ColumnRoshan Lal

امریکہ ، عمران اور پاکستان .. روشن لعل

روشن لعل

 

یہ بات کوئی راز نہیںہے کہ عمران خان اپنے حسن کرشمہ سازکی بدولت کسی وقت بھی خرد کا نام جنوں اور جنوں کا خرد رکھ سکتے ہیں۔ نکتہ چینوں نے عمران خان کے اس کرشمہ ساز رجحان کو ’’یوٹرن‘‘ کا نام دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ عمران کے پرستاروں کیلئے ان کے ہر ’’یوٹرن‘‘ کا دفاع کرنا مشکل ہو جاتا، انہوں نے یہ فتویٰ صادر فرمادیا کہ روئے زمین پر ’’ یوٹرن ‘‘ لینے سے بڑی خرد مندی کوئی اورنہیں ہو سکتی۔ اس فتوے کے بعد عمران کے پرستاروں نے ماضی میں لیے گئے ان کے ہر ’’یوٹرن‘‘ کو سنہری حروف میں لکھنا شروع کردیا۔اپنے پرستاروں کی طرف سے انوکھی عقیدت کے والہانہ اظہار کے بعد عمران خان نے ان میں تبرک کی طرح ’’ یو ٹرن ‘‘ بانٹنے شروع کردیئے۔ان پرستاروں کی اندھی عقیدت نے عمران خان کا حوصلہ اس حد تک بڑھا یا کہ انہوں نے امریکی سازش کے اپنے بیانیے پر بھی ایک نیا ’’یوٹرن‘‘لے لیا۔ نیا یوٹرن لیتے ہوئے عمران خان نے یہ کہا کہ امریکی سازش کا ان کا بیانیہ ماضی ہے، اب وہ ماضی کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور جب ان کی حکومت آئے گی تو وہ امریکہ سے اچھے تعلقات قائم کریں گے۔
واضح رہے کہ جب عمران خان کی حکومت تحریک عدم اعتماد کے تحت ختم ہوئی اس وقت ان کی اپوزیشن نے اس اقدام کو آئین کے مطابق عمل قرار دیاتھا۔ اس کے برعکس عمران خان کا یہ دعویٰ تھا کہ ان کی حکومت کے خاتمے کے پیچھے امریکی سازش اس حد تک کارفرما تھی کہ امریکہ سے ملنے والے ڈالروںکے ذریعے اراکین اسمبلی کو خرید کر ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کرائی گئی اور اسٹیبلشمنٹ نے اس کام میں سہولت کار کا کردار کیا۔ اس بیانیے کے تسلسل میں پھر انہوں نے عام جلسوں میںخاص لوگوں کو میر جعفر اور میر صادق کے نام سے پکارا۔ امریکی سازش کے بیانیے کی عمران خان نے یہ توجیہ پیش کی تھی کہ انہوں نے دورہ روس کیونکہ امریکی غلامی کا طوق اتارنے کیلئے کیا تھا اس لیے امریکہ کو ان کا یہ عمل پسند نہ آیا اور اس نے صرف ان کے مخالف سیاستدانوں کو ہی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو بھی اس سازش کا حصہ بنایا جس کے تحت ان کی حکومت ختم کی گئی۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ عمران نے صرف یہ نہیں کہا کہ وہ امریکی سازش کا بیانیہ پیچھے چھوڑ چکے ہیں بلکہ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ روس کا دورہ کرنا ان کی غلطی تھی۔ عمران خان نے لندن کے فنانشل ٹائمز کو دیئے گئے اپنے تازہ ترین انٹرویو میں جوکچھ بیان کیا س پر ان کے حامی اور مخالفین مختلف قسم کے تبصرے کر رہے ہیں۔ عمران خان نے اپنے انٹرویو میں جو کچھ کہا اس پر لوگوں نے مختلف زاویوںسے غور کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کیا۔عمران خان کی کہی ہوئی باتوں پر اس زاویے سے بھی غور ہو سکتا ہے کہ انہوں نے امریکی سازش کے بیانیے کو پیچھے چھوڑنے کے ساتھ یہ کیوں کہا کہ روس کا دورہ ان کی غلطی تھی۔ اس زاویے پر غور کرنے کیلئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جب عمران خان نے امریکی سازش کے بیانیے کی گردان کرتے ہوئے زمین آسمان ایک کردیئے تھے اوردورہ روس کو اپنا انتہائی جرأتمندانہ اور دانشمندانہ اقدام قراردیا تھا اس وقت روس اور امریکہ کہاں کھڑے تھے اور ایک عرصہ سے نشاۃ ثانیہ کے خواب دیکھنے والے عمران خان کے حامی مبصروں نے ان کے حق میں کیا تبصرے کیے تھے۔
