Editorial

جلد انتخابات مطالبہ پر حکومتی اتحاد کاموقف

 

حکومت کی اتحادی جماعتوں نے مشترکہ طور پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا الیکشن جلد کرانے کا مطالبہ دوٹوک طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں انتخابات کب ہونے ہیں، اس کا فیصلہ حکومتی اتحادی جماعتیں کریں گی، کسی جتھے کو طاقت کی بنیاد پر فیصلہ مسلط کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، قانون ہاتھ میں لینے والوں کو آئین اور قانون کے مطابق نمٹیں گے۔بیان میں یہ بھی واضح کیا گیاکہ ملک کی معیشت اور سیلاب متاثرین کی بحالی اس وقت اولین قومی ترجیح ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجائے گا۔ حکومت، اداروں اور عوام کا اتفاق ہے کہ سیاسی عدم استحکام پیداکرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جبکہ معیشت کو پٹڑی سے اتارنے اور وسائل کی متاثرین سیلاب تک رسائی کے عمل کو کسی صورت متاثر نہیں ہونے دیا جائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پریس کانفرنس میں واضح طور پر کہا ہے کہ لانگ مارچ اکتوبر سے آگے نہیں جائے گااب بھی وقت ہے فیصلہ ساز ملک کی خاطر انتخابات کا اعلان کر دیں،یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہو گاپھر سنبھالا نہیں جائے گا۔چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا مطالبہ اور اِسے مسترد کیا جانا ظاہر کرتا ہے کہ ملک میں جو جیسے چل رہا ہے وہ تب تک ویساہی چلتا رہے گا جب تک حکمران اتحاد انتخابات کا اعلان نہیں کرتا اِس دوران البتہ ہمیں پی ٹی آئی کا لانگ مارچ بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے جیسا کہ عمران خان نے کہہ بھی دیا ہے کہ رواں ماہ ہی لانگ مارچ ہوگا، چونکہ وفاقی دار الحکومت کے اطراف، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں ہیں اِس لیے مارچ کے شرکا کو پچیس مئی کی طرح اسلام آباد کے داخلی راستوں تک پہنچنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور جیسا کہ عمران خان نے بھی کہا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہوگا پھر سنبھالا نہیں جائے گا، بلاشبہ ایسا ہونا ہر پاکستانی کے لیے تشویش ناک ہوگا کہ ہجوم کسی کے قابو میں نہیں رہتا جیسا کہ متعدد بار ہم لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنوں کے دوران دیکھ بھی چکے ہیں۔ اتوار کے روز ہونے والے ضمنی انتخابات میں چھ نشستوں پر کامیابی کے بعد عمران خان زیادہ پرجوش نظر آتے ہیں اور بلاشبہ وہ ملک بھر میں رابطہ عوام مہم کے ذریعے نہ صرف اپنا بیانیہ عوام کے سامنے لارہے ہیں بلکہ ان کے مقامی رہنما اور کارکنان بھی چارج ہورہے ہیں، اِس لیے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کا اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہنا آنے والے دنوں میں کیا کیا مناظر دکھائے گااِس کا تصور کرنا بھی ممکن نہیں۔حکومت کی اتحادی جماعتوں کے مشترکہ بیان میں کہاگیا کہ وزیراعظم پاکستان قانون کے مطابق
آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ کریں گے، فارن فنڈڈ فتنے کی دھونس، دھمکی اور ڈکٹیشن پر نہیں ہوگی۔ بیان میں کہاگیا کہ آرمی چیف، حساس اداروں کی قیادت، افسران، چیف الیکشن کمشنر سمیت دیگر کو نشانہ بنانے کا مقصد بلیک میلنگ ہے جو قطعاً سیاسی رویہ نہیں بلکہ سازش کا حصہ ہے جسے کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ آئین اور قانون میں واضح ہے کہ آرمی چیف سمیت دیگر عہدوں پر تقرری وزریراعظم کا دستوری اختیار ہے۔اقتدار سے محروم شخص قومی اداروں کو ایک سوچے سمجھے ایجنڈے کے تحت نشانہ بنا رہا ہے۔ پاک فوج کے شہدا کے خلاف غلیظ مہم، فوج میں بغاوت کے بیانات جیسے اقدامات ملک دشمنی کے مترادف ہیں جن سے آئین اور قانون کے مطابق نمٹاجائے گا۔ غنڈہ گردی اور دھونس کی بنیاد پر آئین، جمہوریت اور نظام کوغلام نہیں بننے دیاجائے گا۔ بیان میں یہ بھی واضح کیا گیاکہ ملک کی معیشت اور سیلاب متاثرین کی بحالی اس وقت اولین قومی ترجیح ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجائے گا۔ حکومت، اداروں اور عوام کا اتفاق ہے کہ سیاسی عدم استحکام پیداکرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جبکہ معیشت کو پٹڑی سے اتارنے اور وسائل کی متاثرین سیلاب تک رسائی کے عمل کو کسی صورت متاثر نہیں ہونے دیا جائے گا۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے معاملات اپنی جگہ لیکن درحقیقت عام پاکستان اِس سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے اور بظاہر ہر جگہ یہی سوالات اٹھتے ہیں کہ ملک سے مہنگائی، بے روزگاری اور غربت ختم کرنے کے لیے کونسے اقدامات کئے جارہے ہیں، آج ہر پاکستانی تاریخ کی سب سے زیادہ مہنگائی کا سامنا کررہا ہے، پٹرول اور بجلی آج جتنی مہنگے ہوچکے ہیں اِس کی مثال 75 سال میں نہیں ملتی، اشیا خورونوش کی قلت اور مہنگائی، عام استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں پچاس فیصد تک اضافہ غرضیکہ کوئی ایک بھی چیز ایسی نہیں جس کی قیمت پر اہل اقتدار نازاں ہوسکیں البتہ اعتراف ضرور کرسکتے ہیں کہ مہنگائی کا عروج اِس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ درحقیقت سیاسی عدم استحکام اور کھینچاتانی کی وجہ سے عوام حالات و افراد کے رحم و کرم پر ہیں اور اس کی بنیادی وجہ ہی سیاسی عدم استحکام اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش ہے، پھر پنجاب حکومت مرکز کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے جارہی ہے کہ مرکز گندم درآمد کرنے کی اجازت نہیں دے رہا اور صوبے میں گندم کی قلت پیدا ہورہی ہے، پس ایسی کون کونسی مثالیں دی جائیں جو عوام سے متعلق بے حسی اور لاتعلقی ظاہر کرتی ہیں۔ سفید پوش کہلوانے والے آج غربا اور غربت کی لکیر والے اب اِس سے بھی نیچے چلے گئے ہیں، سوال کا جواب یہی دیاجاتا ہے کہ ہم سے پہلے ذمہ دار ہیں اور وہ اُ ن سے پہلوں کو حالات و خرابی کا قصور وارٹھہراتے ہیں، عوام معاشی حالات سے، اور سیاست دان آپس میں نبرد آزما ہیں ، اِس پر تشویش ہونا فطری امر ہے، کہ بحران کم اور چھوٹے نہیں کہ چٹکی بجانے سے حل ہوجائیں اِس کے لیے سیاسی استحکام، افہام و تفہیم اور طویل عرصہ درکار ہوگا اور بظاہر کوئی قائد اِس پر متفق نظر نہیں آتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button