Columnمحمد مبشر انوار

طریقہ کار ! ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

پاکستانی افق سیاست اس وقت شدید غبار کی زد میں ہے اور بظاہر اس سے نکلنے کا جو راستہ نظر آتا ہے حکمران اور طاقتور حلقے تاحال اس پر عمل درآمد کرنے میں شش و پنج کا شکار ہیں۔ سیاستدان اپنے بھرپور داؤ پیچ استعمال کررہے ہیں کہ سیاستدانوں کی سیاست کا واحد مطمع نظر تو اقتدار ہی ہے اور اس کی خاطر وہ مسلسل اپنی جدوجہد میں مصروف نظر آتے ہیں۔ بظاہر رجیم چینج آپریشن کے ما بعد عوامی ردعمل نے نہ صرف حکومت وقت بلکہ طاقتوروں کی رائے کو غلط ثابت کیا ہے بلکہ ان کیلئے اب صورتحال ایسی بن چکی ہے کہ نہ اُگلے بنتی ہے او رنہ نگلے بنتی ہے۔ اس لیے اب کوششیں یہ ہو رہی ہیں کہ کسی طرح کسی ایسے فارمولے پر اتفاق ہو جائے کہ ہر فریق کیلئے سہولت رہے اور سبکی کا باعث نہ بنے البتہ عمران خان اپنے مطالبے پر سختی کے ساتھ ڈٹے تو نظر آتے ہیں لیکن آثار ایسے نظر آتے ہیں کہ وہ بھی ایسے کسی فارمولے پر متفق ہو جائیں گے۔ اس دوران عمران خان پر مقامی میڈیا کے دروازے تو بند ہیں لیکن عالمی میڈیا بالخصوص عمران خان پر قاتلانہ حملے کے بعد مسلسل ان کی کوریج کر رہا ہے اور عمران خان نہ صرف اپنے تحفظات بلکہ مطالبات کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کررہے ہیں۔ عمران خان کی یہ کوششیں، درحقیقت فیصلہ سازوںکیلئے مشکلات کا سبب تو بن رہی ہیںلیکن اس کے ساتھ ساتھ شنید یہ بھی ہے کہ وہ اب سنجیدگی کے ساتھ موجودہ مسائل کے حل کا فارمولا بھی تلاش کررہے ہیں۔عمران خان نے ترکی کے میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے جو باتیں کی ہیں ان سے ایک حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ عمران خان کو اپنے اقتدار سے زیادہ ملکی مفادات اور معیشت کا خیال ہے،ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے انتہائی اعتماد کے ساتھ یہ جواب دیا ہے کہ انہیں انتخابات کے ایک سال
بعد یا اپنے مقررہ وقت پر ہونے پر اعتراض نہیں لیکن انہوں خدشہ ہے کہ تب تک پاکستانی معیشت انتہائی دگر گوں ہو سکتی ہے اور اسے دوبارہ پاؤں پر کھڑا کرنا بہت دشوار ہو جائے گا۔رجیم چینج آپریشن کے نتیجہ میں بننے والی تجربہ کار حکومت کی کارکردگی ساری دنیا کے سامنے ہے اور اس تجربہ کار حکومت کی وجہ سے پاکستانی جس حالت کو پہنچ چکے ہیں،اس کا مظاہرہ ساری قوم بخوبی کر رہی ہے کہ کس طرح مہنگائی نے سابقہ تمام تر ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔2018کے انتخابی نتائج سے یہ خدشہ بہرحال ہمیشہ موجود رہا کہ کسی بھی وقت اپوزیشن متحد ہو کرعمران حکومت کو گھر بھیج سکتی ہے لیکن اپوزیشن جماعتوں کے باہمی اختلافات اس قدر زیادہ تھے کہ یہ توقع ایک خام خیال نظر آتی تھی مگر مراسلے اور اندرون ملک فیصلہ سازوں کی پالیسی نے اس کو ممکن کردکھایا۔یوں موجودہ وزیراعظم جن پر فرد جرم عائد ہونے جار ہی تھی،انہیں وزیراعظم کا عہدہ جلیلہ نصیب ہوا، وزیراعظم کے منصب پر سرفراز ہوتے ہی اولین فرصت میں ان قوانین کو تبدیل کیا گیا کہ جن پر عمل درآمد سے ان کا ٹھکانہ جیل کی کوٹھڑی ہوتا۔ تاہم نیب قوانین میں ترامیم کے خلاف تحریک انصاف عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹا چکی ہے اور مقدمہ زیر سماعت ہے،بادی النظر میں تو ان ترامیم کو فوری طور پر کالعدم قرار دیا جانا چاہیے کہ ایسی کوئی بھی ترمیم ،جو آئین و
