ColumnImtiaz Aasi

امارت اسلامی کابھائی چارہ ۔۔ امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

ایک حدیث ہے نبی آخر الزمان ﷺنے دو مسلمانوں کو ہاتھوں کی دو انگلیوںکی طرح جڑا ہوا بھائی قرار دیا ہے۔احادیث نبویﷺ کی روشنی میں مسلمان ملکوں کاایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارہ اورتعلقات مثالی ہونے چاہیںجیسا کہ ہم عام زندگی میں اپنے حقیقی بھائیوںکی خوشی اور غمی میںان کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں ۔پاکستان اور افغانستان ثقافتی اعتبار سے ایک دوسرے سے علیحدہ ہو سکتے ہیں لیکن مذہبی لحاظ سے ہم ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔سوویت یونین کی افغانستا ن میں جارحیت کے نتیجہ میں پاکستان اورافغانستان دونوں کو مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا،اس جنگ کے نتیجہ میں دہشت گردی کی لہر نے وطن عزیز اور اس کے باسیوں کو بہت زیادہ متاثر کیا۔افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی اور طالبان کی امارات اسلامی کے قیام سے ہمیں اس بات کی توقع تھی کم از کم ہم دہشت گردی سے محفوظ ہو جائیں گے۔ بدقسمتی سے ہمارا ملک اس وقت ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی لپیٹ میںہے۔خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات وقتاً وفوقتاً ہوا کرتے تھے ۔ٹی ٹی پی سے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد دہشت گردی کاسلسلہ رک گیا تھا۔ٹی ٹی پی کے مطالبات کو پذیرائی نہ ملنے سے دہشت گردی میں تیزی آگئی ہے افغانستان سے دہشت گردوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری ہے جو دہشت گرد پکڑے جائیں ان کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں۔جنرل پرویز مشرف کے دورمیں دہشت گردوں کو پھانسی دی گئی لیکن دہشت گردوں کو پھانسی دینے کا سلسلہ کئی سالوں سے رکا ہوا ہے ۔امارات اسلامی کے وزیر خارجہ کے بقول پاکستان اور افغانستان مسلمان ملک ہیں اور یہاں کے رہنے والے ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ ہوا تو پاکستان نے سفارت خانے کی سکیورٹی میں اضافہ کرنے کی درخواست کی جو طالبان حکومت نے مستر د کردی۔ ڈیورنڈ لائن انگریز سرکار نے قیام پاکستان سے پہلے مقرر کی تھی پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے افغانستان کی حکومت نے اس پر اعتراض نہیں کیا ۔مملکت پاکستان وجود میں آئی تو افغانستان کو ڈیورنڈ لائن کی حیثیت پر اعتراض ہو گیا۔دنیا جانتی ہے طالبان اور تحریک طالبان نے ملک کر امریکی فوجوں
کا مقابلہ کیا اور انہیں ملک واپسی پر مجبور کیاجو اس امر کا غماز ہے افغان طالبان اور تحریک طالبان ایک ہی تھیلی کی چٹے بٹے ہیں۔ افغان جنگ سے اب تک غیرقانونی افغانیوں کی ہمارے ہاں آمدورفت جاری ہے۔حکومت پاکستان نے عسکری قیادت کے تعاون سے سرحد پر باڑ لگائی تو باڑ اکھاڑنے کا سلسلہ شروع ہو گیاجس کے بعد دہشت گردی کے ساتھ غیر قانونی افغانوں کی یلغار شروع ہو گئی ۔افغانوں نے تو حد کردی جب چاہا سرحد پار کرکے یہاں پہنچ گئے اور جب جی چاہا دہشت گردی کرکے واپس چلے گئے۔آخر کب تک حکومت پاکستان اور اداروں کو اس بارے کوئی حتمی فیصلہ کرناپڑئے گا۔چالیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کی آمد نے ہمیں معاشی لحاظ سے کہیں کانہ چھوڑا، اس وقت لاکھوں افغان بغیر کسی دستیاویز کے قیام پذیر ہیں وزارت داخلہ کو اس طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔محض اخباری شتہارات دینے سے بات نہیں بنے گی بلکہ غیرقانونی افغانوں کو پکڑ کرجیلوں میںڈالنے کے بعد انہیں ان کے ملک میں واپس بھیجا جائے۔ امریکی فوج کی واپسی کے باوجود افغانستان میں مختلف گروپ آپس میں دست وگریباں ہیں۔امارات اسلامی کے وزیر خارجہ کے بقول دونوں ملک مسلمان اور بھائی ہیں بلوچستان کے باغیوں اور سابقہ فاٹا کے مطلوب لوگوںکو پناہ دنیاکس شریعت کا حصہ ہے؟پڑوسی ملک ایران میں کئی لاکھ افغان پناہ گزیں کیمپوں میں رہ رہے ہیں جب کہ پاکستان میں انہیں آزادانہ نقل وحرکت کے ساتھ کاروبار کی اجازت ہے ۔افغانستان کی حکومت ہمارے چند سفارت کاروں کی سکیورٹی میں اضافہ کرنے کو بوجھ سمجھ رہی ہے تو کئی لاکھ افغان مہاجرین ہم پر بوجھ نہیں ہیں؟پاکستان کی مختلف جیلوں میں قتل اور ڈکیتی کے علاوہ دہشت گردی میں ملوث افغانوں کی خاصی تعداد کی موجودگی اس بات کابین ثبوت ہے افغان پناہ گزینوں کی آمد سے مملکت خدا داد میں جرائم میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔اب جب کہ افغانستان میں پہلے کی نسبت بہت حد تک امن قائم ہو گیا ہے امارات اسلامی کو اپنے ہم وطنوں کی واپسی کو پہلی ترجیح دینی چاہیے نہ کہ ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ کھڑا کرکے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو کشیدہ بنانا چاہیے،پاکستان نے اسلامی بھائی چارے کی روشنی میں لاکھوں افغانوں کا کئی عشروں سے بوجھ اٹھایا ہوا ہے تو امارات اسلامی کو ڈیورنڈ لائن کے معاملے کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے نہ کہ اس مسئلے کو از سر نو کھڑا کرنا چاہیے۔سابق وزیراعظم عمران خان کا بیان پڑھ کر حیرت ہوئی وہ اپنے دور میں پانچ سے دس ہزار جنگجوں اور چالیس ہزار مزید افغانوں کی آبادی کاری چاہتے تھے لیکن عسکری قیادت اس بات سے متفق نہیں تھی۔ہمارا عمران خان سے سوال ہے کیا پاکستان میں پہلے سے قیام پذیر افغان مہاجرین کم ہیں جو وہ اپنے دورمیں مزید ٹھہرانے کے خواہش مند تھے، ٹھیک ہے افغانستان میںامارات اسلامی کی حکومت کے باوجود بہت سے گروپس آپس میں دست وگریباں ہیں جنہیںمختلف ملکوں کی آشیرباد حاصل ہے جس سے حالات طالبان حکومت کے پوری طرح کنٹرول میں نہیں۔ تازہ ترین حالات میں تحریک طالبان کے مطالبات کسی صورت حکومت پاکستان کو قبول نہیں، دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی روابط جاری ہیں، اگرامارات اسلامی کو واقعی اس بات کا خیال ہے پاکستان اور افغانستان دونوںمسلمان ملک ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اسلامی بھائی چارے کا عملی مظاہرہ کرکے بھی دکھانا ہوگا۔امارات اسلامی کی حکومت پاکستان سے برادرانہ تعلقات میں سنجیدہ ہے تو اسے ٹی پی پی کے لوگوں کو ہمارے ہاں دہشت گردی کی کاروائیوں سے روکنا ہوگا ورنہ انہیں اپنے ملک سے نکال تو سکتے ہیں جو دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔امریکہ تو چلا گیا مسلمان آپس میں دست وگریباں ہیں۔اسلام دشمن قوتوں کا یہی کامیابی کا کھیل ہے جس میں وہ ابھی تک کامیاب ہیں۔آخر ہمارا ملک کب تک دہشت گردی کا متحمل ہو گا لہذا موجودہ صورت حال میں پاکستان کو امارات اسلامی سے تعلقات کا از سرنو جائزہ لینا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button