ColumnKashif Bashir Khan

سیاسی غبارہ .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

آج سوشل میڈیا کا دور ہےاور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ممکن نہیں اسے کراچی کے حلقہ 237 میں گزشتہ اتوار کو جو کچھ پیپلز پارٹی کے تربیت یافتہ غنڈہ نما کارکنوں نے کیا، وہ دیکھنا ہوگا کہ کیسے دن دیہاڑے عوام کے مینڈیٹ پر بزور حکومتی طاقت اور اسلحہ، ڈاکہ ڈالا گیااورچند منٹوں میں چند پولنگ سٹیشنوں پر ہزاروں جعلی ووٹ ڈلوا کر قومی اسمبلی کی ایک سیٹ پر حکیم بلوچ نامی امیدوار کو جتوا دیا گیا۔اس حلقے میں حکیم بلوچ کے صاحبزادے رکن سندھ اسمبلی سلیم بلوچ نے تحریک انصاف کے کراچی کے صدر کو پستول کے بٹ مار کر تشدد سے شدید زخمی بھی کر دیا۔الغرض کراچی میں سندھ حکومت کی بھرپور حمایت سے ضمنی انتخابات میں نہایت منظم طریقے سے دھاندلی کر کے قومی اسمبلی کی ایک نشست ہتھیا لی گئی۔ دراصل یہ ضمنی انتخابات اتحادی جماعتوں اور تحریک انصاف کے درمیان ایسا معرکہ تھا، جس نے اتحادی حکومت اور اتحادی جماعتوں کی سیاست کا جنازہ نکال کر رکھ دیا۔کراچی اور ملتان کی دو سیٹیں پیپلز پارٹی کے پاس جانے سے عمران خان کی سیاست کو تو کوئی فرق نہیں پڑا لیکن نون لیگ کاقومی سیاست سے صفایا ہوتا دکھائی دیا ہے اور پیپلز پارٹی جو عرصہ دراز سے سندھ تک محدود ہو چکی ،تھی کے پاس بیان بازی کی حد تک یہ موقف آ گیا ہے کہ عمران خان کی بے پناہ مقبولیت کے سامنے نون لیگ، ایم کیو ایم،جمعیت علماء اسلام، اے این پی وغیرہ کی بدترین شکست کے برعکس پیپلز پارٹی نے ضمنی انتخابات میں ڈٹ کر مقابلہ کیا۔جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور ملتان کی قومی اسمبلی کی سیٹ دو روایتی خاندانوں،گیلانی اور قریشی کے درمیان مقابلہ تھا اورکراچی کی حکیم بلوچ والی سیٹ پر دنیا بھر کے سامنے ووٹ کا تقدس پامال کر کے سندھ حکومت کی مدد سے بیلٹ بکس بھرے گئے اور صوبائی الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر نے اس پر خاموشی اختیارکئےرکھے۔ پاکستان کی موجودہ شدید کشیدہ سیاسی صورتحال میں جس قسم کی پر تشدد دھاندلی کراچی میں کی گئی وہ آگ کی دبی ہوئی چنگاری کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔
اتوار کو پاکستان میں ہونے والے ضمنی انتخابات اس لحاظ سے بھی منفرد تھے کہ قومی اسمبلی کی ایک سیٹ کے سوا باقی سات سیٹوں پر تمام جماعتوں کا مقابلہ عمران خان نے تن تنہا کیا اور ایک یا دو حلقوں کے علاوہ انہوں نے کہیں انتخابی جلسے بھی کئے۔ عمران خان کی چھ قومی اسمبلی کی سیٹوں پر جیت نے نون لیگ،اے این پی، ایم کیو ایم، جمعیت علماء اسلام وغیرہ کےآبائی حلقوں سے انہیں ہرا کر ان کی سیاسی قبریں کھود دی ہیں۔مجھے یاد ہے کہ 1990 کے انتخابات میں پشاور کے حلقہ این اے 1 سے حاجی غلام احمد بلور نے محترمہ بینظیر بھٹو کو ہرا کر الیکشن کے آنے والے نتائج کے رجحان کا عندیہ دیا تھا۔اسی طرح چارسدہ جو ولی خان فیملی کا آبائی حلقہ ہے، سے ایمل ولی خان اور مولانا قاسم کی بھرپور نفرت انگیز انتخابی مہم اور مذہب کارڈ استعمال کرنے کے باوجود واضح فرق سےہارنا، آنے والے دنوں کی پاکستانی سیاست کا عندیہ دے رہا ہے۔پنجاب میں بھی قومی اسمبلی کی دو سیٹوں پر عمران خان نے نون لیگ کے دو
امیدواروں ننکانہ سےشذرہ منصب اور فیصل آباد سے عابد شیر علی کو انتخابات میں شکست دی۔ فیصل آباد میں تمام قواعدو ضوابط بالائے طاق رکھ کر وفاقی وزیر داخلہ انتخابی مہم بھی چلاتے ہوئے الیکشن کمیشن کے ضابطوں کا منہ چڑاتے رہے۔ افسوس کہ الیکشن کمیشن نے نوٹس لینے کے علاوہ کوئی کارروائی نہ کی لیکن عمران خان نے میاں نواز شریف کے قریبی عزیز عابد شیر علی کو بھی بری طرح ہرا کر نون لیگ کی سیاست کی ان کے مضبوط حلقوں سےخاتمے پر مہر ثبت کی۔ان ضمنی انتخابات کے نتائج نے مسلم لیگ نواز کے ان بلند بانگ دعووں میں سے بھی ہوا نکال دی جو ان کے زعماء کچھ عرصے سے پنجاب حکومت تبدیل کرنے کے تناظر میں دیتے چلے آرہے تھے کہ نون لیگ کے ارکان کی خالی ہوئی تین سیٹوں میں سے دو پر تحریک انصاف نے جیت حاصل کر کے وزارت اعلیٰ پنجاب کی کرسی کو نون لیگ سے بہت دور کر دیا ہے۔
