ColumnImtiaz Aasi

نواز مذاکرات کے حامی، خواجہ آصف مخالف

امتیاز عاصی
ہم عجیب ماحول میں رہ رہے ہیں سیاسی رہنما کسی ایک نکتے پر یکجا نہیں ہوتے۔ ملک کے معاشی اور سیاسی حالات کے تناظر میں تمام سیاسی جماعتوں میں مذاکرات وقت کی ضرورت ہے ؟ باوجود اس کے ہمارا ملک سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے سیاسی رہنما طرح طرح کی بولیاں بول رہے ہیں۔ گو پی ٹی آئی حکومت سے بات چیت کے لئے تیار نہیں۔ مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان ڈائیلاگ کے حامی ہیں انہی کی جماعت کے وفاقی وزیر خواجہ آصف پی ٹی آئی سے مذاکرات کے مخالف ہیں اور کچھ وزراء محمود اچکزائی سے مذاکرات کے حامی ہیں جو اس امر کا غماز ہے مسلم لیگ نون کے رہنمائوں میں ہم آہنگی نہیں۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات رئوف حسن اسٹبلشمنٹ سے بات چیت کے سلسلے میں پر امید ہیں۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کے موقف کی بات ہے چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی پی ٹی آئی سے بات چیت کے حامی ہیں۔ سیاست دانوں کا وتیرہ رہا ہے وقت پڑنے پر پائوں پکڑنے سے گریز نہیں کرتے ۔ حکومت کو قانون سازی کے لئے جو مشکلات پیش آرہی ہیں جے یو آئی سینیٹ میں حکومت کا ساتھ دیتی ہے تو قانون سازی ممکن ورنہ حکومت کے لئے مشکلات ہیں۔ جے یو آئی کے رہنما حافظ حمداللہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے جے یو آئی نہ حکومت کا حصہ بنے گی نہ سینٹ میں ساتھ دے گی جس سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا مولانا اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ایوان بالا میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے پی ٹی آئی سے مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں حکومت کے پائوں تلے زمین نکل سکتی ہے۔ کئی ماہ گزرنے کے باوجود حکومت ڈلیور نہیں کر سکی ہے نہ بیرونی سرمایہ کاری آئی ہے نہ معیشت کو سنبھالا ملا۔ درحقیقت مسلم لیگ نون کی حکومت ملکی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے انہیں خدشہ ہے پی ٹی آئی اور طاقت ور حلقوں کے مابین مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں حکومت کی چھٹی ہو جائے گی۔ عجیب تماشا ہے قائمہ کمیٹی نے آئی پی پیز مالکان کو طلب کیا تو حکومت نے انہیں بلانے سے انکار کر دیا۔ بدقسمتی سے ہمارا ملک دہشت گردی کے گرداب میں پھنسا ہے سیاسی رہنمائوں کو ذاتی مفادات کی فکر ہے۔ حیرت ہے جو ملک ہم سے بعد میں آزاد ہوئے ان کا شمار ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے اور ہم معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں ملکی ترقی اور آئین کی بالادستی کے لئے اتفاق رائے ہوتا تو ہمارے ملک کا یہ حال نہیں ہوتا۔ ہمسایہ ملک افغانستان عشروں جنگ و جدل کا شکار رہا اسے امریکی پابندیوں کا بھی سامنا ہے اس کے باوجود ان کی معاشی حالت ہم سے بہتر ہے۔ روزمرہ کی اشیاء ضرورت پاکستان کے مقابلے میں سستی ہیں ان کی کرنسی مستحکم ہے کرپشن میں بہت حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے ہمارا ملک معاشی بحران کا شکار ہے؟ دراصل حکومت اپنے اخراجات کم کرنے کو تیار نہیں ۔ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے غریب عوام کو ہوشربا مہنگائی کا سامنا ہے حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ نون کے وزراء سے کوئی پوچھے پی ٹی آئی سے بات چیت کرنے میں کون سا امر مانع ہے؟ عمران خان کی جماعت ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے جسے عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے اس کے برعکس پیپلز پارٹی اور پی ایم ایل نون سے عوام عاجز آئے ہوئے ہیں۔ دونوں جماعتوں نے الیکشن میں اپنی مقبولیت کا اندازہ لگا لیا ہے ۔ فارم 47میں مبینہ ردوبدل کرکے اقتدار میں آنے والوں کو عوام کے مفادات کی بجائے ذاتی مفاد عزیز ہیں۔ وزیراعظم کا دعویٰ ہے مہنگائی کم ہو رہی ہے حالانکہ مہنگائی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ غریب عوام دو وقت کی روٹی کے لئے ترس رہے ہیں، ایسے میں وزیراعظم کا بیان مہنگائی کم ہوئی ہے غریب عوام کے زخموں پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے۔ حکومت معاشی حالات کی بہتری کے لئے قومی اداروں کو نجی شعبے میں دینے کی طرف گامزن ہے۔ پی آئی اے اور پاکستان سٹیل ملز کی تباہ کاریوں میں کس کا ہاتھ ہے۔ جن سرکاری اداروں میں ملازمین کے لئے مراعات میں تفاوت ہو ایسے اداروں اور سیاسی بھرتی ہو ان اداروں کا حال پی آئی اے اور سٹیل ملز جیسا ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے اپنے اپنے ادوار میں من پسند کارکنوں کو میرٹ سے ہٹ کر ملازمتیں دیں جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ نیشنل فلیگ کیریئر ( پی آئی اے) دوسرے ملکوں کی ایئر لائنز کو تربیت دیتی تھی انہی ملکوں کی ایئر لائنز کا شمار دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں ہوتا ہے جبکہ ہماری قومی ایئر لائنز کو حکومت سے ہر سال بیل آئوٹ پیکیج لینا پڑتا ہے۔ حکومت کی بدحواسی کا یہ عالم ہے کبھی یوٹیلیٹی سٹورز کو ختم کرنے کا اعلان کرتی ہے ملازمین سراپا احتجاج بنتے ہیں تو فیصلہ واپس لینا پڑتا ہے۔ اگر کسی محکمہ کو ختم کرنا مطلوب ہو تو وہاں کام کرنے والے ملازمین کو دوسرے محکموں میں کھپانے کا انتظام ہونا چاہیے تھا۔ حکومت پر عمران خان اور اس کی جماعت سوار ہے۔ عمران خان جیل میں ہے حکومت اس کی جماعت سے خائف ہے۔ بھلا حکمرانوں سے کوئی پوچھے عوام کی آواز کب تک دبائے رکھو گے آخر ایک نہ ایک دن لاوا پھٹے گا۔ پی ٹی آئی جلسہ کر لے کون سی قیامت آجائے گی زیادہ سے زیادہ حکومت کے خلاف تقاریر ہوں گی تو کیا حکومت گر جائے گی۔ حکمرانوں میں برداشت کا مادہ نہیں۔ حقیقت میں وہ جمہوری نہیں بلکہ آمریت کی پیداوار ہیں۔ وہ جمہوریت کی پیداوار ہوتے تو پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے دیتے۔ دیکھا جائے تو ملک کو آمریت کی پیداوار سیاست دانوں نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور ہم نے دیکھا ہے وہ تختہ دار پر چڑھ گیا بھٹو کی راست بازی پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا جب کہ آمریت کی پیداوار سیاست دانوں نے مبینہ کرپشن کے ریکارڈ قائم کئے۔ جمہوری حکومت کا نیا کارنامہ سامنے آیا ہے اسلام آباد کی حدود میں بغیر اجازت جلسہ کرنے اور شرکت کرنے والوں کو تین سال کی سزا ہو سکے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button