Ali HassanColumn

ٹیکنوکریٹ حکومت ؟ ۔۔ علی حسن

علی حسن

 

پاکستان میں ایک حلقے کا مطالبہ ہے کہ انتخابات کرائے جائیں بلکہ فوری کرا ئے جائیں۔ حکومت میں موجود سیاسی جماعتوں کی کوشش ہے کہ انتخابات موجودہ قومی اسمبلی کی مدت مکمل ہونے کے بعد ہی کرائے جائیں۔ بعض عناصر نے بیچ کے راستہ کا انتخاب کیا ہے کہ ٹیکنو کریٹ کی حکومت قائم کی جائے۔ تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان کا بھی کہنا ہے کہ انہیں ابھی الیکشن ہوتے نظر نہیں آرہے۔ حکومت سے زیادہ پیچھے بیٹھے لوگوں کا الیکشن کیلئے راضی ہونا ضروری ہے۔ ٹیکنوکریٹ حکومت لانے کا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے۔ انتخابات فوری کرانے کا مطالبہ کرنے والوں کو یہ تو غور کرنا ہوگا کہ انتخابات کا انعقاد کرانے کیلئے اب تو بائیس ارب روپے سے بہت زیادہ خرچہ آئے گا۔ 2018 میں ہونے والے انتخابات میں 22 ارب روپے خرچ ہوئے تھے۔ لا محالہ 2023 میں بہت زیادہ ہی خرچہ ہوگا۔ اس وقت بڑا سوال یہ ہے کہ یہ رقم کہاں سے آئے گی؟ اس صورت میں جہاں حکومت معاشی میدان میں ہنگامی حالات کا نفاذ کرنے کی مختلف تدابیر پر غور کررہی ہے، کہاں سے انتخابات کے انعقاد کیلئے اتنی بڑی رقم کا بندوبست کیا جاسکے گا۔ اس مر حلے پر تو آئی ایم ایف بھی اُدھار پر مزید رقم دینے پر مذاکرات پرمذاکرات کر رہا ہے۔ اسٹیٹ بنک ماضی کی طرح کسی ضمانت کے بغیر رقم چھاپ نہیں سکتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ حکومتوں نے ملک کی معاشی استحکام کیلئے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ ملک میں بجلی کی فراہمی اور ترسیل کو کوئی انتظام ہی نہیں کیا گیا۔ معیشت گرتی چلی گئی لیکن اسے سہارا دینے کے اقدامات نہیں کئے گئے۔ میثاق جمہوریت کی طرح میثاق معیشت کی تجاویز بھی سامنے آتی رہیں لیکن فریقین کے درمیان اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ بقول عمران خان کہ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے مفادات بیرون ملک ہیں، پاکستان میں نہیں۔ ملک لوٹنے والوں سے میثاق معیشت کیسے کریں۔ جب ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ہی ملک کے بنیادی معاملات پر ہی متفق نہ ہوں تو پھر نتیجے سے تو سب ہی کو واقف ہونا چاہیے۔
ہر طرف شور ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے کنارے پر کھڑا ہے، اگر ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو سارے کا سارا ڈھانچہ ہی ہل کر رہ جائے گا۔ سینکڑوں صنعتی ادارے صرف اس لیے بند ہو چکے ہیں کہ انہیں ایل سی کھولنے کی سہولت ہی حاصل نہیں۔ بندر گاہ پر سامان سے لدے پانی کے جہاز کھڑے ہوئے ہیں، ادا ئیگیوں کا سری لنکا کی طرح کوئی انتظام ہی نہیں۔ اس صورتحال سے وہ عوام ہی متاثر ہوں گے جن کے پاس کھانے کیلئے دوسرے وقت کی روٹی ہی نہیں ہوتی۔ رہ گئے دولت مند افراد یا طبقہ، پیسے والے لوگ، ان کے تو کانوں پر جوں ہی نہیں رینگتی۔ انہیں ہما شما کی فکر کبھی نہیں رہتی۔ المیہ تو یہ ہے کہ انہیں تو اس بات سے بھی سرو کار نہیں ہے۔ دولت ان کے گھروں کی لونڈی ہے، انہوں نے اپنی دولت کے بل بوتے دنیا کے مختلف ممالک کی شہریت حاصل کی ہوئی ہے اور وہ تمام کے تمام اس بات سے بے فکر ہیں کہ ملک دیوالیہ ہوتا ہے یا نہیں۔ ان کے مفادات ان ممالک سے وابستہ ہیں جہاں جہاں کی انہوں نے شہریت حاصل کر لی ہے۔ ان کی وفاداریاں بھی ان کے ’’ نئے ملک‘‘ کے ساتھ ہیں۔جب بااثر خاندانوں کی وفاداریاں ہی پاکستان کے ساتھ مشکوک ہوں تو پھر انہیں پاکستان کے مستقبل سے کیا سروکار۔
