تھرکول بلاک ٹو منصوبے کا افتتاح

وزیراعظم شہباز شریف نے خبردار کیاہے کہ سردیوں کے لیے گیس کا انتظام نہیں ہوسکا۔گیس بہت مہنگی ہوگئی ہے، لہٰذا درآمد نہيں کرسکتے۔ وزیراعظم نے تھرکول بلاک ٹو سندھ کول مائن کمپنی کےتوسیعی منصوبے کا افتتاح کیا اور خطاب میں کہا کہ تھرمیں پیدا ہونےوالی بجلی دس روپے یونٹ ہوگی، تھر کے کوئلے سے 300 سال تک بجلی بنائی جاسکتی ہے۔گیس ہماری استطاعت سے باہر ہے، ابھی تک اس کا انتظام نہیں ہوسکااور چھ ماہ میں چوبیس ارب ڈالر توانائی پر خرچ کرچکے ہیں۔ چند روز قبل ہی وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے بھی خبردار کیا تھا کہ سردیوں میں گیس بہت کم ہوگی لہٰذا کوشش ہوگی کہ لوگوں کو ناشتے اور کھانے کے وقت گیس فراہم کرسکیں اور انہوںنے انکشاف کیا تھا کہ بولیاں طلب کرنے کے باوجود چالیس ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو میں بھی گیس نہیں مل رہی جبکہ دوسری طرف سوئی ناردرن سسٹم پر گھریلو صارفین کو 95 کروڑ مکعب فٹ یومیہ چاہیے لیکن سوئی ناردرن کے پاس سردیوں میں یومیہ صرف 68 کروڑ مکعب فٹ گیس دستیاب ہو گی اور ایسی ہی صورت حال سوئی سدرن پر ہے۔ متذکرہ صورت حال سے سردیوں میں آنے والے گیس بحران کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے اور اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت سردیوں میں گیس کی فراہمی کے لیے موثر حکمت عملی تیار کررہی ہے اور گیس کےحوالے سے پلان کا اعلان جلد کیا جائے گا۔ سب سے پہلے سی پیک بلاک ٹوکے تحت 330 میگاواٹ کے پاور پلانٹ کی بات کی جائے تو بلاشبہ تھر کول منصوبہ علاقے کی ترقی اور خوشحالی کا منصوبہ ہے اور وزیراعظم شہبازشریف نے بھی اپنے خطاب میں بتایا کہ تھر کے کوئلے سے دس روپے فی یونٹ بجلی پیدا ہوگی۔تھر میں قدرتی طور پر موجود کوئلے سے متعلق وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ تھر میں 175 ملین ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں جس سے گیس بناسکتے ہیں، آئندہ سال تک تھر کے کوئلے سے ملکی معیشت میں غیر معمولی اضافہ ہوگا، پاور پراجیکٹ میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بڑھ کر 2640 میگا واٹ ہوجائے گی اور خوش آئند ہے کہ تھرمیں بہترین معیار کے پلانٹ اور بوائلر ہیں جن کی وجہ سے یہاں آلودگی نہیں ہے اور اس منصوبے سے پاکستان کی معیشت کو فائدہ پہنچے گااور زرمبادلہ کی خطیر رقم بچ جائے گی اور تھرکے کوئلے کو تیل اور ڈیزل میں تبدیل کرنے کے حوالے سے آئندہ ہفتے اسلام آباد میں اجلاس طلب کروں گااور تمام سٹیک ہولڈر سے اِس معاملے پر مشاورت کی جائے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تھر کا کوئلہ پاکستان میں توانائی کا منظرنامہ یکسر بدل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور تھر میں کوئلے کے وسیع ذخائر ہونے کے باوجود اِن سے استفادہ نہ کیا جانا بدقسمتی ہے، کوئلے کے ذخائر سے توانائی کی ضروریات پوری کی جاسکتی تھیں لیکن اس کے باوجود دیگر
