ColumnJabaar Ch

ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ ۔۔ جبار چوہدری

جبار چودھری

 

پاکستان میں دومغالطے ایسے ہیں جن کو کسی بھی وقت بیچاجاسکتا ہے اورجب بھی ان دو مغالطوں کی گونج سنائی دیتی ہے لوگوں کے کانوں میں چاشنی سی ڈلنے لگتی ہے اور ہر کوئی اس افواہ کو فوری خریدلیتا ہے۔ یہ دو مغالطے ،صدارتی نظام اور ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ ہیں،ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے مسائل کا حل صدارتی نظام کا انتظار کررہا ہے ۔بس ادھر صدارتی نظام آیا ادھر سارے مسائل سرپر پاؤں رکھ کر دوڑ جائیں گے،ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں، غربت ختم ،پاکستان جی سیون کا ممبر،ایشیاکا ٹائیگر، ہمارے شہرنیویارک ،پیرس اورلندن کی مانند۔اس رومانس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ کہ ہم ذہنی طوپر شخصیت پرست اورآمریت کے سایوں میں پلنے بڑھنے والے لوگ ہیں،ہمیں طاقتور لوگ ہمیشہ سے پسند رہے ہیں،اس لیے لگتا ہے کہ صدارتی نظام میں جو بھی صدر ہوگا وہ انتہائی مضبوط، بلاشرکت غیرے حکمران ہوگا۔اپنی مرضی کے بندے ،ٹیکنوکریٹ اورماہرین پر مشتمل کابینہ بنائے گا جس طرح امریکی صدرکابینہ بناتا ہے اور پھر ہم اس کابینہ کے سرپر پاکستان ہی نہیں دنیا پرحکومت کرنے نکل کھڑے ہوں گے۔
صدارتی نظام کی قبولیت کی دوسری وجہ ہماری اس نظام حکومت سے بیزاری بھی ہے ۔اس سسٹم نے ہمیں کچھ دیا نہیں بلکہ لیا ہی لیا ہے۔عمران خان کے دورحکومت میں صدارتی نظام کے نفاذکا خوب چرچارہا۔لوگوں نے عمران خان کو ایک طاقتور صدر کے روپ میں دیکھنا شروع بھی کردیا تھا۔ویسے عمران خان صاحب کے بس میں ہوتا تو وہ شاید یہ کر بھی گزرتے کہ اقتدار میں شراکت کے وہ نفرت کی حد تک قائل اور اپنی شخصیت میں ایک زبردست آمر ہیں، لیکن جو چیز آڑے آتی ہے وہ ہے ہماراآئین۔ یہ آئین جمہوری پارلیمانی نظام حکومت پراستوار ہے اور کوئی بھی نیاسسٹم یا نظام حکومت لانے کیلئے آئین کا بدلنا ضروری ہے۔اس بدلاؤ کیلئے آئین میں ترمیم لازمی اور ترمیم کیلئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے، اب نہ کسی کے پاس دوتہائی کا نو من تیل ہوگا نہ یہ آئینی تبدیلی والی رادھا ناچے گی، سو افواہیں پھیلتی ہیں۔ عوام چار دن خوش ہولیتے ہیں۔ اپنے مسائل کا حل اس صدارتی نظام میں تلاش کرنے لگتے ہیں اورپھر کہانی ختم ۔
دوسرامغالطہ یہ ہے کہ اس ملک کے مسائل کے مکمل حل کیلئے ایک طویل نگران سیٹ اپ قائم کردیا جائے۔یہ نظام ٹیکنوکریٹ سنبھالیں، وہی چلائیں، ٹیکنوکریٹ معاشی مسائل کو حل کریں۔ ان کاسیاسی مصلحتوں میں جائے بغیر سخت فیصلے کرنا ممکن ہوگا وغیرہ وغیرہ۔آج کل یہ ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کا چورن مارکیٹ میں دستیاب ہوچکا ہے۔ہر گلی محلے کی دکان میں یہ مال ڈلوادیا گیا ہے۔