ColumnRoshan Lal

گٹھ بندھنوں سے باہر کی دنیا .. روشن لعل

روشن لعل

 

پاکستان میںاکثر سیاست دان اس قسم کی طعنہ زنی کی زد میں رہتے ہیں کہ ان کا سیاسی مقام اسٹیبلشمنٹ کے خاص گملوں میں پرورش پانے کا مرہون منت ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ غیر سیاسی اداروں نے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے صرف گملوں میں چھپ چھپا کر ہی نہیں بلکہ بڑی بڑی نرسریوں میں کھل کھلا کر بھی ایسے لوگوں کی پرورش کی جواپنے کردار ، اخلاق اور شعور کے مطابق کسی طرح بھی سیاستدان بننے کے اہل نہیں تھے۔ غیر سیاسی ادارے یہ کرم فرمائی صرف سیاستدانوں پر ہی نہیں بلکہ اپنی ضرورت کے مطابق میڈیا سے وابستہ افراد پر بھی کرتے رہے۔سیاست اور صحافت کے شعبوں میں یہ کام کیونکہ ایک ساتھ کیا گیا اس لیے خاص گملوں میں تیار ہونے والے خاص سیاستدانوں اور صحافیوں کے درمیان نہ صرف خاص قسم کے تعلقات پیدا ہوئے بلکہ وہ ایک دوسرے کیلئے کارآمد بھی ثابت ہوتے رہے ۔ اب حالات اس طرح تبدیل ہو رہے ہیں کہ خاص نرسریوں میں خاص مقاصد کے تحت خاص فصل تیار کرنے کی نہ پہلے کی طرح ضرورت اور نہ ہی گنجائش باقی رہی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ تبدیل ہوتے ہوئے حالات میں بھی وہ لوگ کسی نہ کسی مفاد کے تحت ایک دوسرے کیلئے کارآمد ثابت ہورہے ہیںجنہیں سابقہ ادوار میں مختلف شعبوں میں خاص مقاصد کے تحت تیار کیا گیا تھا ۔ ویسے تو اس طرح کے لوگ کسی نہ کسی مفاد کے تحت یہ کام کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کا خاص مائنڈ سیٹ بھی ایک
دوسرے کیلئے معاونت اور سہولت کاری میں محرک کا کردار ادا کر جاتاہے سابقہ نرسریوں میں تیار ہونیوالے سیاست دان اور میڈیا پرسنز اپنے خاص مائنڈ سیٹ کی وجہ سے کس طرح گٹھ بندھن بنا کر ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں اس کی مثالیں اکثر ہمیں ارد گرد دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ اس طرح کے میڈیا پرسنز اور سیاستدانوں کے عارضی اور مستقل گٹھ بندھن اب ذی فہم لوگوں پر آشکار ہونا شروع ہو چکے ہیں ۔ گو کہ یہ گٹھ بندھن حسب سابق موثر نہیں رہے مگر اس کے باوجود ان سے پراپیگنڈہ مشینری کے طور پر کام لینے کی کوششیں اب بھی نظر آتی رہتی ہیں۔
پراپیگنڈہ مشینری کے طور پر کام کرنے والے گٹھ بندھن صرف سیاستدانوں اور میڈیا پرسنزپر ہی مشتمل نہیں ہوتے بلکہ ان میں عارضی یا مستقل بنیادوںپرایسے اداروں کے ملازم بھی شامل کر لیے جاتے ہیں جو گملوں اور نرسریوں میں خاص سیاستدان اور خاص میڈیا پرسن تیار کرنے کا کام کرتے تھے۔ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ گملوں اور نرسریوں کی آبیاری کا کام اب بھی جاری ہے یا بند ہو چکا ہے مگر ماضی میں اس طرح کے کام ہونے کے ٹھوس شواہد کی موجودگی میں اب کسی کیلئے ان کا انکار کرنا ممکن نہیں رہا۔ خیر ہمارا موضوع یہ نہیں کہ خاص گملوں اور نرسریوں میں اب بھی کسی کی پرورش ہو رہی یا نہیں ،اس وقت ہمارا موضوع یہ ہے کہ جو کام ہو چکا ، اس کے نتیجے میں بننے والے گٹھ بندھن اب بھی پہلے کی طرح قائم و دائم اور متحرک ہیں یا صورتحال تبدیل ہونا شروع ہو چکی ہے۔ اس حوالے سے مشاہدہ یہ ہے کہ بعض معاملات میں پہلے سے موجود گٹھ بندھن نہ صرف قائم ہیں بلکہ انہیں زیادہ مضبوط کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جبکہ کچھ معاملوں میں لوگوں نے نئے گٹھ جوڑ بنا لیے ہیں۔ نئے بننے والے گٹھ بندھنوں اور گٹھ جوڑوں میں سیاستدان اور میڈیا پرسنز کا تال میل تو حسب سابق ہے مگر اداروں کے ملازموں(خاص طور پر ریٹائرڈ) کی حالت بہت پتلی نظر آتی ہے۔ اصل میں اداروں کے ملازموں نے پہلے تو عہدوں کے بل پربادشاہ گر ہونے کے سبب اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے سیاستدانوں اور میڈیا پرسنز پر حکم چلایا لیکن جب انہوں نے ملازمت کے بعد بھی اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کی نوک پلک سنوارنے کی کوشش کی تو یہ بت ان پر پتھر بن کر