کہنے کو تو ٹیکنو کریٹ حضرات کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان میں سے بہت سارے افراد کی دہری شہریت ہیں لیکن بضرورت مجبوری ان ہی پر گزاراکرنا پڑے گا۔ اس ملک میں تو پاکستان کی شہریت نہ رکھنے والے لوگ بھی وزیر اعظم بنا دیئے گئے۔ معین الدین قریشی امریکہ کی شہریت رکھتے تھے۔ شوکت عزیز کے پاس تو پاکستان شناختی کارڈ بھی نہیں تھا۔ پاکستان میں ان کا کوئی پتا ہی نہیں تھا۔ بہر حال ٹیکنو کریٹ حضرات پر مشتمل حکومت کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ اپنی مہارت اور خصوصی مہارت کے سبب اس ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا سکتے ہیں اور تباہ ہونے سے بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اس مرحلے پر یہ خام خیالی سے زیادہ کچھ اور نہیں۔
عبدالحفیظ شیخ بھی تو ٹیکنو کریٹ تھے، انہوں نے تو کوئی کرتب نہیں دکھائے۔ شوکت ترین بھی تو ٹیکو کریٹ تھے، انہوں نے پاکستان کی معیشت کو کون سا سہارا دیا۔ ایک عام سی شکایت اس ملک میں ماہرین یہ کرتے نظر آتے ہیں کہ حکومت کو جو تجاویز دی جاتی ہیں ان پر عمل کرنے کو کوئی تیار ہی نہیں ہوتا۔ شبر زیدی کی خدمات ایف بی آر کو دی گئی تھیں۔ وہ روتے رہے کہ ان کی تجاویز پر عمل ہی نہیں کیا جاتا۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے تو واضح الفاظ میں شکایات کیں کہ انہوں نے انتظامی اصلاحات کیلئے جو تجاویز دی تھیں ان پر عمل ہی نہیں کیا گیا۔ اگر صورتحال یہی ہے تو پھر ٹیکنو کریٹ کیوں کر کامیاب ہوں گے۔ اخراجات کے معاملہ میں ٹیکنو کریٹ بھی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ عبدالحفیظ شیخ اور شوکت ترین اسلام آباد کے سیرینا ہوٹل میں رہائش رکھتے تھے۔ یہ مہنگا ترین ہوٹل قرار دیا جاتا ہے۔
اگر موجودہ صورتحال میں اخراجات کے معاملہ میں ٹیکنو کریٹ حضرات کی فراخ دلی کا مظاہرہ کرنے والے ٹیکنو کریٹ حضرات پر مشتمل حکومت بنوائی گئی تو ان کی ناکامی کو کون رو ئے گا۔ یقیناً اس ملک کے وسائل سے محروم غریب لوگ ہی رو ئیں گے۔ اصل مسئلہ تو اس ہی طبقہ کا ہے جو ملکی معاملات سے لا تعلق ہو گیا ہے۔ ان کی یہ لا تعلقی ملک کے مستقبل کیلئے کسی طرح بھی فائدہ مند نہیں ہو سکتی۔ حکمران طبقہ نے ملک کو مختلف قسم کے مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ ہر ایک ترجیحات اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ہیں۔ تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری بھی اپنی جگہ مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ سپیکر صاحب حکومت بچانے کی مہم میں سرگرم ہیں۔ انہیں استعفوں کی اجتماعی منظوری قبول نہیں۔ وہ قانونی پے چیدگیوں کا شکار ہیں،پاکستان کے پڑوسی ممالک ایران اور افغانستان سے بہترین دوستانہ تعلقات رکھنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں دہشت گردی کی تازہ لہر میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button