تھڑوں کی سیاسی گپ شپ کا بھی موضوع یہی ہے کہ مشکل فیصلے کرنے کیلئے ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کی ضرورت ہے۔ توجیہہ یہ کہ چونکہ سیاسی جماعتوں نے الیکشن میں جانا ہوتا ہے ۔اس لیے وہ عوام کے خلاف مشکل فیصلے کرنے سے گریز کرتی ہیں لیکن اس وقت تو سخت معاشی فیصلوں کی ضرورت ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینا ہے تو شرائط بھی ماننا پڑیں گی ۔آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ توانائی سیکٹر کا گردشی قرضہ جو اکتالیس سو ارب روپے تک پہنچ چکا ہے،اس کو ختم کیے بغیر ہم پیسے نہیں دیں گے اور اس کو ختم کرنے کیلئے بجلی کی قیمت بڑھانا ناگزیر ہوگیا ہے۔ اس وقت بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت کوئی بیس بائیس روپے ہے جس کے تیس پینتیس روپے تک ہونے کا خدشہ ہے۔اب تیس یا پینتیس روپے بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت ہوجائے گی تو ماہانہ بل کہاں جائے گا؟اس کے علاوہ صرف بجلی کی قیمت بڑھانے سے بھی بات نہیں بنے گی ساتھ ہی گیس کی قیمت بھی بڑھانی پڑے گی تو ایسے کام کے بعد سیاسی جماعتیں ، جو اس وقت حکومت میں ہیں یعنی شہبازشریف،یعنی نون لیگ عوام سے گالیاں کھائے گی اور الیکشن میں شکست یقینی ہوگی۔
یہ توہے ان افواہوں کی وجہ کہ وطن عزیز کے کسی کونے کھدرے میں پردوں کے پیچھے کوئی اس پراجیکٹ بارے سوچ رہا ہوگا یا صرف افواہیں گھڑی جارہی ہیں ۔بہرحال کچھ تو ہے کہ ملک میں اس ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کی باتیں چل نکلی ہیں۔ ہمارے ہاں ایک اور خرابی ہے کہ ہم مسائل کو حل کرنے کی طرف نہیں جاتے بلکہ اپنی توانائی اور وسائل پورے سے بھی زیادہ لگادیتے ہیں لیکن کام ڈنگ ٹپاؤ کرکے خوش ہوتے ہیں۔ مسئلے والا دن کسی طرح گزرجائے تو اس دن کوکامیابی والا دن کہہ لیتے ہیںاور اگلے دن پھر اُٹھ کر اسی مسئلے کا کوئی اور پہلو سُلجھانے میں لگ جاتے ہیں اس طرح دائروں میں بھاگ بھاگ کرہی منزل تک پہنچنے کے گمان میں زندگی بسرکردیتے ہیں۔
ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کی افواہوں کی وجہ میں نے بیان کردی لیکن اس کی گنجائش تو بہرحال سسٹم میں موجود نہیں ۔آئین میں ایسا کوئی نظام حکومت فی الحال میسر نہیں۔آئین میں ایمرجنسی کے نفاذ کی شق بہرحال موجود ہے اور اس کا اختیار صدر کے پاس پڑاہے۔باقی اگر کچھ کرنا یا کروانا ناگزیرہواتو ہمارے ہاں ماشاللہ ہمہ وقت چوکس ،مستعد اور مستند عدلیہ موجود ہے۔جاوید چودھری صاحب نے تو عمران خان کو صادق اور امین بنانے کیلئے جو کہانی اپنے کالم میں لکھی ہے اس کے مطابق تو اسٹیبلشمنٹ نے یہ فیصلہ لکھنے کیلئے دو وکیل بھی ثاقب نثار صاحب کو خود فراہم کیے تھے تا کہ معززججز کا وقت یہ فیصلہ لکھنے پر بھی ضائع نہ ہو۔
