پیپلز پارٹی ویلڈن
امتیاز عاصی
ہمارا ملک نازک دوراہے پر کھڑا ہے وطن عزیز میں آئینی ترامیم کی آڑ میں جو ناٹک رچانے کی کوشش کی جا رہی ہے اللہ نہ کرے حکومت اس میں کامیاب ہو ۔ اگر حکومت آئینی ترامیم لانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو شہریوں کی آزادیاں سلب ہو نے کے ساتھ سانحہ نو مئی کے ملزمان کے خلاف مقدمہ کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہو جائے گا ۔آمریت کی پیداوار مسلم لیگ نون نے پیپلز پارٹی جیسی جمہوری اور آئین و قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والی جماعت سے آئینی ترامیم کی آڑ میں ہاتھ کرنے کی کوشش کی جس میں حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہمیں تو سمجھ نہیں آرہی ہے آخر مسلم لیگ نون کی حکومت ملک اور عوام کے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہے۔ پہلے بات آئینی عدالت کے قیام اور ججز کی عمر پیرانہ سالی میں اضافے کی ہو رہی تھی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جو انکشاف کیا ہے اس سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں مسلم لیگ نون آئین وقانون کو پامال کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ روزنامہ جہان پاکستان میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق بلاول بھٹو نے کہا ہے حکومت آرٹیکل 8جو فوجی عدالتوںاور آرٹیکل 51جو مخصوص نشستوں بارے ہے حکومت لے آئی جس کی پیپلز پارٹی نے مخالفت کی۔ انہوں نے کہا حکومت سے کہا گیا ہے وہ آئینی ترامیم بارے جلد بازی کا مظاہر ہ نہ کرے ۔ بلاول بھٹو کا کہنا ہے مولانا فضل الرحمان آئینی عدالت اور آئینی اصلاحات بارے مان گئے تھے۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے صوبوں میں بھی وفاق کی طرح آئینی عدالتیں ہونی چاہئیں۔ عدلیہ میں تقرریوں بارے ان کا کہنا ہے اعلیٰ عدلیہ میں تقرریاں وکلا، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی کے ذریعے ہونی چاہئیں۔ جے یو آئی نے مجوزہ آئینی ترامیم بارے اپنی سفارشات تیار کر لی ہیں جو قانونی ماہرین کو بھیج دی گئیں ہیں۔ مولانا فضل الرحمان جنہیں عام طور پر سیاسی حلقوں میں ہر حکومت کا اتحادی ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے حالیہ آئینی ترامیم کے موقع پر جس بے باکی کا مظاہر ہ کیا ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں انہیں ہمیشہ شاندار الفاظ میں یاد کیا جائے گا۔ اقتدار کی طمع رکھنے والوں نے آئین اور قانون کو روندنے کی ہر ممکن کوشش کی اور کر رہے ہیں مولانا ان کے سامنے چٹان کی طرح کھڑے ہیں۔ آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے سیاست دانوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے ورنہ بعض طالع آزماء اقتدار کی خاطر ہر وہ کام کرنے کے لئے تیار ہو جائیں جس کی آئین اور قانون اجازت نہیں دیتا۔ ہمیں اس امر کا افسوس ہے وکلاء حضرات جس طرح جنرل پرویز مشرف کے دور میں کھڑے ہوئے تھے حالیہ آئینی ترامیم کے موقع پر سرد مہری کا مظاہر ہ کر رہے ہیں۔ جن ملکوں میں قانون کی بالادستی ہو وہی ملک ترقی کرتے ہیں ورنہ جمہوریت کی بجائے دور آمریت میں عوام کے بنیادی حقوق سلب کر لئے جاتے ہیں۔ مسلم لیگ نون کی حکومت محض اقتدار کی خاطر ایک جمہوری معاشرے کو آمریت کی طرف لے جانے کے لئے کوشاں ہے۔ گو آئینی ترامیم بارے قبل ازیں حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم حکومت آئندہ ہفتہ ہر صورت میں آئینی اصلاحات کا مسودہ ایوان میں لانے کی بھرپور کوشش کرے گی۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت جسے چاروں صوبوں میں عوام کی حمایت حاصل ہے حکومت کی طرف سے آئینی ترامیم کی پہلے ہی مخالف ہے۔ پی ٹی آئی اور جے یو آئی آئینی اصلاحات میں من پسند ترامیم کے خلاف ابھی تک یکسو ہیں مستقبل قریب میں اس بات کا قوی امکان ہے دونوں جماعتیں آئین کی بالادستی کے برعکس کسی غیر آئینی ترمیم کا حصہ نہیں بنیں گی۔ حکومت کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 8میں ترمیم کی منظوری کی صورت میں سانحہ نو مئی کے ملزمان جو ایک سال سے زیادہ عرصہ سے جیلوں میں ہیں ان کے خلاف مقدمہ کی سماعت فوجی عدالتوں میں ہو جاتی جنہیں چند روزہ سماعت کے بعد بڑی سے بڑی سزا دیئے جانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم حکومت کا حصہ تھی اور موجودہ دور میں حکومت کے ساتھ ہے۔ وفاقی میں وزارتیں نہ لینے کے باوجود حکومت کی اتحادی ضرور ہے لیکن آئینی اصلاحات کی آڑ میں حکومت نے پیپلز پارٹی سے ہاتھ کرنے کی کوشش کی جسے ناکام بنا دیا گیا ہے۔ اقتدار کی ہوس نے سیاسی رہنمائوں کو عقل صمیم سے خالی کر دیا ہے۔ بھلا سوچنے کی بات ہے مسلم لیگ نون کے رہنمائوں کو سمجھ نہیں آرہی ہے وہ آئین کے ساتھ جو کھلواڑ کرنے کی طرف کوشاں ہیں مستقل قریب میں انہیں بھی مشکلات سے دوچار ہونا پڑے ۔ بھٹو کی پارٹی کو بہت جلد یہ بات سمجھ میں آگئی ہے مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری کے بعد آئندہ انہیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ نواز شریف کی پارٹی پی ٹی آئی کا راستہ روکنے کی ہر اس اقدام کی حمایتی ہے جس میں کسی نہ کسی طریقہ سے عمران خان کو ملکی سیاست سے باہر رکھا جا سکے۔ حقیقت تو یہ ہے عمران خان نے کئی عشروں کی مسلم لیگ نون کی اپنے صوبے میں اجارہ داری کا خاتمہ کر دیا ہے۔ پنجاب کو مسلم لیگ نون کا قلعہ سمجھنے والوں کو ضمنی الیکشن میں اپنی مقبولیت کا اندازہ ہو گیا تھا تاہم اس کے باوجود مسلم لیگ نون صوبے پر اپنی اجارہ داری کی دعویٰ دار ہے۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا آئینی ترامیم اور خصوصا فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت کرنے کی بات ہے پیپلز پارٹی کبھی فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت نہیں کر سکتی۔ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے یہ فوجی عدالتیں تھیں جنہوں نے بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنمائوں اور صحافیوں کو کوڑے مارنے کا حکم دیا تھا۔ ہمیں یاد ہے ممتاز صحافی ناصر زیدی، خاور نعیم ہاشمی اور پیپلز پارٹی کے سنیئر رہنما جہانگیر بد ر کو کوڑے مارے گئے تھے۔ پیپلز پارٹی آئین میں فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کرتی ہے تو اس میں پیپلز پارٹی کا اپنا مفاد ہے پیپلز پارٹی کے جن جیالوں کو فوجی عدالتوں کے حکم پر کوڑے مارے گئے ان میں بہت سے ابھی زندہ ہیں۔ ہمیں نہیں لگتا حکومت آئینی ترامیم کے معاملے میں اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکے گی لہذا اس موقع پر ہم پیپلز پارٹی کے کردار کو سرائے بغیر نہیں رہ سکتے۔