برس پڑے۔ اگر کسی کو حالیہ دنوں میں رونما ہونے والے واقعات کے سبب یہ لگ رہا ہے کہ ایسا صرف اب ہوا ہے تو وہ جان لے کہ اس قسم کے واقعات بہت پہلے رونما ہونا شروع ہو گئے تھے۔ آج سوچا یہی تھا کہ اپنی باتوں کی وضاحت کیلئے کوئی مثال پیش نہیں کی جائے گی مگر اب ضروری ہو گیا ہے کہ جو بات کی گئی ہے اس کے حوالے سے ایک مثال بھی پیش کر دی جائے۔ یہ مثال حامد سعید نام کے ایک ریٹائرڈ ملازم سے متعلق ہے جو 16 برس تک سندھ میں ایک خفیہ ادارے کے انچارج کے طور پر کام کرتے رہے۔ ان صاحب کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس وقت ایک میڈیا پرسن کے متعلق اپنا منہ کھولا جب ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس میڈیا پرسن نے انہیں پہچاننے سے صاف انکار کردیا۔ ریٹائرڈ ملازم حامد سعید صاحب کے سوشل میڈیا پر موجود ایک کلپ کے مطابق، مذکورہ میڈیا پرسن 1990کی دہائی میں7000 روپے ماہوار معاوضہ پر ان کیلئے مخبر کا کام کیاکرتا تھا۔اس مبینہ مخبر میڈیا پرسن کیلئے آج کل یہ خیال عام ہے کہ اب وہ اداروں کیلئے اتنا قابل اعتماد نہیں رہا کہ اس پر بھروسہ کرتے ہوئے وہ اسے ماضی کی طرح کوئی مستقل کام دیں۔ شاید عارضی طور پر اب بھی اس سے کام لے لیا جاتا ہو، مگر اس کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ وہ مبینہ مخبر میڈیا پرسن اب بیکار ہو گیا ہے ۔ یہ مبینہ مخبر میڈیا پرسن اپنے تجربے کی بنیاد پر اب بھی نئے بننے والے میڈیا ہائوسز کیلئے بہت کام کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ایک سیاسی جماعت کے ساتھ اس کے خاص گٹھ جوڑ کی وجہ سے اسے اس جماعت کی پراپیگنڈہ مشینری کا اہم کل پرزہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔
جس میڈیا پرسن کی شناخت اب ایک سیاسی جماعت کی پراپیگنڈہ مشینری کے کل پرزہ کی سی ہے اسے پرنٹ میڈیا کے عروج کے دور میں کئی جونیئر صحافی اپنا استادمانتے تھے ۔سابق سرکاری ملازم حامد سعید کے اس میڈیا پرسن سے متعلق کیے گئے انکشافات کے بعد اب کوئی اسے اپنا استاد کہنے کی جرأت نہیں کرتا۔ اس میڈیا پرسن کی موجودہ شناخت اور شہرت سیاستدانوں ، صحافیوں اور ریٹائرڈ و حاضر سروس ملازموں کے گٹھ بندھنوں میں کام کرنے والوں کیلئے بہت بڑا سبق ہونا چاہیے مگر عجیب بات ہے کہ ان گٹھ بندھنوں سے مفادات حاصل کرنے کی عادت میں مبتلا لوگ غیر معتبر کرداروں کی کھلی کتاب میں موجود اسباق سے کچھ بھی سیکھنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ پاکستان میں کسی کی کوششوں سے تو کچھ بہتر نہیں ہوا مگر ارتقائی عمل کے سبب جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان کی وجہ سے گٹھ بندھنوں میں رہ کر پراپیگنڈہ اور سازشیں کرنے والوں کیلئے مال و دولت سمیٹنا اور لوگوں کو آگاہی دینے کی بجائے گمراہ کر کے نام کمانے اور کامیاب ہونے کا امکان بہت کم ہو گیا ہے۔ ناقابل ستائش گٹھ بندھنوں میں رہ کر جو لوگ ماضی میں ملکی حالات کو آلودہ اور پراگندہ کرتے رہے اب انہیں چاہیے کہ گٹھ بندھنوں کی دنیا سے باہر نکل کر دیکھیں کہ حالات کس رخ میں تبدیل ہو رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button