قانون سے متصادم ہو،عدالت عظمیٰ عدالتی نظرثانی کے تحت اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے لیکن اس مقدمہ کی سماعت ابھی جاری ہے، دیکھتے ہیں کہ اس کا فیصلہ کیا آتا ہے۔ تاہم معزز عدالت کے ججز کی رائے مختلف نظر آتی ہے، بالخصوص جسٹس جناب سید منصور علی شاہ اس مقدمہ کو خالصتاً پارلیمنٹ کا استحقاق سمجھتے ہیںاور اس پر عدالتی قدغن لگانے کے حق میں نہیں بعینہ جس طرح برطانوی پارلیمنٹ کا یہ استحقاق ہے کہ وہ جیسی چاہے قانون سازی کرے۔البتہ پاکستان اور برطانیہ کی پارلیمنٹ کے دائرہ کار کا موازنہ بظاہر مناسب نظر نہیں آتا کہ پاکستان کے حالات قدرے مختلف ہیں اور کسی بھی قانون سازی کے دوران مقننہ کی ’’نیت ‘‘اور قانون سازی کے نتیجہ میں بہرہ ور ہونے والوں کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال نے ،اس قانون سازی کے نتیجہ میں فوری طور پر ای سی ایل سے نکلنے والے افراد کا نام غالباً دوبارہ ای سی ایل پر ڈالنے کا حکم بھی دیا تھا،یعنی ان کے نزدیک نیب قوانین میں ترامیم کسی خاص مقصد کے تحت کی گئی تھی۔ بہرحال اس کا آخری فیصلہ عدالت عظمی کو کرنا ہے اور اپنے عدالتی ریویو کے اختیار و دائرہ کار کو استعمال کرنے کا حق بہرطور عدالت عظمیٰ کے پاس ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر عدالت عظمیٰ اپنے آخری فیصلہ میں ان ترامیم کو کالعدم قرار دیتی ہے تو ممکنہ طور پر مستقبل میں تحریک انصاف کی حکومت ،اگرعوام نے اسے منتخب کیا ،کو ان ترامیم کو ختم کرنے کی مشق سے بچا لے گی۔
بد قسمتی سے پاکستانی سیاستدان ،سیاسی معاملات کو طے کرنے کے اہلیت سے عاری اس لیے نظر آتے ہیں کہ ایک جگہ بیٹھ کر افہام تفہیم سے حل کرنے میں نہ سنجیدہ ہیں اورنہ مل بیٹھنے کو تیار ہیں۔ 1977میں سخت ترین اختلافات کے باوجود قومی رہنماؤں کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے جس کے نتیجہ میں تاریخ کا طویل ترین مارشل لاء اس ملک کا مقدر بنا تھااور یہ تاثر بنا تھا کہ جنرل ضیا کسی بھی صورت ان مذاکرات کا کامیاب نہیں دیکھنا چاہتا تھا جبکہ آج کی سیاسی صورتحال ایسی ہے کہ سیاستدان ایک میز پر بیٹھنے کیلئے تیار نہیں۔ البتہ حکومت کا مؤقف اس معاملے میں لچکدار نظر آتا ہی کہ اس کے پس پردہ یہ حقیقت عیاں ہیں کہ جس طرح انہوں نے نیب قوانین میں ترامیم کی ہیں،بعینہ وہ عمران خان سے ایسی چھوٹ چاہتے ہیں کہ کسی طرح ان کی لوٹی ہوئی دولت سے صرف نظر کرتے ہوئے ،عمران خان انہیں این آر او دے دیں ،ماضی کو بھول جائیں اور مستقبل کیلئے کوئی لائحہ عمل طے کر لیں۔