پنجاب کی جیلوں کا احوال
امتیاز عاصی
پنجاب کی جیلوں میں اعلیٰ افسران کی تعداد کچھ زیادہ ہو گئی ہے ۔ پہلے محکمہ جیل خانہ جات کو ریجن کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا اور ہر ریجن میں ایک ڈی آئی جی کی اسامی تخلیق کی گئی۔ جن محکموں میں ترقی کے مواقع کم ہوں نئی اسامیوں کی تخلیق کوئی بری بات نہیں البتہ ہمیں حیرت اس پر ہوئی محکمہ جیل خانہ جات میں افسران کو کھپانے کے لئے ایک ڈپٹی ڈی آئی جی کی اسامی تخلیق کی گئی ہے۔ پرزن ڈیپارٹمنٹ میں کچھ عرصہ قبل گریڈ اٹھارہ کے افسران کو گریڈ انیس میں ترقی دے کر سنٹرل جیلوں کا سپرنٹنڈنٹ لگایا گیا تھا۔ حال ہی میں بہاولپور اور رحیم یار خان میں ڈپٹی ڈی آئی جی لگائے گئے ہیں سنٹرل جیل راولپنڈی سے تبدیل ہونے والے اسد وڑائچ کو ہائی سیکورٹی جیل ساہیوال میں لگایا گیا تھا شائد انہیں نئی پوسنٹنگ پسند نہیں تھی اب انہیں ڈی جی خان ریجن میں ڈپٹی ڈی آئی جیل تعینات کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے جیلوں میں مبینہ کرپشن کی شکایات پر ڈی آئی جی ہیڈکوارٹر میاں سالک جلال اور محکمہ داخلہ کے ڈپٹی سیکرٹری پرزن پر مشتمل انکوائری کمیٹی قائم کر دی ہے۔ وزیراعلیٰ نے میانوالی کے دورے کے دوران سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ ملک لیاقت علی کو ملازمت سے معطل کر دیا ہے۔ حقائق جاننے والوں کے مطابق ملک لیاقت علی کی خطا مسلم لیگ نون کے ایک ہارے ہوئے امیدوار
کی حسب منشاء کام سے انکار تھا لیکن بے قاعدگیوں کو بنیاد بنا کر اسے معطل کر دیا گیا۔ واقفان حال کے مطابق پہلے ملک لیاقت علی اپنی دسترس میں ہونے والے کام نون لیگی کے کرتا رہا جو کام اس کے دائرہ اختیار سے باہر تھے انکار اس کی ملازمت سے معطلی کا باعث بن گئے۔ اب رہا سیالکوٹ، خانیوال، لودھراں، پہاولنگر، رحیم یار خان اور بہاولپور کی نو تعمیر سینٹرل جیل میں (Rampant )بڑھتی ہوئی کرپشن کے لئے انکوائری کمیٹی کا قیام تو سوال ہے جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس کے تبادلے تو وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سے ہوتے ہیں۔ اگر ان جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس کی شہرت یا ملازمت کا ریکارڈ تسلی بخش نہیں تھا انہیں کیوں تعینات کیا گیا تھا؟ ہمارے خیال میں ان جیلوں کے افسران بارے پی ایم ایل کے ارکان اسمبلی نے شکایات کی ہوں گی۔ ہمارے مشاہدات کے مطابق جیلوں میں سو فیصد کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں البتہ کوشش کی جائے تو کرپشن کو کم کیا جا سکتا ہے جس کے لئے سخت نگرانی کی ضرورت ہے۔ ایک محدود قطعہ اراضی میں مقید انسان ہر لحاظ سے بے بس اور بے کس ہوتا ہے ا فطرت انسانی کا تقاضا ہے انہیں بہت سی اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے۔جیل مینوئل پر پوری طرح عمل کیا جائے تو قیدی چیخ و پکار کریں۔ ضروری نہیں جیلوں کے تمام افسران اور اہل کار مبینہ طور پر بددیانت ہوں اللہ سبحانہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والے بھی ہیں۔ دراصل قیدی اور حوالاتی جیل مینوائل کے برعکس آسائشوں کی طلب کرتے ہیں تو کرپشن کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ سزائے موت کے قیدیوں کو چوبیس گھنٹوں میں صرف دو گھنٹے چہل قدمی کے لئے سیلوں سے نکالا جاتا ہے وہ بھی اپنے پہروں کے اندر ڈھلائی کر سکتے ہیں۔ جیل مینوئل میں سزائے موت کے قیدیوں کو ہتھکڑی لگا کر ڈھلائی کے لئے باہر نکالنا ہوتا ہے لیکن جیلوں میں ہتھکڑیاں دسیتاب نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے سزائے موت کے قیدیوں کو چہل قدمی کراتے وقت اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ عہدہ کے افسر کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔ جب کسی مقدمہ میں ایک خاندان کے افراد جیل آجاتے ہیں ان کی خواہش ہوتی ہے انہیں ایک بیرک میں اکٹھا رکھا
جائے۔ اس معاملے میں جیل مینوئل خاموش ہے اور جیلوں والے نئے آنیوالے حوالایتوں کی اس خواہش کو جس طرح پورا کیا جا تا ہے وہ سمجھنے کی ضرورت نہیں۔ جیل مینوئل میں قیدی اور حوالاتی اپنی بیرکس سے باہر نہیں نکل سکتے البتہ کسی کو جیل کے ہسپتال یا مشقت کے لئے جانا ہو وہ ہیڈ وارڈر کی نگرانی میں جاتا ہے ورنہ کوئی قیدی یا حوالاتی اپنی بیرکس سے کسی دوسری بیرک میں نہیں جا سکتا قیدی اور حوالاتی پورا پورا دن دوسری بیرکس میں رہتے ہیں شام کو گنتی بند ہوتے وقت واپس اپنی بیرکس میں جاتے ہیں۔ جیلوں کے حالات بارے لکھا جائے تو کئی کالم در کا رہیں البتہ ہم چیدہ چیدہ باتیں قارئین کی معلومات کے لئے لکھ رہے ہیں۔ لنگر خانون اور فیکٹریوں میں جو کچھ ہوتا ہے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے جیلوں میں مبینہ کرپشن بارے انکوائری کمیٹی قائم کی ہے اس کی بنیاد اسپیشل برانچ کی سورس رپورٹ ہے۔ ہر جیل میں اسپیشل برانچ کا سب انسپکٹر یا اسٹنٹ سب انسپکٹر تعینات ہوتا ہے جو جیلوں میں ہونے والی سرگرمیوں کی روزانہ رپورٹ اپنے محکمہ کو کرتا ہے جس کے بعد اسپیشل برانچ کا سپرنٹنڈنٹ پولیس اس ضلع میں ہونے والی تمام سرگرمیوں کی رپورٹ جسے ڈی ایس آر کہا جاتا ہے کمشنر، ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ اور چیف سیکرٹری کو ارسال کرتا ہے۔ سوال ہے جب قیدی اور جیل ملازمین باہمی رضامند ی سے کوئی کام کریں گے تو شکایت کا سوال پیدا نہیں ہوتا لہذا سورس رپورٹ محض سنی سنائی باتوں پر مبنی ہوتی ہے جس کا حقائق سے دور کا واسطہ نہیںہوتا۔ تعجب ہے ہر ریجن میں جیلوں کے قریب ڈی آئی جی کے دفاتر ہوتے ہیں ریجن کے ڈی آئی جی اچانک دورے کرتے ہیں ان سے زیادہ با اعتماد کون ہو سکتا ہے۔ اگرچہ یہ درست ہے بعض موقعوں پر قیدی جیل ملازمین کی خوف سے شکایت نہیں کرتے لیکن گریڈ بیس کا ڈی آئی جی جو سپرنٹنڈنٹ جیل کے عہدے سے ترقی پا کر ڈی آئی جی کے عہدے پر پہنچتا ہے محکمہ جیل خانہ جات کو اس پر اعتماد ہونا چاہے نہ کہ ایک گریڈ چودہ کے سب انسپکٹر کی رپورٹ پر کسی افسر کو معطل یا تبدیل کر دیا جائے۔ عمران خان کے دور میں ایک سنگین غلطی کی گئی پیرول پر رہائی کا اختیار ہوم سیکرٹری سے لے کر کابینہ کمیٹی کو دے دیا گیا ہے۔ جیل مینوئل کی رو سے ایسے قیدی جو اپنی قید کا ایک تہائی حصہ گزار چکے ہوں اور جیل میں ان کا کنڈکٹ تسلی بخش ہو تو ایسے قیدیوں کو پیرول پر رہائی ملنی چاہیے۔ نگران دور سے اب تک کابینہ کمیٹی صرف انہی قیدیوں کو پیرول پر رہائی دے رہی ہے جن کی رہائی میں دو تین ماہ باقی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب قیدیوں سے ہمدردی رکھتی ہیں تو اس مسئلے کو بھی حل کرائیں۔