ColumnFayyaz Malik

چھوڑو محبت کی باتیں۔ یہ بتائو بجلی کا بل کتنا آیا؟

فیاض ملک
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گھریلو صارفین کو مہیا کی جانے والی بجلی کون سی ایسی قیمتی چیز سے تیار ہو رہی ہے کہ جو بھی حکومت آتی ہے، وہ بھر پور کوشش کرتی ہے کہ بجلی بل کے نام پر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جائے، دیکھا جائے تو پاکستان میں ہائیڈل اور الیکٹرک پاور کے علاوہ کراچی کیلئے ایک محدود پیمانے پر ایٹمی پاور کے ذریعے بجلی فراہم کی جا رہی ہے لیکن کیا پانی سے پیدا ہونے والی بجلی مہنگی ہے یا تھرمل پاور میں سونے جیسی دھات کو پگھلا کر بجلی پیدا کی جا رہی ہے؟ واپڈا کے قواعد کی رو ایسے صارفین جو 300تک ماہانہ بجلی کے یونٹ استعمال کرتے ہیں وہ عام صارفین کہلاتے ہیں، جنہیں بجلی کے نرخوں میں خاص رعایت حاصل ہوتی ہے، ایسے صارفین سنگل فیز میٹر استعمال کرتے ہیں، جس میں وہ گرمیوں میں گھر میں ایک ایئر کنڈیشنر چلانے کے بجائے ائر کولر استعمال کرتے ہیں۔ ان صارفین کی تعداد تو 70فیصد سے بھی زیادہ ہے مگر 86فیصد بجلی میں سے یہ 31فیصد بجلی استعمال کرتے ہیں، باقی 51 فیصد وہ صارفین ہیں جو ماہانہ 300یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرتے ہیں، دوسری جانب بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافہ کرتے ہوئے نیپرا نے بجلی صارفین کیلئے نرخوں کے نئے سلیب جاری کر دیئے، اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک لطیفہ پیش خدمت ہے کہ ایک گائوں میں بجلی پہنچی اور ہر گھر میں بجلی کے بلب لگا دیئے گئے۔ مہینے بعد میٹر ریڈر کو پہلے ہی گھر میں ایک الجھن سے دو چار ہونا پڑا، میٹر کی سوئیاں صرف چند یونٹ ہی ظاہر کر رہی تھیں، جب کے گھر میں بجلی لگے ایک مہینہ ہو چکا تھا ۔ میٹر ریڈر نے سے پوچھا ، چودھری صاحب آپ لائٹ جلاتے بھی ہیں یا نہیں ؟ چودھری صاحب نے نہایت فخر سے کہا کیوں نہیں جی ہر روز رات کو جلاتے ہیں ۔ میٹر ریڈر نے استفسار کیا ، کتنی دیر تک ؟ بس جی یہی کوئی 10سے 15سیکنڈ ، لالٹین کو دیکھنے کیلئے کہ وہ گھر کے کس کونے میں پڑی ہے۔ یہی صورتحال اس وقت پاکستان کے عوام کی ہے، کیونکہ اس میں تو کوئی شک نہیں رہا کہ واپڈا خسارہ کم کرنے کیلئے حکومت حتی الامکان کوشش کرتی ہے کہ غریب عوام کی بوجھ پر ہی ڈاکا ڈالا جائے۔ بجلی بلوں میں ایک یونٹ کے فرق پر ہزاروں روپے کا اضافہ غیر قانونی ہے جس کی وجہ سے عوام گھر کا سامان بیچنے پر مجبور ہو گئے، یہ دنیا کی خوفناک ترین ڈکیتی ہے جس کو سمجھنے کیلئے ہم سب کو بجلی کے حالیہ بلوں میں پروٹیکٹ کیٹیگری اور نان پروٹیکٹ کیٹگری کا فرق سمجھنا ہوگا، مثلا200یونٹ کا بل 3083روپے ہے تو 201یونٹس کا بل 8154روپے ، یعنی کہ صرف ایک یونٹ کے اضافی استعمال کی وجہ سے بجلی کے بل میں اضافی 5071روپے مطلب 200یونٹ سے اوپر ایک یونٹ کا بل 5071روپے آ سکتا ہے، مزید برآں یہ ریٹ آپ کو اگلے 6ماہ تک مسلسل بھرنا ہوگا۔ مطلب یہ ایک یونٹ آپ کو 30000روپے کا پڑتا ہے، خبر ہے کہ لیسکو میں صارفین سے ایک مرتبہ پھر کروڑوں روپے کی اوور بلنگ کا انکشاف ہوا ہے، ماہانہ بل 170سے 200یونٹس والوں کو پانچ ہزار روپے اضافی بل کی ادائیگی کرنا پڑی، ہزاروں صارفین کو200سے اوپر کیٹیگری میں زبردستی شامل کیا گیا جبکہ لیسکو کے گھریلو صارفین کی مجموعی تعداد 49لاکھ71ہزار377ہے، گزشتہ سال کی نسبت رواں سال پروٹیکٹڈ صارفین کی تعداد میں 502959کا اضافہ ہوا، گزشتہ سال 16لاکھ 78ہزار129صارفین پروٹیکٹڈ کیٹگری میں شامل تھے، رواں سال یہ تعداد بڑھ کر 21لاکھ 81ہزار88تک پہنچ گئی ہے، رواں ماہ صرف 49ہزار753صارفین پروٹیکٹڈکیٹگری سے باہر آئے، یہ تعداد کل گھریلو صارفین کا صرف1فیصد ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اب کی بار تو بجلی کے بلوں نے بھی عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔
موجودہ صورتحال میں ایک لڑکے نے ایک لڑکی سے انگریزی میں کہا ( آئی لو یو ) تو جواب میں لڑکی نے کہا مجھے انگریزی نہیں آتی اردو میں بات کرو! جس پر وہ لڑکا بولا کچھ نہیں میری بہن، بس دعا کرو بجلی سستی ہو جائے۔
