بلاول کے نئے قدر دان
تحریر : روشن لعل
آخر کار، پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کو بھی میڈیا میں قدردان مل ہی گئے ۔ بلاول کو میدان سیاست میں قدم رکھے تقریباً 16برس ہونے کو ہیں۔ ان 16برسوں میں بلاول نے شعوری ارتقا کی منزلیں طے کرتے ہوئے کئی مرتبہ قابل قدر کردار اور کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن حالیہ دنوں میں بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کے بعد میڈیا کے کچھ لوگوں نے انہیں کھلے دل سے جو خراج تحسین پیش کیا وہ قبل ازیں بہت کم دیکھنے میں آیا۔
بلاول اس وقت 36برس کے ہو چکے ہیں۔ اپنی ماں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جب انہوں نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے عملی سیاست کا آغاز کیا تو اس وقت ان کی عمر صرف بیس برس تھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں جدید تاریخ اور سیاسیات کا طالب علم ہونے کے باوجود ان کی سیاسی سوجھ بوجھ اتنی ہی تھی جتنی ایک بیس برس کے نوجوان کی زیادہ سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ ملک کے سیاسی منظر پر نمودار ہونے کے بعد بلاول نے اپنی شہید والدہ کی جدوجہد کو وہاں سے آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا جہاں ان کی زندگی اور جدوجہد کا سفر انہیں قتل کرکے ختم کر دیا گیا تھا۔ بیس برس کے بلاول نے جس جدوجہد کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اس کے مطابق نہ تو ان کے پاس اپنی ماں جیسا تجربہ اور نہ ہی سیاسی فہم تھا۔ شاید دوسروں سے زیادہ بلاول کو اس بات کا ادراک تھا کہ اگر انہوں نے ملک میں بے نظیر بھٹو شہید کی طرح عوام دوست معاشی پالیسیوں کے نفاذ، جمہوریت کے استحکام، پارلیمنٹ کی بالادستی اور اداروں کے مابین متوازن ورکنگ ریلیشن قائم کرنے کی جدوجہد کرنی ہے تو انہیں اپنے سیاسی فہم و شعور کو اس حد تک کشادہ کرنا ہوگا کہ تجربے کی کمی ان کے آڑے نہ آئے۔
سال 2012میں آکسفورڈ سے اپنی ڈگری مکمل کرنے تک بلاول کی سیاسی سرگرمیاں ہر سال اپنی والدہ کی برسی میں شرکت کرنے اور وہاں تقریر کرنے تک محدود رہیں۔ اپنی والدہ کی برسی کے مواقع پر کی گئی تقریروں میں بلاول نہ صرف دہشت گردی کی مذمت کرتے بلکہ کھل کر دہشت گردوں کو للکارتے بھی رہے۔ بلاول کی باتوں پر توجہ دینے کی بجائے ان کے طرز بیان کو موضوع بنا کر ا ن دنوں کئی لوگ یہ خیال ظاہر کیا کرتے تھے کہ وہ کبھی بھی اپنی والدہ اور نانا کی طرح لوگوں پر سحر طاری کرنے والے مقرر نہیں بن پائیں گے۔ بلاول کے لیے اس طرح کے فتوے صرف ان کے انداز بیاں کو دیکھ کر نہیں بلکہ تعصب رکھنے کی وجہ سے بھی جاری کیے جاتے تھی۔ بلاول کے لیے یہ تعصب اس وقت واضح طور پر نظر آیا جب انہوں نے دہشت گردوں کی دھمکیوں کے توڑ کے طور پر نوجوانوں کو ثقافتی سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کی کوششیں شروع کیں اور اس مقصد کے لیے سندھ میں ایک ثقافتی فیسٹیول منعقد کرنے کا پروگرام بنایا۔
بلاول بھٹو زرداری نے 22جنوری 2014کو اعلان کیا کہ یکم فروری 2014سے اگلے 15روز تک صوبے میں سندھ ثقافتی فیسٹیول منایا جائے گا۔ اس اعلان میں یہ بھی کہا گیا کہ فیسٹیول کا آغاز سندھ کے قدیم تاریخی شہر موئن جو دڑو میں منعقدہ ایک تقریب سے ہو گا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی موئن جو دڑو میں سندھ فیسٹیول کی افتتاحی تقریب کے لیے عارضی سٹیج کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔ موئن جو دڑو میں سندھ ثقافتی فیسٹیول کا اعلان کرنے کے بعد بلاول کو یہ اندازہ ہوا کہ پاکستان میں ان کا سیاسی میدان میں متحرک ہونا یہاں کے مذہبی، سیاسی، معاشی ، دفاعی اور میڈیائی ٹھیکیداروں کو کس قدر گراں گزرا ہے اور وہ بلاول کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں۔ بلاول نے جیسے ہی سندھ ثقافتی فیسٹیول منانے کا اعلان کیا ، میڈیا پر اچانک یہ خبریں نشر ہونا شروع ہو گئیں کہ سندھ فیسٹیول کے افتتاح کے سلسلے میں سٹیج کی تیاری اور پھر وہاں منعقدہ تقریب میں لوگوں کی شرکت سے موئن جو دڑو کا قدیم ثقافتی ورثہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔ کسی ٹی وی چینل نے یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اس طرح کی خبر نشر کرنے سے قبل انہوں نے آثار قدیمہ کے کس ماہر کی رائے لی ہے۔ کسی ماہر کی رائے لیے بغیر ہی ٹی وی چینلوںپر موئن جو دڑو کی تباہی کا خطرہ ظاہر کرنے والے خواتین و حضرات نے جس حد تک ممکن تھا طنزیہ انداز میں اس طرح کی خبریں نشر کیں ۔ یہ خبریں ٹی وی چینلوں پر نشر ہونے کی دیر تھی کہ دو عدد وکیلوں نے سندھ ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کردی جس میں سندھ فیسٹیول کی تیاری کے سلسلہ میں سٹیج بنانے کے خلاف چیف جسٹس کو از خود نوٹس لینے کا کہا گیا تھا۔ اس درخواست پر کاروائی کرتے ہوئے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے سندھ فیسٹیول کے خلاف کوئی حکم امتناعی تو جاری نہ کیا لیکن یہ ضرور کہہ دیا کہ سندھ ثقافتی فیسٹیول کی دوران اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ موئن جو دڑو کے آثار قدیمہ کی تاریخی حیثیت متاثر نہ ہو۔ اس کے بعد بھی بلاول کے منعقد کردہ سندھ فیسٹیول پر بے جا تنقید کے وار کیے جاتے رہے لیکن یہ فیسٹیول کامیابی سے منعقد کر لیا گیا اور بلاول فیسٹیول کے دوران کی گئی تقریروں میں دہشت گردوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ سندھ فیسٹیول کا کامیابی سے انعقاد، بلاول سے تعصب رکھنے والوں کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ بلاول کے مخالفوں نے پہلے تو یہ کہا کہ موئن جو دڑو میں ثقافتی میلے کا انعقاد اس ثقافتی ورثے کو تباہ کر دے گا لیکن جب میلہ منعقد ہو چکا تو کہا گیا کہ ناچ گانا ہماری ثقافت کیسے ہو سکتا ہے۔
بلاول کے سیاست میں متحرک ہونے پر ان کی حوصلہ شکنی کا جو سلسلہ سندھ کلچرل فیسٹیول کے انعقاد کے بعد شروع ہوا وہ کبھی رک نہ سکا۔ بلاول کے لب و لہجے کا مذاق اڑانے والوں نے اپنی تمام تر توجہ ان کو تنقید کا نشانہ بنانے پر مرکوز کیے رکھی ۔ اس دوران بلاول نے ورلڈ اکنامک فورم کی دعوت پر ڈیوس میں منعقدہ اس کی سالانہ کانفرنس میں شرکت کی اور ایک مدبر سیاستدان کے طور پر اس طرح ا پنے خیالات کا اظہار کیا کہ انڈین میڈیا بھی ان کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا لیکن پاکستانی میڈیا کے بڑے بڑے نام ان کے لیے زیادہ تر سوتیلی ماں جیسے رویے کا مظاہرہ کرتے ہی نظر آئے۔ بلاول نے جب مختصر ترین عرصہ کے لیے پاکستان کے وزیر خارجہ بنے تو انہوں نے فارن سروس میں پچاس سال سے زیادہ عرصہ کا تجربہ رکھنے والے بھارت کے جے شنکر کو اسی کے لب و لہجے میں جواب دیتے ہوئے پاکستان کے مفادات کا بہترین دفاع کیا۔ بلاول کی اس طرح کی کارکردگی کے باوجود ٹی وی چینلوں پر نام نہاد نجومی خواتین کے ذریعے یہ پیش گوئیاں کی جاتی رہیں کہ بلاول کا سیاست میں کوئی مستقبل نہیں ہے۔
بلاول نے بلوچستان بار ایسوسی ایشن سے خطاب کے دوران اپنے موقف کا جس طرح مدلل اظہار کیا اس کے بعد وہ لوگ بھی اس کی قدردانی مجبور ہو گئے ہیں جو قبل ازیں ان کی قابل تحسین کارکردگی کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتے رہے ۔