Editorial

اہم معاملات کو متنازعہ بنانے کی روش

 

وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف کے درمیان لندن میں ہونے والی ملاقات میں فیصلہ کیاگیاہےکہ آرمی چیف کی تعیناتی میں میرٹ کو اولیت دی جائے گی اور سینئر ترین جنرل آرمی چیف ہوگا اور بلاشبہ آنے والے دنوں میں جنرل قمر جاوید بطور سربراہ پاک فوج داخلی و خارجی چیلنجز سے بھرپور مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد رخصت ہوجائیں گے اور اُن کی جگہ نئے سپہ سالار اُن چیلنجز سے نبرد آزما ہوں گے اور بلاشبہ انہیں بھی پوری قوم کی تائید و حمایت حاصل ہوگی کیونکہ طاقت ور فوج کے پیچھے ہمیشہ عوام کی طاقت ہوتی ہے اسی لیے فوج دشمن کو زیر کرتی ہے، ہم دیکھ چکے ہیں کہ بھارت نے ماضی میں جتنی بار وطن عزیز پر جنگ مسلط کی، نہتے عوام سرحدوں کے دفاع کے لیے پہنچ گئے ، اسی طرح دہشت گردی کی طویل جنگ میں بھی عوام ثابت قدمی کے ساتھ پاک فوج اور سکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ رہی اور بالآخر دہشت گردی کی طویل جنگ میں ہم فتح یاب ہوئے لیکن یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، بھلے اِس کا دائرہ محدود ہوگیا ہے لیکن جنگ جاری بھی ہے اور ہمارے دشمن ہمیں غیر مستحکم کرنے کے لیے ہر حربہ آزما رہے ہیں مگر جب تک ہم متحد ہیں پاکستان دشمنوں کے عزائم خاک میں ملتے رہیں گے لہٰذا پاک فوج کے نئے سربراہ کو انہی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا البتہ اب ہم دہشت گردی کا قریباً قریباً قلع قمع کرچکے ہیں اورلمحہ موجود میں اُن کی باقیات کا خاتمہ کیا جارہا ہے۔ پاک فوج ہمارا منظم ادارہ ہے، جیسا ڈسپلن اور جذبہ اِس ادارے میں دیکھنے کو ملتا ہے، اِس کی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے اور ملکی دیگر اداروںمیں تو ایسا ڈسپلن اور جذبہ دیکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جو پاک فوج کے ہر شعبے کے ہر جوان میں نظر آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نہ صرف عالمی سطح پر پاک فوج کی صلاحیتوں اور قربانیوں کا برملا اعتراف کیا جاتاہے بلکہ اُمت مسلمہ تو پاک فوج پر نازاں ہے کیونکہ جب بھی کسی مسلمان ملک کو مشکل حالات پیش آتے ہیں اُن کی نگاہ پاک فوج کی طرف ہوتی ہے اورپھر پاک فوج پہلے ہی ارض مقدس کی حفاظت کے لیے وہاں موجود ہے اور بلاشبہ مسلم دنیا میں سے صرف پاک فوج کا اِس اہم اور مقدس فریضے کے لیے منتخب کیا جانا ملک و قوم کے لیےاعزاز ہے۔ پاک فوج میں میرٹ کا معیار اتنا سخت ہے کہ ایک سپاہی کی بھرتی میرٹ کے بغیر نہیں ہوسکتی تو سنیئر افسران کے متعلق سوچا جاسکتا ہے کہ وہ سخت تربیت اور قابلیت کے کون کون سے معیار پر
پورا اُترنے کے بعد اُس اہم منصب پر فائز ہوتے ہیں اسی سے تصور کرلیا جائے کہ پاک فوج کے سربراہ کی ذمہ داری تک پہنچنا کتنا مشکل ترین بلکہ ناممکن کے قریب معلوم ہوتا ہے لہٰذا اِس اہم منصب سے متعلق کج بحثی قطعی مناسب نہیں مگر کوئی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ہماری سیاسی قیادت کو اِس ضمن میں احتیاط سے کام لینا چاہیے کیونکہ اِس اہم منصب کی عزت و احترام کو بھی مدنظررکھنا ضروری ہے۔ حالیہ دنوں میں اتحادی حکومت اور تحریک انصاف کی قیادت کے مابین جس طرح کا تنائو دیکھا جارہا ہے اِس پر لمحہ بہ لمحہ تشویش کا اظہار ہی کیا جاسکتاہے اور عوام کی اکثریت کربھی رہی ہے۔ کوئی ایک نقطہ ایسا نہیں جس پر دونوں متفق نظر آتے ہوں یہاں تک ملکی کی حالات کی سنگینی اور عوام کی حالت زار بھی اِن کو متوجہ نہیں کرپارہی ، لہٰذا مسائل سلجھنے کی بجائے اُلجھ رہے ہیں کیونکہ ایک فریق کسی پر متفق ہو تو دوسرا نہیں ہوتا اور پھر اسی رویے کا اُس کو سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسی کھینچا تانی میں عوام پس رہے ہیں، حالانکہ حالات تو اِن کی فوری اور مستقل توجہ کے متقاضی تھے زرمبادلہ کے ذخائر، داخلی انتشار، مرکز اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تنائو ، جائز و ناجائز پکڑ دھکڑ غرضیکہ ناقابل بیان اور طویل سلسلہ ہے۔ نفرت انگیز رویے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روش کے مظاہر جابجا ہیں کیونکہ وہ اِسی کو سیاست اور اپنا حق سمجھتے ہیں تو پھر ملک و قوم کس کی ذمہ داری ہیں؟ سیاسی قیادت کو نئے چیلنجز اور نئے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنا چاہیے اورجو سیاسی جماعت پہلے اپنے اندر تبدیلی لے آئے گی وہی کامیاب ہوگی کیونکہ آج کے دور میں جمع و تفریق کرنا قطعی مشکل نہیں رہا۔ پل بھر میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سبھی کے سامنے آجاتاہے، لہٰذا سب سے پہلے سیاسی قیادت کو اپنے اندر مثبت تبدیلیاں لانا ہوں گی جبھی ان کو پذیرائی ملے گی۔ لوگ سوال پوچھتے ہیں لہٰذا آپ کو جواب دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ جتنی زیادہ تلخیاں بڑھائیں گے اور غلطیاں کریں گے اُتنی ہی زیادہ تلخیاں اور غلطیاں آپ کے حصے میں آئیں گی، بہت ضروری ہے کہ اب پرانی روش کا خاتمہ کیاجائے اور ملک و قوم کو درپیش نئے چیلنجز اور نئی نسل کی ضروریات کو مدنظر رکھا جائے، وگرنہ ناقابل تلافی سیاسی نقصان ہوگا۔ سیاسی قیادت کو طرز سیاست میں مثبت تبدیلیاں لانی چاہئیں خصوصاً انہیں ، جو اداروں کی آزادی اور آئین و قانون کی بالادستی کی بات تو کرتے ہیں لیکن بات سے آگے بات نہیں بڑھتی۔ لہٰذا اہم اور ذمہ داری والے امور میں ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔نسل نو کی تربیت کے لیے ازحد ضروری ہے کہ ہر موقعے پر ذمہ داری اور احتیاط کی جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button