ColumnNasir Sherazi

مجھے گلے سے لگالو ۔۔ ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

مجھے گلے سے لگالو

صحافی ارشد شریف کی قبر کی مٹھی ابھی سوکھی نہ تھی، اس کی قبر پر بکھرے پھول ابھی تروتازہ تھے کہ لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک ٹی وی رپورٹر اینکر لانگ مارچ میں عمران خان کے کنٹینر پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے گارڈ کے دھکا دینے پر قبر میں اتر گئی، عام صحافیوںکی زندگی ایسی ہی ہوتی ہے انہیں قدم قدم پر دھکے پڑتے ہیں پھر ایک دھکا انہیں دنیا سے آخری سفر پر روانہ کردیتا ہے۔ خاص صحافیوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا وہ وکٹ کے دونوں طرف نہیں بلکہ میدان کے چاروں طرف کھیلتا ہے اور من کی مرادیں پاتا ہے۔ کھیل کھیل کر تھک جائے تو کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں سیاسی پناہ حاصل کرکے ایک نئے کھیل کا آغاز کردیتا ہے جس میں اُسے پاکستان دشمنوں سے داد کے علاوہ مال بھی ملتا ہے۔ کنٹینر کے نیچے آکر کچلی جانے والی صدف کے اہل خانہ بتاتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کیلئے بہت کچھ کرنا چاہتی تھی جو نہ کرسکی، موت کے بعد اس کے خواب پورے ہوگئے، وفاقی اور پنجاب حکومت کی طرف سے پچاس پچاس لاکھ روپے کی امداد اور ڈی جی پی آر کے اکائونٹ سے دس لاکھ روپے کی امداد دی گئی ہے۔ یوں مرنے کے بعد صدف کروڑ پتی ہوگئی ہے لیکن مرنے کے بعد کروڑ روپے کا درخت اس کی قبر پر سایہ بھی نہ کرسکے گا، مالی امداد کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ پاکستان میں اپنی طرز کا پہلا واقعہ ہے اس سے قبل خاوند کے مرنے پر بیوہ اور بچوں کی مالی امداد کی مثالیں موجود ہیں، بیوی کی موت کے بعد خاوند اور اس کے جوان بچوں کی امداد کے بارے میں کبھی کسی نے نہ سوچا، صدف کے شوہر اور بیٹی کیلئے سرکاری ملازمت مہیا کرنے کا بھی فیصلہ ہوچکا ہے یہ بھی قابل تعریف ہے لیکن سب سے زیادہ قابل تعریف بات یہ ہے کہ مرحومہ کے اہل خانہ سے واقعہ کے ذمہ داروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج نہ کرانے اور کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی نہ کرنے کی تحریر بھی حاصل کرلی گئی ہے۔ ارشد شریف کے خاندان کی مالی امداد کیلئے سوچنے کی کسی کے پاس فرصت نہیں ہے جس کے گھر کا کوئی کفیل زندہ نہیں رہا۔ دو بیوائیں، پانچ بچے، بیوہ بھابی اور اس کے دو بچے، ان سب کا اب دنیا میں خدا کے سوا کوئی نہیں ہے۔ ارشد شریف، عمران خان کے پسندیدہ صحافی تھے۔ وہ تعزیت کیلئے اس کے گھر پہنچے لیکن نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئے انہوں نے لانگ مارچ کا آغاز ارشد کی غائبانہ نماز جنازہ سے کیا، جنازہ نہیں پڑھا۔ واقفان حال بتاتے ہیں انہیں نمازجنازہ پڑھنے سے کسی نے سختی سے منع کر رکھا ہے، منع کرنے والوں کا عقیدہ ہے کہ نماز جنازہ کے دوران ملک الموت وہاں موجود رہ کر نئے شکار کی تلاش میں رہتا ہے لہٰذا اس کی نظروں میں آنے سے بچنا چاہیے۔
ایک دوست سے پوچھاآپ ہر جانے انجانے کی نماز جنازہ میں شریک ہوتے ہیں، وجہ؟کہنے لگے شادی میں شرکت کرنے کیلئے دعوت نامے کی ضرورت ہوتی ہے جنازے کیلئے نہیں۔ آج ہم کسی کے جنازے میں شریک ہوں گے تو کل کوئی ہمارے جنازے میں بھی آئے گا۔
کوئٹہ کے دو دل خراش واقعات میں ایک مرتبہ ستر افراد اور دوسری مرتبہ تیس افرادکے جنازے رکھ کر ہزارہ برادری عمران خان کی آمد کی منتظر رہی، ان کا انتظارکئی روز تک کیاگیا لیکن وہ شریک جنازہ نہ ہوئے۔ صحافی برادری کا دل جیتنے کیلئے عمران خان نے کہا ہے کہ ان کی دعا ہے انہیں بھی ارشد شریف جیسی موت نصیب ہو۔ ان کے اِس بیان سے مجھے بہت صدمہ ہوا ہے، میری اللہ سے دعا ہے کہ وہ خان صاحب کی اس دعا کو پذیرائی نہ بخشے۔ ارشد شریف بے بسی، بے کسی کی حالت میں اپنوں کے ہاتھوں قتل ہواہے۔لانگ مارچ مخالفین کہتے ہیں یہ اب شارٹ مارچ بلکہ ایوننگ واک بن گیا ہے۔ خان خود بارہ گھنٹے کی نیند پوری کرکے آتا ہے، فیس سیونگ کیلئے رات کو پائوں اور دن میں حکومت کا گریبان پکڑا جاتا ہے۔ شاعر کہتا ہے بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ مارچ میں تیسری ہلاکت کی اطلاع آرہی ہے۔