مہنگے ذرائع کا ہی استعمال جاری و ساری رکھاگیا اور آج یہی فیصلے مہنگی بجلی کی وجہ سے قوم کے گلے کا پھندا بنے ہوئے ہیں، دنیا میں کوئلے سے انتہائی محفوظ طریقہ اختیار کرکے توانائی کی ضروریات پوری کی جارہی ہیں لیکن ہم اِس معاملے میں بھی پیچھے رہے اور ان ذخائر سے توانائی کے حصول پر سنجیدگی سے غور نہ کیا حالانکہ بروقت اور درست فیصلوں کے ذریعے ایک طرف ہم انتہائی سستی بجلی پیدا کرکے عوام اور انڈسٹری کو فراہم کرسکتے تھے تو دوسری طرف یہی سستی بجلی صنعتوں کے لیے بھی کام آتی اورآج جو صنعتیں مہنگی بجلی اور مہنگی گیس کی وجہ سے تالہ بندی پر مجبور ہورہی ہیں اُنہی صنعتوں کا چوبیسوں گھنٹے پہیہ چل رہا ہوتا اور ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر روز بروز کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہوتے کیونکہ مہنگا ایندھن خریدنے پر زرمبادلہ خرچ نہیں ہونا تھا۔ بلاشبہ 330میگا واٹ کا یہ منصوبہ ترقی اورخوشحالی کا منصوبہ ہے لیکن جب تک اِس منصوبے سےپیدا ہونے والی سستی بجلی گھریلو اور صنعتی صارفین کو سستی فراہم نہ کی گئی تب تک اس کی افادیت کا عامۃ الناس کو فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ درآمدی ایندھن کے علاوہ جتنے بھی قدرتی ذرائع سے ملک میں بجلی پیدا کی جارہی ہے اِس کا ریلیف صارفین کو نہیں ملتا اور یہ سستی درآمدی مہنگے ایندھن سے تیار ہونے والی بجلی میں ہی کہیں کھو جاتی اورصارفین کو بھاری بل ادا کرنا پڑتے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک میں توانائی کی ضروریات اور خطے اور عالمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے توانائی کے بحران کے حل کے لیے حکومت کو طویل مدتی حل پر توجہ مرکوزکرنا ہوگی کیونکہ روس اور یوکرین کے درمیان طویل ہوتی جنگ کے نقصانات پوری دنیا پر ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں اس لیے ہمیں بھی قبل ازوقت توانائی کے بحران سے بچنے کے لیے متبادل ذرائع کی جانب جانا چاہیے تاکہ ہم عالمی منڈی میں ہونے والے اُتار چڑھائو سے محفوظ رہ سکیں۔ ایک اور ضروری بات کہ اِس منصوبے کو آلودگی سے بہرصورت پاک رکھا جائے تاکہ عالمی ادارے اِس منصوبے کے لیے مشکلات پیدا نہ کرسکیں کیونکہ ماحولیاتی آلودگی کے مضر اثرات کی وجہ سے ہم سیلاب سے بھی دوچار ہوئے ہیں اور عالمی سطح پر ہم نے اِس معاملے پر آواز بھی اٹھائی ہے لہٰذا لازماً آلودگی پر قابو پایا جائے اور اِس سستے اور اہم منصوبے پر اگر کوئی پراپیگنڈاکرنے کی کوشش کرتا ہے تو اُس سے بھی نمٹا جائے اور رہی گیس بحران کی بات تو ہماری یہی گذارش ہے کہ عام صارفین کو سردیوں میں گیس کی فراہمی کے لیے ایسی حکمت عملی ترتیب دی جائے جس سے لوگوں کو کھانے پکانے میں دشواری کا سامنا نہ ہو، کیونکہ سردیوں میں گیس بحران کا جتنی بار عندیہ دیا جاچکا ہے اِس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والی سردیوں میں یقیناً ماضی سے زیادہ گیس کا بحران ہوگا لیکن اِس ضمن میں گھریلو صارفین کو کھانے پینے کے اوقات کے علاوہ سستی گیس کی دستیابی کی سہولت میسر ہونی چاہیے تاکہ صارفین کو زیادہ پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