قانونی اورآئینی گنجائش نکالنا ہمارے ہاں کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔ نظریہ ضرورت کے تحت یہ عدلیہ آمروں کو جوازدے چکی ہے۔وردیوں میں صدر بنائے جاچکے یہ تو پھر ایک ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کی بات ہے جو دوسال تک حکومت میں رہے گا اوردوسال میں اس ملک کے سارے مسائل حل کرکے حکومت واپس سیاستدانوں کے حوالے کردے گا جو پھر سب کچھ خراب کردیں گے اور چند سال بعد دوبارہ اسی طرح کے سیٹ اپ کو مثال کے طورپر پیش کرنا شروع کردیا جائیگا اور پھر یہی ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ اور ہم دائروں کے سفرکا ایک اور دائرہ پوراکرکے اسی مقام پر دوبارہ کھڑے ہوں گے۔
دائروں کے سفر کی یہی خوبی ہے کہ حرکت تیز تر ہوتی ہے لیکن منزل ہوتی ہی نہیں۔خیر بات ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ کی ہے تو اسی پر رکھتے ہیں۔یہ ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ بنانے کیلئے ٹیکنوکریٹ آئیں گے کہاں سے؟میں ابھی لسٹ بنارہا تھا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ کونسا ٹیکنوکریٹ بچ گیا ہے جو کسی نہ کسی وقت پاکستان میں حکومت کا حصہ نہیں رہا؟اس پی ڈی ایم کی حکومت میں شامل ٹیکنوکریٹس کی فہرست بعد میں مرتب کرتے ہیں پہلے عمران خان اور اس سے پچھلے ادوار کو دیکھ لیتے ہیں۔خزانہ کی وزارت سب سے اہم وزارت ہوتی ہے ۔گزری دہائی میں کونسا دورتھا جب کوئی ٹیکنوکریٹ اس ملک کا وزیر خزانہ نہیں رہا ؟پیپلزپارٹی کے دورمیں مختصر مدت تک وزیرخزانہ رہنے والے نوید قمر واحد وزیرجو ٹیکنوکریٹ نہیں تھے۔اس کے علاوہ شوکت عزیز، حفیظ شیخ، شوکت ترین،سلمان شاہ اور اسحا ق ڈاران سے پہلے مفتاح اسماعیل ٹیکنو کریٹ تھے ان سب کی کارکردگی سب کے سامنے ہے،اس کے علاوہ عشرت حسین،رزاق داؤد،طارق باجوہ، ڈاکٹر ظفرمرزا، اشفاق تولہ،شبر زیدی، اشفا ق حسن، طارق فاطمی،فہد حسین،عطا اللہ تارڑ،عرفان قادر،ندیم بابر،تانیہ ادروس۔یہ سب نام وہ ہیں جو پاکستان کے صف اول کے ٹیکنوکریٹ یا اپنے شعبوں کے ماہر ہیں اور یہ وہ ٹیکنوکریٹس ہیں جو پاکستان میں کسی نہ کسی دورمیں حکومت میں رہے یا اس وقت موجود ہیں، اگر موجودہ مسائل کے حل کیلئے کسی ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کی تلاش یا گنجائش نکالنے کی بات ہورہی ہے تو یہ جو اس وقت مسائل ہیں یہ پیدا کس نے کیے ہیں؟اوپر بیان کیے گئے سب ٹیکنوکریٹ تو حکومتیں کرتے رہے ہیں ۔کیا اب کوئی ایسے نئے ٹیکنوکریٹ پاکستان میں’’تیار‘‘ ہوچکے ہیں جو پہلے حکومتوں میں شامل نہیں رہے؟پاکستان کے مسائل کا حل کسی صدارتی نظام میں ہے نہ ٹیکنوکریٹس کے پاس ،ہمارے مسائل کا حل ایمانداری سے قانون کی حکمرانی میں ۔لالچ کو اندر سے نکالنے اور قوم کے ساتھ ہر مسئلے پر سچ بولنے میں ہے ۔ اس سچ والے سیٹ اپ کا تجربہ کرکے دیکھ لیں بہت افاقہ ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button