ڈرو جیسے ڈرنے کا حکم ہے
تجمل حسین ہاشمی
اللہ پاک فرماتے ہیں: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم پر اسلام ہی کی حالت میں موت آنی چاہئے، سب ملکر اللہ کی رسی کو تھام لو، پھوٹ نہ پیدا کرو اور اپنے اللہ کے اس انعام کو یاد کرو کہ تم آپس میں دشمن تھے، پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے کرم سے بھائی بھائی بن گئے، نیز تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے نکالا، اللہ تعالیٰ اسی طرح تم لوگوں کو احکام بتاتا رہتا ہے، تاکہ تم ہدایت پر قائم رہو۔ (سورۃ آلِ عمران: 102-103) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، لہٰذا اپنے دو بھائیوں کے درمیان میل ملاپ کرا دیا کرو۔ (سورۃ الحجرات: 10) یہ نہایت ہی اہم فریضہ ہے، حضرت ابودردا سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں روزہ، صدقہ اور زکوٰۃ سے بھی افضل چیز بتائوں؟ ہم لوگوں نے عرض کیا کیوں نہیں؟ حضور ﷺ نے فرمایا وہ ہے باہمی خلش کو دور کرنا۔ موجودہ دور میں اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ قرآن پاک اور سنت رسول اللہﷺ نے اتحاد، صلح جوئی کی تلقین فرمائی ہے۔ دنیا میں اختلاف و انتشار کی وجہ سے جو حالات ہیں وہ تمام ممالک کیلئے امتحان ہیں، مسلمانوں کو عدم اتفاق کی وجہ سے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ہم مسلمان ضرور ہیں لیکن احکامات خداوندی کی تکمیل سے دور ہیں۔ تعلیم قرآن و سنت نبویﷺ سے ہم بہت دور ہیں، مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد و اتفاق باقی نہیں رہا، ہم مسلکی و جزوی اختلافات میں تقسیم ہیں، ہم سیاسی و مذہبی انتشار و خلفشار کی وجہ سے دلوں میں نفرت رکھتے ہیں۔ نفرت کو کم کرنیوالے خود نفرت کا شکار ہیں۔ وہ نفرت مزید قوم کو دھکیل رہے ہیں۔ جدید دور میں سیاسی کشمکش اور دہشت گردی نے ملک کو کمزور کر دیا ہے۔ معاشی کمزوری قوم کو غلام بنا رہی ہے۔ اتحاد و اتفاق کا دامن معاشرہ سے ختم ہوتا جارہا ہے، ہم ادب و احترام کو بھول گئے ہیں، جس سے تنزلی، کشکول ہمارا مقدر ٹھہرے، مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ اتحاد و اتفاق کا درس دیا ہے، دین اسلام میں اختلاف رائے جہاں ممدوح ہے، وہی لسانیت اور علاقائیت کی بنیاد پر اختلاف کو ناپسند کیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے، اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو اور
آپس میں اختلاف مت کرو، کہ تم کمزور ہو جائو اور تمہاری ہوا نکل جائے، اور صبر کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے”۔ آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں اختلاف اور تفرقہ بازی سے روکا ہے، نیز یہ بھی بتلا دیا کہ اگر تم نے آپس میں اختلاف کیا تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اور وہ نتیجہ مسلمانوں کا کمزور ہوجانا ہے، تاریخ شاہد ہے کہ قوموں کا عروج و زوال، ترقی، تنزلی اور خوشحالی میں اتفاق و اتحاد، باہمی اخوت و ہمدردی اور آپسی اختلافات و انتشار اور تفرقہ بازی، اور باہمی نفرت و عداوت بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں، جیسے ہی مسلمانوں نے اتفاق و اتحاد کے دامن کو چھوڑ کر اختلاف و انتشار میں لگایا، تب سے شکست اور ناکامی اور مسائل ان کا مقدر بن گئے۔ امت مسلمہ کے درمیان اتفاق و اتحاد کی دو مضبوط بنیادیں ہیں، حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا میں اپنے بعد تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، جن کو مضبوطی سے پکڑ لو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت، بے شک اتحاد و اتفاق کسی بھی
