میں’’ جہاں ہیں جیسے ہیں ‘‘ کی بنیاد پر کسی دوسرے انسان کو ہنسی، خوشی اور وہ کچھ دے کر جائیں کہ کوئی روح، جسم، ایسا نہ ہو جو آپ کا دیا ہوا زخم ساتھ لے کر نہ جائے، کیونکہ اچھے بُرے وقت کا کسی کو پتہ نہیں اور وقت کسی کی جاگیر نہیں؟ آج وقت ہے تو کچھ قابل رشک کر گزریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button