ضمنی الیکشن کے مستقبل کی سیاست پر اثرات .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی
ملکی سیاست میں عمران خان کا وارد ہونا اور گذشتہ انتخابات کے نتیجہ میں ان کااقتدار آنا مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے لیے کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں تھا۔بعض حلقوںکو امید تھی عمران خان اقتدار میں نکالے جانے کے بعد خاموشی اختیار کر لیں گے ۔وہ اقتدار میں رہ کر اپنی آئینی مدت پوری کر لیتے تو شایدانہیں عوام کی طرف سے اتنی پذیرائی نہ ملتی جیسی آج مل رہی ہے۔ان کے مخالف چاہے کچھ بھی کہہ لیں ان کی تقاریر نے عوام کے ذہن بدل دیئے ہیں۔سفارتی سائفر کو ایک طرف رکھتے ہوئے ملک وقوم کو لوٹنے والوںاور نیب قوانین ترامیم کرکے اپنے خلاف مقدمات سے جان بخشی کرانے والے سیاست دانوں کے خلاف ان کے بیانے نے عوام پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔
پنجاب کے گذشتہ ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ نون کی شکست سے اضطراب تو تھاہی رہتی کسر حالیہ الیکشن نے پوری کر دی ۔ضمنی الیکشن سے حکومت کی حکمت عملی کا مقصدکسی طریقہ سے پی ٹی آئی کو شکست سے دوچار کرنا تھا۔ شاطرانہ چال چلتے ہوئے جن جن حلقوں سے پی ٹی آئی کے مستعفی ہونے والے اراکین بہت کم مارجن سے کامیاب ہوئے تھے انہی کے استعفے قبول کرکے ان حلقوں میں الیکشن کرانے کی حکمت عملی اپنا کر عمران خان کو شکست دینے کی بھرپور کوشش کی جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکی۔ حالیہ الیکشن میں قومی اسمبلی کے چھ حلقوں سے عمران خان کی کامیابی اور پنجاب کے تین حلقوں میں سے دو حلقوں میں پی ٹی آئی کی کامیابی سے مسلم لیگ نون میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ جنوبی پنجاب میںپی ٹی آئی کی پیپلز پارٹی کے امیدوار کے ہاتھوں شکست تحریک انصاف کے لیے سبق ہے۔عمران خان تحریک انصاف کے سنیئر رہنما شاہ محمود قریشی کی بیٹی کی جگہ پی ٹی آئی کے کسی کارکن کو ٹکٹ دیتے یا وہ خود اس حلقے سے امیدوار ہوتے تو پی ٹی آئی کی کامیابی یقینی تھی۔صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے ایک حلقے سے عمران خان کی ناکامی سے ایک بات واضح ہے کہ سندھ کے عوام پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو سے اب بھی والہانہ محبت رکھتے ہیں۔
جہاں تک عمران خان کے اس بیان کا تعلق ہے کہ آئندہ انتخابات میں سندھ ان کے پاس ہوگا سے ہم اس لیے اتفاق نہیں کریں گے کہ سندھ کے عوام اس جدید دور میں بھی اپنے سائیں کو ووٹ دینے کی بجائے کسی اور کوووٹ نہیں دیں گے البتہ آئندہ عام انتخابات میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین نے بیک وقت چھ نشستوں پر کامیابی کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے جو اس سے قبل کسی سیاست دان کے حصے میں نہیں آیا تھا۔ کراچی جو کبھی جماعت اسلامی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا ایم کیو ایم کے معرض وجود میں آنے سے جماعت اسلامی کی جگہ ایم کیو ایم نے لے لی۔ایم کیو ایم جو عمران خان کی حکومت میں اتحادی تھی پی ڈی ایم سے اتحاد کرنے کے بعد ان کے امیدوار کی شکست ایم کیو ایم کے لیے کسی سبق سے کم نہیں۔
خیبر پختونخوا کا شہری حلقہ جو کبھی اے این پی کاقلعہ تصور کیا جاتا تھا، کے امیدوار حاجی غلام احمد بلور کو عمران خان نے بہت بڑے مارجن سے شکست دینے کا ریکارڈ قائم کیا۔ تعجب ہے کہ غلام احمد بلور نے اپنی شکست کے بعد جو ٹویٹ کیا عمران
خان کو کوئی شکست نہیں دے سکتا لیکن کچھ ہی دیر بعد اے این پی نے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا دیا۔ درحقیقت وقت گذرنے کے ساتھ علاقائی جماعتوں کا مستقبل آنے والے وقتوں میں تاریک دکھائی دیتا ہے جب کہ قومی سطح کی جماعتوں کا مستقبل روشن نظر آرہا ہے۔
آئندہ عام انتخابات میں علاقائی جماعتوں کو عوام ووٹ دینے سے اس لیے بھی گریز کریں گے کہ ملک کے معاشی اور دیگر مسائل کا حل علاقائی جماعتوں کی بجائے قومی سطح کی جماعتوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ خیبر پختونخوا میں عوام کا ایک بڑا حلقہ مذہبی رجحان رکھتا ہے جہاں مولانا فضل الرحمان کے والد مفتی محمود اور عبدالحق حقانی جیسے مذہبی رہنمائوں کے پیروکاروں کی اچھی خاصی تعدا د جے یو آئی کے ساتھ ہے۔ حالیہ الیکشن سے ایک روز پہلے مولانا فضل الرحمن کا یہ بیان سولہ اکتوبر کو خیبر پختونخوا سے تحریک انصاف کا خاتمہ ہو جائے گا، جو غلط ثابت ہوا ہے۔ درحقیقت عشروں تک ملک پر حکمرانی کرنے والے سیاست دانوں سے عوام تنگ آچکے ہیں۔ عمران خان کے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں غریب عوام کے لیے صحت کارڈ کا اجراء کرکے بہت بڑا کام کیا ہے اسی طرح کرونا کے دوران مستحق افراد کی مالی امداد شفافیت سے کرنے کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ تاریخ گواہ جب کوئی حکومت اس طرح کے رفائے عامہ کے کام کرتی ہے حکومت ختم ہونے کے بعد ان کے مالی بدعنوانیوں کے سکینڈل منظر عام پر آجاتے ہیں لیکن عمران خان کے دور کے احساس پروگرام کا ابھی تک مالی سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی کے دور میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مالی سیکنڈل سامنے آچکے ہیں۔پروگرام کی چیئرپرسن ملک سے فرار ہو چکی ہیں ۔ضمنی الیکشن کے نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ مقتدار حلقے واقعی غیر جابندار ہو چکے ہیں ۔الیکشن میں دھاندلی کی کوئی بڑی خبر سامنے نہیں آئی ۔ الیکشن میں معمولی واقعات کا رونما ہونا کوئی بڑی بات نہیں مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ضمنی الیکشن صاف اور شفاف طریقہ سے انعقاد پذیر ہوئے ہیں۔عمران خان کا لانگ مارچ ہونے والا ہے، موجودہ حکومت کو لانے والوں کو بھی سمجھ جانا چاہیے ملک کے معاشی اورسیاسی استحکام کا حل نئے عام انتخابات میں مضمر ہے، لہٰذا ذمہ داروں کو وقت ضائع کئے بغیرملک میں عام انتخابات کا اعلان کر دینا چاہیے تاکہ ملک میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام سے نکل سکے۔ بہرکیف حالیہ انتخابی نتائج کے آنے والے انتخابات پر گہر ے اثرات مرتب ہونے کے امکانات ہیں۔پی ایم ایل نون اور پیپلز پارٹی کو اپنا ووٹ بینک بحال کرنے میں خاصا وقت درکار ہوگا۔