عمران خان عوام،مقتدر حلقوں اور حقیقی ملکی و عالمی مبصروں کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ عوام کی غالب اکثریت جو کچھ حلقوں کے مطابق قریباً 75 فیصدہے، تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ ہیں۔پاکستان کی تاریخ کے یہ واحد ضمنی انتخابات تھے جن میں عوام کو پیشگی معلوم تھا کہ جس امیدوار کو وہ جتوانے جا رہے ہیں وہ اسمبلی میں نہیں جائے گا،گویا یہ ضمنی انتخابات 13 متحدہ اتحادی جماعتوں،مقتدر حلقوں اور عمران خان کے درمیان تھا۔پاکستان کی قریباً تمام سیاسی جماعتوں کے خلاف عوام کا ووٹ کاسٹ کرنا ان روایتی سیاسی جماعتوں کی سیاسی شکست و موت کے مترادف ہے اور ان ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد حکومت کی 2018 میں قومی اسمبلی میں کم مارجن سے جیتی ہوئی تحریک انصاف کی نشستوں پر استعفیٰ جو الیکشن کمیشن سے ملی بھگت سے قبول کئے گئے تھے پر ضمنی انتخابات جیت کر حکومت مضبوط کرنے کے تمام خواب چکنا چور ہو چکے بلکہ پیپلز پارٹی گو دھاندلی سے اس کا سیاسی فائدہ اٹھا گئی۔ ایسےبدترین عوام مخالف جذبات کے بعد اتحادی حکومت جلد الیکشن کروانے میں کبھی بھی آمادہ ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
عمران خان کی غیر معمولی عوامی مقبولیت کے باعث کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات بھی الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے ملتوی کر دیئے گئے ہیں۔ یہ التوا نشاندہی کرتا ہے کہ تمام اتحادی جماعتیں اس وقت عمران خان سے خائف ہیں، لیکن پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ کی حامل شہباز شریف حکومت، اس وقت بہت بڑی دلدل میں پھنس چکی ہے اور حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے میں بمشکل 10 ماہ رہ گئے ہیں اور بدترین معاشی حالات کےمارے عوام کو کسی بھی طرح سے اس مہنگائی اور مشکلات سے نجات دلانا اس مرکزی حکومت کے بس میں نہیں نظر آرہا،جس میں 10 اپریل کے بعد اتحادی حکومت نے پاکستان کے عوام کو پھنسایا ہے۔ضمنی انتخابات کے بعد اتحادی حکومتی وزراء کی بدزبانی اور یہ کہنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ عمران خان نے وہ سیٹیں جیتی ہیں، جو ان کے اراکین نے خالی کی تھیں۔اتحادی حکومت و جماعتیں اپنے کھودے گڑھے میں دھنسنا شروع ہوچکے ہیں کہ جیسے وہ اس اسمبلی کو 2018 میں نہیں مانتے تھے اور آج اسی میں حکومت حاصل کر کے بیٹھے ہیں ویسی ہی انہوں نے عمران خان پر اپنا ہی لگایا ہوا داغ کہ عمران خان کا مینڈیٹ جعلی تھا ضمنی انتخابات میں اپنی ہار اور عمران خان کی جیت سے دھو ڈالا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں کبھی حکومت سے نکالے جانے والے کو واپس آنے تو نہیں دیا گیالیکن 2022 میں یہ صورتحال تبدیل ہو چکی ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اور طاقتور حلقے بھی عوام پریشر اور رائے کے سامنے بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ میرا صحافتی وجدان تو یہ بھی دیکھ رہا ہے کہ اب میاں نواز شریف کے ملک واپس آنے سے بھی عمران خان کی عوام میں مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور نواز لیگ کو بڑے میاں صاحب کی وطن واپسی کے بعد بھی کسی قسم کا سیاسی وانتخابی فائدہ ہوتا نہیں دکھائی دے رہا بلکہ الٹا میاں نواز شریف کو عوام کے غم و غصے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مشہور مغربی سنگر کلف رچرڈزکا ایک مشہور گاناGolden Days Are Overیاد آرہا ہے اور زمینی حقائق تو یہ ہی بتا رہے ہیں کہ میاں نواز شریف اینڈ برادرز کے پاکستان کی سیاست اور اقتدار میںسنہرے دن گزر چکے ہیں،یہ حقیقت گو تلخ ہے لیکن عوام کی رائے کا احترام نہ کرنے کا انجام ملکی سالمیت کے تناظر میں بہت خطرناک ہو سکتا ہے کہ جو عوام بہت بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے باہر آئے ہیں وہ کسی بھی گڑبڑ یا مینڈیٹ چرانے کی کوشش پر اپنے مینڈیٹ کی حفاظت بھی کریں گے جو ملک میں شدید انارکی کی صورتحال پیدا کر سکتی ہے۔یاد رکھنا ہوگا کہ پاکستان میں ایسی کسی بھی خطرناک صورتحال کی ذمہ داری ہمیشہ عوام کا مینڈیٹ چرانے والوں کے سر ہو گی۔انتخابات جلد یا بدیر ہوں لیکن روایتی تمام سیاستدانوں کے غباروں سے عوام نے عمران خان کا ساتھ دے کر نہ صرف ہوا نکال دی ہے بلکہ لگتاایسا ہی ہے کہ انہیں بڑے بڑے سوراخ کر کے پنکچر ہی کر دیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button