جن مبصروں کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے انہوں نے عرصہ دراز تک عمران خان کی مدح سرائی کرتے ہوئے انہیں ایسے ہیرو کے طور پر پیش کیا جو ان کے خوابوںکو سچ ثابت کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ یہ مبصر اور ان کے پیش رو سرد جنگ کے دور میں امریکی مفادات کیلئے افغان جہاد کے نام سے لڑی گئی جنگ میں سوویت یونین کے مخالف اور امریکہ کے حامی تصور کیے جاتے رہے۔ نائن الیون کا واقعہ رونما ہونے کے بعد جب دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو ان مبصروں نے امریکہ کی مخالفت میںاپنے ماضی سے مختلف کردار ادا کرنا شروع کردیا۔ عمران خان نے ان مبصروںکا ہمنوا ہونے کے باوجود بہت کم ان کی طرح کھل کر اور براہ راست امریکہ کی مخالفت کی مگروہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کواکثر پاکستان کے مفادات سے متصادم قرار دیتے رہے۔ روس کے یوکرین پر حملے کے بعدعمران خان اور ان کے ممدوح مبصروں نے اس قسم کاتصور پیش کرنا شروع کردیا تھا جیسے دنیا میں پھر سے سرد جنگ کا آغاز ہو گیا ہو۔ اس تصور کے ساتھ ہی یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش بھی کی گئی کہ پاکستان کا مفاد امریکہ کی بجائے روسی کیمپ میں شامل ہونے میں ہے۔ جس وقت پاکستان میں اس قسم کا تاثر پھیلایا جارہا تھا اس وقت روس ، یوکرین پر حملہ کرنے کے سبب یورپ اور امریکہ کی طرف سے لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے عالمی تنہائی کا شکار ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اپنی تنہائی دور کرنے کیلئے جب روس نے ایران کے ساتھ تعاون کا عندیہ دیا تو پاکستان میں مخصوص بنیادوں پر ایران کی حمایت کرنے والے لوگوں کی ایک بہت بڑی اکثریت عمران خان کی حامی بننا شروع ہوگئی۔ عمران خان کے ان نسبتاً نئے حامیوں نے نہ صرف ان کے جلسوں کی رونقیں بڑھائیں بلکہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران منعقد ہونے والے انتخابات میں بھی جوق درجوق بلے کے نشان پر مہریں لگائیں۔
جو روس ، ایران کے قریب آنا شروع ہوتا تھا اور جس روس سے عمران خان اور ان کے ممدوح دانشوروں نے امیدیں وابستہ کی تھیں وہ روس ، یوکرائن سے شروع کی جانے والی جنگ میں متوقع نتائج حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اب بین الاقوامی سطح پر اس مقام سے بہت دور نظر آرہا ہے جس مقام کے اسے قریب تصور کر لیا گیا تھا۔ یہ روس اب قطعاً اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ مستقبل قریب میں عمران خان کو اس کی حمایت کا کوئی سیاسی فائدہ حاصل ہو سکے۔ عمران خان جس طرح امریکی سازش کے بیانیے سے دستبردار ہوئے ہیں اسے سمجھنے کے لیے صرف اندرونی طور پر رونما ہونے والی ممکنہ تبدیلیوں کو ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی منظر نامے میں جو کچھ تبدیل ہو رہا ہے اسے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اگر روس کو یوکرین پر حملے کرنے کے مطلوبہ نتائج نہیںمل سکے تو امریکہ بھی اپنی خواہش کے مطابق مفادات حاصل نہیں کر پایا۔ خواہش کے مطابق مفادات حاصل نہ ہونے کے باوجود امریکہ میں عالمی چودھری کا کردار ادا کرنے کی حس اب بھی موجود نظر آتی ہے مگر روس ایسے کسی کردار سے کوسوں دور نظر آرہا ہے۔ اس تناظر میں فی الحال اس بابت کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ عمران کی طرف سے امریکی سازش کے بیانیے سے دستبرداری کے بعد کیا وہ نئے حمایتی آنے والے وقتوں میں بھی ان کے ساتھی بنے رہیں گے جو ایران کے ساتھ اپنی خاص رغبت کی وجہ سے ان کا ساتھ دینے پر آمادہ ہوئے ۔ اس تمام معاملے میں یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ عمران خان نے جو کچھ پہلے کیا اور جو کچھ اب کررہے ہیں اس میں پاکستان کا مفاد کہاں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button