Editorial

جنرل قمر جاوید باجوہ کا الوداعی خطاب

 

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یوم دفاع و شہدا تقریب سے بطور آرمی چیف آخری خطاب کیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے خطاب کا ہر نقطہ دراصل انکشاف تھا جس پرہمیشہ سے غلط فہمی کی پرت چڑھاکرنوجوان نسل کو گمراہ کیاگیا اور حقائق کو مسخ کرکے تاریخ کے درست پس منظر کو چھپانے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے سقوط ڈھاکہ سے غیر ملکی سازش تک اور اِس کے درمیان کے تمام حقائق پر بات کرکے وہ پردے اٹھائے جو حقائق پر ڈال کر اُن کے اوپر جھوٹ کی گرد ڈال دی گئی تھی تاکہ حقیقی ذمہ داران کی بجائے اُنہیں ذمہ دار ٹھہرایا جاسکے جو اُن سانحات ؍حادثات یا انتشار کے دراصل ذمہ دار ہی نہ تھے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سول لیڈر شپ کی طرف سے ملٹری لیڈر شپ پر یکطرفہ اور بے بنیاد الزام تراشی کا بھی ذکر کیا مگر کسی سیاست دان کا نام نہ لیا کہ ان کے منصب کو زیب نہ دیتا تھا مگر واضح طور پر کہا کہ سول ملٹری قیادت کو نامناسب القاب دیئےگئے، ہم نے ملکی مفاد میں حوصلےکا مظاہرہ کیا، صبر کی حد ہے ، یہ ناممکن نہیں بلکہ گناہ کبیرہ ہے بیرونی سازش ہو اور فوج کچھ نہ کرے، بھارتی عوام کم وبیش ہی اپنی فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ‘ اس کے برعکس ہماری فوجگاہے بگاہے تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ 70 سال سے فوج کی مختلف صورتوں میں سیاست میں مداخلت ہے جو غیر آئینی ہے،پچھلے سال فروری میں فیصلہ کیا کہ فوج آئندہ کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔ فوج نے تو اپنی اصلاح شروع کردی ہے، امید ہے سیاسی پارٹیاں بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کریں گی۔انہوں نے کہا کہ 2018ءکے عام انتخابات میں بعض پارٹیوں نے آر ٹی ایس کے بیٹھنے کو بہانہ بناکر جیتی ہوئی پارٹی کو سلیکٹڈ کا لقب دیا اور 2022 میں اعتماد کا ووٹ کھونے کے بعد ایک پارٹی نے دوسری پارٹی کو امپورٹڈ کا لقب دیا، ہمیں اس رویے کو رد کرنا ہوگا۔ہر پارٹی کو اپنی فتح اور شکست کو قبول کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا تاکہ اگلے الیکشن میں ایک امپورٹڈ یا سلیکٹڈ گورنمنٹ کے بجائے الیکٹڈ گورنمنٹ آئے۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے بڑے دل اور بڑی جرأت کے ساتھ ملکی سیاست میں ستر سال سے فوج کی مختلف صورتوں میں مداخلت کا اعتراف تو کیا ہی لیکن واضح بھی کیا کہ پچھلے سال فروری میں پاک فوج نے فیصلہ کیا تھا کہ آئندہ کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔ پاک فوج کے سربراہ نے تو ستر سال میں مختلف صورتوں میں مداخلت کا اعتراف کرکے اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دے دیا ہے کیا ہمارے ہر دل عزیز سیاسی رہنما بھی ایسی ہی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعتراف کریں گے کہ انہوں نے اِن سات دہائیوں میں عسکری قیادت کو بارہا مداخلت کے لیے مجبور کیااور سیاسی معاملات کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی بجائے غیر جمہوری سوچ کے ساتھ عسکری قیادت کے ساتھ ہم کلام ہوئے تاکہ سیاسی فوائد و مقصد حاصل کیا جاسکے۔ زیادہ دور کی بات نہیںکرتے حالیہ دنوں میں بھی سیاسی قیادت ایک دوسرے پر ایسے ہی الزامات لگارہی ہے، پس جو سیاست میں فوج کی مداخلت کو غلط سمجھتے ہیں، انہیں اپنی فریاد اور مقصد لیکر فوج سے رابطہ کرنے کو بھی غلط قرار دینا چاہیے۔ ہم ماضی میں سیاسی قیادت کے عسکری قیادت کے ساتھ رابطوں کی بات کریں گے تو برا لگے گا لہٰذا یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ پوری قوم آگاہ ہے کہ کس نے عسکری قیادت کو سیاست میں مداخلت کے لیے مدعو کیا اور اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف اُس مداخلت کے نتیجے میں کیا مقاصد حاصل کئے ۔ اگرچہ سول اور ملٹری قیادت کے درمیان رابطے اور دوستانہ ماحول ہمیشہ رہنا چاہیے کیونکہ سبھی اپنی اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کررہے ہیں اور سبھی بطور انسان، مسلمان اور پاکستانی ایک دوسرے سے میل جول رکھ سکتے ہیں مگرکسی سیاست دان کو اخلاقی طور پر قطعی زیب نہیں دیتا کہ وہ ملٹری قیادت کو سیاسی معاملات میں مداخلت کے لیے مجبور کرے جیسا کہ ہمیشہ سے تاحال کیا جاتا رہا ہے۔ جنرل قمرجاویدباجوہ نے سقوط ڈھاکہ پر بھی قوم کی آنکھوں پر ڈالا گیا پردہ ہٹایا اور کہا کہ سابقہ مشرقی پاکستان ایک فوجی نہیں بلکہ ایک سیاسی ناکامی تھی۔ لڑنے والے فوجیوں کی تعداد 92 ہزار نہیں صرف34ہزارتھی،باقی لوگ مختلف گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹس کے تھے اور ان 34 ہزار لوگوں کا مقابلہ ڈھائی لاکھ انڈین آرمی، دو لاکھ تربیت یافتہ مکتی باہنی سے تھا لیکن اس کے باوجود ہماری فوج بہت بہادری سے لڑی جس کا اعتراف خود سابق بھارتی آرمی چیف فیلڈ مارشل مانیکشا نے بھی کیا۔ان بہادر غازیوں اور شہیدوں کی قربانیوں کا آج تک قوم نے اعتراف نہیں کیا جو بہت بڑی زیادتی ہے۔ بلاشبہ قوم کو یہی بتایا جاتا رہا بالخصوص نوجوان نسل کو یہی ظاہر کیا جاتا ہے کہ سقوط ڈھاکہ میں پاک فوج نے ہتھیار ڈالے مگر آرمی چیف کی وضاحت کے بعد ڈھونڈیں ان کو جنہوں نے حقائق پر پردہ ڈالا اور ملٹری قیادت کو سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار قرار دیاتھا لہٰذا جو بات جنرل قمر جاوید باجوہ نے لحاظ کرتے ہوئے نہیں کہی ہم کہنے سے گریز نہیں کریں گے کہ سقوط ڈھاکہ دراصل سیاسی قیادت کی ہی ناکامی تھی کیونکہ تب تک سیاسی عدم استحکام اور عدم برداشت کا پودا پروان چڑھایا جاچکا تھا، سیاسی قیادت نے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام نہ کیا بلکہ سیاسی کمال مہارت سے حصول اقتدار کے لیے ایک ملک کودو لخت کردیا، سیاسی رہنما ایک دوجے کے مینڈیٹ کوتسلیم کرتے تو ملک کیونکر دو دلخت ہوتا بھلے بھارت اور اِس کے پیچھے چھپی طاقتیں جتنی بھی سازشیں رچالیتے، پس سیاسی لیڈر شپ نے وہی کیا جو آج تک کیا جارہا ہے تب بھی مینڈیٹ تسلیم نہیں کیا گیا اور افسوس کہ تسلیم اب بھی نہیںکیا جاتا، لہٰذا سقوط ڈھاکہ کا افسوس ناک منظر دیکھنے اورملک ٹوٹنے کا باقاعدہ اعلان سننے والے موجودہ سیاست دانوں کے سامنے بھی دست بستہ گذارش کرتے ہیں کہ خدارا ایک دوسرے کے وجود اور مینڈیٹ کو تسلیم کریں اور دل نہ مانے تو سقوط ڈھاکہ کے پیچھے سیاست دانوں کی غلطیاں اور ماضی قریب میں منتخب حکومتوں کے خاتمے کے اسباب پر ضرور غور کیجئے شاید دل میں بات اُتر جائے مگر افسوس حالات یہی بتاتے ہیں کہ شخصیات تو بدل گئیں لیکن روش نہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ 2018ءکے عام انتخابات میں بعض پارٹیوں نے آر ٹی ایس کے بیٹھنے کو بہانہ بناکر جیتی ہوئی پارٹی کو سلیکٹڈ کا لقب دیا اور 2022 میں اعتماد کا ووٹ کھونے کے بعد ایک پارٹی نے دوسری پارٹی کو امپورٹڈ کا لقب دیا، ہمیں اس رویے کو رد کرنا ہوگااور ہر پارٹی کو اپنی فتح اور شکست کو قبول کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا ۔ بلاشبہ یہ بھی وہی بات ہے جو ہم مختلف مواقعوں پر دست بستہ کہتے رہے ہیں کہ سیاسی قیادت ازخود سیاسی عدم استحکام کی ذمہ دار ہے کیونکہ جب بھی عوام کسی سیاسی جماعت کو مینڈیٹ دےکر اقتدار کے لیے منتخب کرتے ہیں سبھی دیگر سیاسی جماعتیں مینڈیٹ کو مسترد کردیتی ہیں اور اس کے لیے جواز ڈھونڈنا اِن کے لیے مشکل بھی نہیں ہوتا۔ 2018کے عام انتخابات کو آر ٹی ایس کے نام پر متنازعہ بنایاگیا اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی یہی بتایا اور واضح کیا کہ اِس میں پاک فوج کی قطعی مداخلت نہیں تھی لہٰذا جن سیاست دانوں نے آر ٹی ایس اور سلیکٹڈ کے نام پر منتخب حکومت کو پونے چار سال کام نہیں کرنے دیا جائے انہیں بھی ایسی ہی مزاحمت کا سامنا ہے، جیسی مزاحمت انہوں نے پونے چار سال کی تھی۔ پس ثابت ہوا کہ درحقیقت سیاست دان معاملات کو سُلجھانے کی بجائے اُلجھانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں اپنی شکست برملا تسلیم کرنے میں ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ آرمی چیف نے کم و بیش سبھی کو آئینہ دکھادیا ہے ، سیاست دان اب بھی ایک دوسرے کے خلاف ماضی کی طرح برسرپیکار رہے تو ملک و قوم کے ساتھ ساتھ اُن کا اپنا بھی مزید نقصان ہوگا لہٰذا ضرورت ہے کہ سیاسی قیادت ایک دوسرے سے متعلق برداشت کا مظاہرہ کرے اور سیاسی سٹنٹ کے ذریعے سیاسی عدم استحکام پیداکرنے سے گریز کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button