عمران خان کے چاہنے والے ان کے تازہ ترین بیان سے بے حد پریشان ہیں جس کے مطابق اسلام آباد میں پندرہ لاکھ افراد اکٹھے ہونے کا بتایا گیا ہے۔ صوبہ خیبر ، پنجاب، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر یعنی چار حکومتیں، کراچی سے خیبر تک چاہنے والے، قومی اسمبلی کی نو نشستوں پر تازہ ترین جیت پھر بھی صرف پندرہ لاکھ، نہیں نہیں، یہ نہیں ہوسکتا۔ یہ مجمع کم ازکم پندرہ کروڑ کا ہونا چاہیے۔ ایک خوشخبری سنائی گئی ہے کہ اسلام آباد میں مارچ اور دھرنے کو کچلنے والے دھرنے کا حصہ بن جائیں گے۔ اطلاعات ہیں کہ قانون اور حکومت عمل داری برقرار رکھنے کیلئے قریباً پچاس ہزار افراد تعینات کیے جائیں گے، میرے خیال میں مارچ کیلئے راولپنڈی یا اسلام آباد پہنچے سے قبل حکومت کو ان سب کا میڈیکل چیک اپ کرالینا چاہیے، ایسا نہ ہو گھمسان کا رن پڑے تو سپاہ بندوقیں سیدھی کرنے کی بجائے تالیاں پیٹنے لگ جائے۔ رحیم یار خان پولیس انتظامیہ نے ایک اہلکار کو ٹریننگ کیلئے لاہور بھیجا، ٹریننگ شروع ہوئی تو معلوم ہوا مذکورہ اہلکار خواجہ سرا ہے، اس کا نام صبیحہ ہے۔
مارچ جس رفتار سے جاری ہے اِس سے زیادہ تیز رفتاری سے مارچ رچانے والوں کے مطالبات بدل رہے ہیں، پہلے فوری انتخابات اور آرمی چیف کے تقرر میں مشاورت سرفہرست تھی، جن مقدمات میں نااہلی کا امکان ہے، ان کا التوا بھی مانگا گیا، مذاکرات حکومت سے نہیں بلکہ ان سے کرنے پر زور رہا کہ جو ماضی میں انہیں اقتدار میں لائے تھے، اب مطالبات میں کمی آگئی ہے، جدت اور شدت نہ ہونے کے برابر ہے، اب صرف ایک مطالبہ ہے کہ جسے وہ پسند نہیں کرتے اُسے آرمی چیف نہ بنائیں ان کے علاوہ جسے چاہیں اس منصب پر فائز کردیں، یہ بیان بھی اسی تناظر میں دیاگیا کہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کوئی بھی آرمی چیف آجائے، خان کا خیال ہے ان کی ناپسند کے حق میں فیصلہ ہوگیا تو پھر وہ آئندہ انتخاب نہیں جیت سکیں گے، کوئی ان کا ہاتھ تھامنے والا نہ ہوگا، حالانکہ ایسا ہے نہیں، کوئی بھی شخصیت کسی کی بھی پسندیدہ ہوسکتی ہے لیکن عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ پاکستان اور پاکستانی فوج کے ساتھ ساتھ اہل پاکستان کا آرمی چیف ہوتا ہے۔ اس کی ترجیح اول ہمیشہ یہی ہوتے ہیں کیونکہ دفاع پاکستان انہی کی ذمہ داری ہے۔
مارچ کی رفتار کو سست سے مزید سست کرنے کے پیچھے یہی خیال کارفرما ہے، اگر خان صاحب کی امید برآئی تو دھرنا اور پھر عظیم الشان کھڑاک کریں گے اور اہم ترین انتخاب ان کی سوچوں کے برعکس ہوا تو پھر عزت بچانے کیلئے وہ اپنا آخری کارڈ کھیلیں گے اور جہاں جہاں ان کی حکومت ہے، وہ صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کرکے انتخابات کی راہ ہموار کرنے کیلئے وفاقی حکومت کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پنجاب اور خیبر کی صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے بعد یہاں عبوری حکومتیں یا گورنر راج لگ جائے، ملک کی اقتصادی صورت حال فوری انتخابات کی متحمل نہیں ہوسکتی، فوری انتخابات کا مطلب ملک کو سٹینڈ سٹل پر چھ ماہ کیلئے ڈالنا ہوگا جو اسے سیدھا ڈیفالٹ کی طرف لے جائے گا۔
عمران خان کی طرف سے’’ مجھے گلے لگالو‘‘ مشن پر بھرپور توجہ دی جارہی ہے، مگر اب ایسا ناممکنات میں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button