اس بنیادی اختلاف پر عمران خان آج بھی سختی سے قائم ہیں اور اس وقت ساری سیاسی قیادت میں ایک عمران خان اور دوسری جماعت اسلامی اس مؤقف کی حامی ہے لیکن جماعت اسلامی کی حیثیت اتنی نہیں کہ وہ ان معاملات میں اثر انداز ہو سکے،جبکہ عمران خان اپنے اس مطالبے سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ یہاں حکومتی اراکین کا یہ سوال کہ لوٹ مار کہیں بھی اور کسی بھی جگہ پر ثابت نہیںہوئی،لایعنی سا لگتا ہے کہ جب قوانین میں ایسی ترامیم کی جائیں کہ جن سے سابقہ لوٹ مار کا سوال ہی نہ ہو یا ریاستی مشینری ہی اول تا آخر اس جرم کی تفتیش و ثبوت میں ذمہ دار ہو بصورت دیگر اس کی نوکری تک داؤ پر لگ جائے،لوٹ مار کیسے ثابت ہوگی ؟اگر لوٹ مار نہیں کی گئی تو پی ڈی ایم حکومت کو لوٹ مار روکنے کیلئے قوانین کو مزید سخت کرنا چاہیے یا موجود قوانین کو مجرمان کے حق میں اس قدر سہل کردینا چاہیے کہ کوئی بھی سرکاری ادارہ ان کی لوٹ مار پر قانونی کارروائی کرنے سے گریز کرے؟
عمران خان قاتلانہ حملے کے بعد مزید کھل کر سامنے آ گئے ہیںاور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس حملے نے ان کو زیادہ پرجوش کر دیا ہے جس کا اظہار انہوں نے اپنے ٹویٹ میں یہ کہہ کر کیا ہے کہ وہ اس دوسری شخصیت کو بھی منظر عام پر لائیں گے ،جو حملے کے دوران ایک دفتر میں موجود رہ کر اس واردات کا مشاہدہ کرتی رہی ہے۔ عمران خان چو مکھی لڑائی میں مصروف ہیں اور کسی ایک محاذ بھی پسپاہوتے دکھائی نہیں دے رہے، وہ بتدریج دباؤ بڑھاتے جا رہے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ طبقہ جو انہیں اس سیاسی کھیل سے باہر رکھنا چاہتا ہے،اس دباؤ کا شکار نظر آتا ہے۔ گو کہ وزیر داخلہ ہنوز اپنے مقاصد کے حصول میں روبہ عمل ہیںاور ان کے نزدیک تحریک انصاف کے کارکنان نے گورنر راج کے امکانات پیدا کررکھے ہیں،جس کو عمران خان نے ایک بار پھر ،صرف اسلام آباد کو محصور کرنے کا کہہ کر،ناکام بنا دیا ہے ۔اس ساری صورتحال کے پیش نظر شنید ہے کہ فیصلہ سازوں نے حکومت کو پیغام بھجوا دیا ہے کہ ،خطے اور عالمی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے،اس سیاسی کشمکش کا حل انتہائی ضروری ہے۔ بالخصوص سعودی ولی عہد و وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کے متوقع دورہ پاکستان سے پہلے اس گرد کو ختم کیا جائے۔ فریقین کی سہولت کیلئے بظاہر ایک عبوری حکومت کا قیام ہی تمام فریقین کیلئے قابل قبول نظر آتا ہے اور ممکنہ طور پر طاقتور رجیم چینج کے فیصلے اور اگلے عام انتخابات کو مقررہ مدت تک کروانے کی خاطر اس عبوری حکومت کو نہ صرف بھر پور مدد فراہم کریں گے بلکہ معاشی استحکام کے کئی ایک اقدامات میں بھی ساتھ دیتے نظر آئیں گے۔ اس عبوری حکومت کے قیام کیلئے آئینی راستہ تو موجودہ اسمبلیوں کو تحلیل کرکے ہی ممکن ہے اور متوقع طور پر اس طریقہ کار پر قائل کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button