پاکستان میں قریب قریب یہی حالت بجلی کی روزبروز بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عوام کا حال ہی برا کر دیا ہے !بجلی کے مہنگے یونٹس، بے تحاشہ ٹیکسز کی وجہ سے اس وقت لوگوں کی بری حالت ہے، آپ جتنی بھی کم بجلی استعمال کر لیں پھر بھی آپ کا بل دس ہزار سے کم نہیں آرہا، ایک طرف لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیلنے کے ساتھ ساتھ اب صارفین مہنگی بجلی بھی خریدنے پر مجبور ہیں کہ ان کو تو ہر مہینے بل دینا ہی ہوتا ہے، وگرنہ دوسری صورت میں بل کی عدم ادائیگی کی وجہ سے روشنی سے محروم ہوسکتے ہیں، یہ اس غریب عوام کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔ اس کا نوٹس کون لے گا ؟ اس حوالے سے لیسکو حکام کا موقف ہے کہ کسی صارف کو اوور بلنگ نہیں کی گئی ، 30روزہ آٹو میٹک کمپیوٹر بلنگ کرتا ہے پھر بھی کسی صارف کو شکایت ہے تو وہ رابطہ کر سکتا ہے ، دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ سید محسن نقوی کی ہدایت پر ایف آئی اے نے اوور بلنگ کے خاتمے کیلئے لیسکو کیخلاف پروٹیکٹڈ صارفین کو اوور بلنگ کیے جانے کی شکایات پر کارروائی کرتے ہوئے انکوائری شروع کر دی۔ ترجمان ایف آئی اے کے مطابق لیسکو کے ڈائریکٹر کسٹمر سروسز اور ڈائریکٹر جنرل آئی ٹی کو نوٹس جاری کر دیئے اور لیسکو افسران سے بلنگ کا ڈیٹا اور دیگر تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔ دیکھا جائے تو شتر بے مہار واپڈا کو مکمل بوجھ یہ 70فیصد عام صارفین ہی اٹھا رہے ہیں، لائن لاسز کے ساتھ ساتھ چوری شدہ بجلی اور واپڈا ملازمین کو مفت دی جانیوالی بجلی کی قیمت بھی غریب عوام کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے، اس کے علاوہ یاد دلاتا چلوں کہ ہمارے ملک میں ایسے بہت سے محکمے ہیں جو عرصہ 20یا 30سال سے واپڈا کے ڈیفالٹر چلے آ رہے ہیں لیکن افسر شاہی ان محکموں کے بجلی میٹر کاٹنے کی جرات نہیں رکھتی۔
اس صورتحال میں کوئی پھڑکتا سا لطیفہ، اسے نچوڑیں تو ایک سنجیدہ سی سچائی ٹپک پڑتی ہے۔ بلکہ اسی طرح جیسے ایک پرائمری سکول کے ٹیچر نے مناسب سمجھا کر روز مرہ زندگی میں سے مثالیں دی جائیں، اس نے اپنے شاگردوں کو بجلی کی بارے میں بتاتے ہوئے ایک شاگرد کو کھڑے ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ فرض کرو میں پنکھے کا بٹن دباتا ہوں لیکن پنکھا نہیں چلتا تو اس کا کیا مطلب ہے‘‘، شاگرد نے جواب دیا’’ یہی کے آپ نے بجلی کا بل ادا نہیں کیا ہے‘‘، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ لائن لاسز کے ساتھ ساتھ چوری شدہ بجلی اور واپڈا ملازمین کو مفت دی جانیوالی بجلی کی قیمت بھی غریب عوام کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے، عام آدمی اب یہ بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہا، عوام مہنگائی اور بیروزگاری کے طوفان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ ریت کی دیوار اس لیے کہا کہ اگر عوام مہنگائی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تو حکومت بھی مہنگائی کو روکنے کیلئے کوئی نسخہ نکال لاتی لیکن عوام شاید گزشتہ کئی حکومتوں کی عوام دشمن پالیسیوں کو سہتے سہتے تھک سے گئے ہیں اب مہنگائی سے عوام کے رونگٹے کھڑے نہیں ہوتے اور وہ مسلسل سسکنے پر ہی گزارہ کرنا چاہتے ہیں، افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم ایک ایسی قوم ہیں جو اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے کی بجائے کسی ایسے مسیحا کے انتظار میں ہے جو اس نظام کو ٹھیک کر سکے لیکن کنٹینر پر کھڑے ہو کر عوام کو بجلی کے بل پھاڑ کر دکھانے سے اگر کام چلتا ہو تو کون پاگل ہے جو ہمارے حقوق کیلئے لڑے، شیخ سعدی نے کہیں کہا تھا کہ ایک دفعہ دمشق میں اس شدت کا قحط پڑا کہ لوگ عشق کرنا بھول گئے، اب تو ہر کوئی ایک دوسرے سے بس یہی پوچھتا دکھائی دیتا ہے کہ
چھوڑو یہ محبت کی باتیں
یہ بتائو بجلی کا بل کتنا آیا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button