قوم کی ترقی و اعلیٰ اہداف کے حاصل کرنے اور سربلندی و سرخروئی کیلئے ضروری ہے، اجتماعیت اسلام کی روح ہے، اتحاد اور معاشرتی انصاف کے بغیر مسلمان اسی طرح ہے جیسا کہ بغیر روح کے جسم، رسول اکرمﷺ کو اتحاد امت کا ہمیشہ بے حد احساس رہتا تھا، اتحاد کیلئے ضروری ہے کہ عصبیت سے بچا جائے۔ علاقہ، نسل، رنگ، ملک، قوم، وطن، زبان، خاندان، حسب نسب کی بنیاد پر گروہ بندی ہی عصبیت ہے ۔ ا گر کسی فرد یا گروہ کی کسی تقریر، تحریر یا عمل سے عصبیت کی بو آئے تو اسے فوری طور پر روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ ایک فرد کی شورش بھی بڑی خطرناک ہے، اس لئے ضروری ہے کہ عصبیت سے پوری طرح بچا جائے، ہر حال میں اتحاد کو قائم و دائم رکھا جائے۔ کیونکہ اس وقت اجتماعی ضرورت ہے جس کے بغیر کسی بھی خاندان و قوم کی بقا و ترقی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اتحاد کی راہ کی سب سے بڑی رکا وٹ عصبیت ہے، یہ عقل کو مائوف اور مفلوج کرتی ہے، یہ تفریق اور نفرتیں پیدا کرتی ہے، اس کی پکار جاہلیت کی پکار ہے۔عصبیت اتحاد کی ضد ہے، جہاں عصبیت ہوگی، وہاں اتحاد قائم نہیں رہ سکتا، جہاں اتحاد ہوگا، وہاں عصبیت کا گزر نہیں ہوسکتا، نبی کریمﷺ نے سخت الفاظ میں اس سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے، حدیث شریف میں وارد ہوا ہے کہ جو عصبیت پر مرا وہ جہالت پر مرا، اور جو عصبیت کا علمبردار ہو وہ ہم میں سے نہیں
اور جو عصبیت پر جنگ کرے وہ ہم میں سے نہیں اور جس کی موت عصبیت پر ہو وہ بھی ہم میں سے نہیں۔” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آپ مومنوں کو آپس میں رحم کرنے، محبت رکھنے اور مہربانی کرنے میں ایسا پائیں گے جیسا کہ ایک بدن ہو، جب اس کے کسی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورے جسم کے سارے اعضا بے خوابی، بے تابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں ( صحیح بخاری، صحیح مسلم) امت مسلمہ کے اسی اتحاد و اتفاق کو حضورﷺ نے ایک عمدہ انداز میں بیان فرمایا، ترجمہ: ایک مسلمان کا تعلق دوسرے مسلمان کے ساتھ ایک مضبوط عمارت جیسا ہے، اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے، پھر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کرکے دکھایا، معلوم ہوا کہ جس طرح ایک ایک اینٹ جوڑ کر عمارت بنائی جاتی ہے اسی طرح ایک ایک فرد ملکر معاشرہ بنتا ہے اور جس طرح ہر اینٹ دوسری اینٹ کو سہارا دیتی ہے اور عمارت بلند اور مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے، اسی طرح پورے اسلامی معاشرے میں ہر فرد کو وہی کردار ادا کرنا چاہئے جو ایک مضبوط عمارت کی ہر اینٹ اس عمارت کے استحکام اور اس کی بقا کیلئے اپنا فرض ادا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے اور آپس میں اخوت و محبت و ہمدردی اور ملکی و ملی اور سماجی و سیاسی اور مسلکی و فروعی اختلافات سے بچائے۔